Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہر ۳؍میں سےایک فلسطینی کئی دنوں سے بھوکا:یو این، ۲۳ لاکھ کی آبادی کیلئے یومیہ ۶۰۰؍ ٹرک امدادکی ضرورت

Updated: July 28, 2025, 8:03 PM IST | Gaza

اگرچہ کئی حکومتوں اور بین الاقوامی تنظیموں نے غزہ میں سینکڑوں امدادی ٹرک پہنچانے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے لیکن غزہ کے میڈیا آفس نے صرف ۷۳ امدادی ٹرکوں کے پہنچنے کی اطلاع دی ہے۔

Children in Gaza are dying of hunger. Photo: INN
غزہ کے بچے بھوک سے دم توڑ رہے ہیں۔ تصویر: آئی این این

اقوام متحدہ (یو این) کی انسانی ہمدردی کی تنظیم کے اعلیٰ عہدیدار نے اتوار کو غزہ میں سنگین تر ہوتے انسانی بحران کے متعلق خبردار کیا ہے۔ انسانی امور اور ہنگامی امداد کے کوآرڈینیٹر اور انڈر سیکریٹری جنرل، ٹام فلیچر نے بتایا کہ غزہ کی ایک تہائی آبادی نے ”کئی دنوں“ سے کھانا نہیں کھایا ہے اور خوراک کی امداد کی شدید قلت کے باعث بچے ”شدید کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔“ انہوں نے امداد میں ایک ہفتے کی توسیع کے اسرائیلی فیصلے کا خیرمقدم کیا جس میں کسٹم کی رکاوٹوں کو ہٹانا اور نقل و حرکت کی پابندیوں میں نرمی شامل ہے۔ 

ابتدائی رپورٹس کے مطابق، ۱۰۰ سے زیادہ ٹرکوں پر لدی امداد کو غزہ میں منتقل کرنے سرحدوں پر جمع کیا گیا۔ فلیچر نے کہا کہ ”یہ ایک پیش رفت ہے لیکن قحط اور ایک تباہ کن صحت کے بحران کو ٹالنے کیلئے بہت بڑی مقدار میں امداد کی ضرورت ہے۔“ انہوں نے امداد تک فوری اور پائیدار رسائی، امدادی قافلوں کی تیزی سے منظوری، ایندھن کی مستقل فراہمی اور حملوں سے پاک محفوظ انسانی ہمدردی کی راہداریوں کا مطالبہ کیا۔

یہ بھی پڑھئے: اسرائیل غزہ کیلئے انسانی امدادکی بڑی مقدار کوتباہ کرچکا ہے

فلیچر نے مزید کہا کہ ”فلسطینی صرف اپنے خاندانوں کو کھانا کھلانے کی کوشش کرتے ہوئے گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ محصور علاقے میں امداد کے داخلے کو روکا نہیں جانا چاہئے، اس کی فراہمی میں تاخیر نہیں کی جانی چاہئے اور اس پر حملہ نہیں کیا جانا چاہئے۔“ فلیچر نے تمام یرغمالیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی کے اقوام متحدہ کے مطالبے کا بھی اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ”آخرکار، ہمیں صرف ایک وقفے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایک مستقل جنگ بندی کی ضرورت ہے۔“

”امداد کے نام پر مذاق کیا جارہا ہے“

غزہ میں مقامی حکام نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ذریعے مہینوں سے جاری ناکہ بندی کے باعث بڑھتے ہوئے قحط کے درمیان، محصور علاقے میں گزشتہ ۲۴ گھنٹوں کے دوران صرف ۷۳ امدادی ٹرک داخل ہوئے۔ سرکاری میڈیا آفس نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ غزہ پٹی میں انسانی بحران بے مثال سطح پر پہنچ گیا ہے، اسرائیلی نسل کشی کے آغاز سے اب تک کم از کم ۱۳۳ افراد، جن میں ۸۷ بچے شامل ہیں، بھوک سے دم توڑ چکے ہیں۔ آفس نے اسرائیل پر علاقے میں جان بوجھ کر افراتفری اور بھوک پیدا کرنے کا الزام لگایا۔ بیان میں کہا گیا کہ ”علاقے میں قحط تشویشناک شرح سے پھیل رہا ہے اور اب تقریباً ۱۱ لاکھ بچوں سمیت غزہ کی پوری آبادی کو متاثر کر رہا ہے۔“

یہ بھی پڑھئے: اسرائیل مغربی کنارے کے۸۴؍ فیصد آبی وسائل پر قابض، فلسطینی بحران کا شکار

اگرچہ کئی حکومتوں اور بین الاقوامی تنظیموں نے غزہ میں سینکڑوں امدادی ٹرک پہنچانے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے لیکن غزہ کے میڈیا آفس نے صرف ۷۳ امدادی ٹرکوں کے پہنچنے کی اطلاع دی ہے جبکہ کئی امدادی ٹرک اسرائیلی نگرانی میں لوٹ لئے گئے یا روک دیئے گئے۔ میڈیا آفس نے کہا کہ فضائی راستے سے غزہ میں تین دفعہ امداد پہنچائی گئی لیکن ان کا کل وزن صرف ۲ امدادی ٹرکوں کے برابر تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ امداد ”ریڈ زونز“ میں اتری جو اسرائیلی نقشوں پر نشان زد فعال جنگی علاقے ہیں اور عام شہری محفوظ طریقے سے سامان حاصل نہیں کر سکتے۔

میڈیا آفس کا کہنا ہے کہ ”جو کچھ ہورہا ہے، وہ ایک مذاق ہے۔“ آفس نے بین الاقوامی برادری پر امریکہ جیسی بڑی طاقتوں کے ”جھوٹے وعدوں“ اور ”گمراہ کن معلومات“ کے ذریعے ملی بھگت کا الزام لگایا۔ آفس نے سرحدی گزرگاہوں کو غیر مشروط طور پر دوبارہ کھولنے اور خوراک، پانی اور شیر خوار بچوں کی خوراک کے فوری داخلے کا دوبارہ مطالبہ کیا۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ میں قحط کی صورتحال پر دنیا بھر میں شدید تشویش

غزہ کو یومیہ ۶۰۰ امدادی ٹرکوں کی ضرورت

فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ غزہ کو ۲۴ لاکھ نفوس پر مشتمل اپنی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے روزانہ ۶۰۰ امدادی ٹرکوں کی ضرورت ہے۔ اتوار کو اسرائیل نے محصور علاقے میں درجنوں فلسطینیوں کی بھوک سے ہلاکت کے بعد نامزد محفوظ کوریڈورز کے ذریعے امداد کی فراہمی کی اجازت دینے کیلئے لڑائی میں مقامی سطح پر عارضی وقفوں کا اعلان کیا۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے ۱۸ سال سے غزہ کی ناکہ بندی کر رکھی ہے اور ۲ مارچ سے تمام گزرگاہوں کو بند کردیا ہے جس سے انکلیو میں انسانی صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔ غزہ کا بھوک کا بحران ایک انسانی تباہی میں بدل چکا ہے۔ دل دہلا دینے والی فوٹیج میں غزہ کے شدید کمزور شہریوں کو دیکھا جاسکتا ہے جو تھکاوٹ، پانی کی کمی اور طویل بھوک کاسامنا کرکے ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل ہو گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: برطانیہ غزہ کے فوری طبی امداد کے محتاج بچوں کو نکالے گا: برطانوی وزیر اعظم

غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی

جنگ بندی کی بین الاقوامی اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے، اسرائیلی فوج نے ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے غزہ پر وحشیانہ حملے جاری رکھے ہیں جس کے نتیجے میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک ۵۹ ہزار ۸۰۰ سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ فلسطین کی وفا نیوز ایجنسی کے مطابق، تقریباً ۱۱ ہزار فلسطینی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اموات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ۲ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اس نسل کشی کے دوران، اسرائیل نے محصور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کی تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ اسرائیلی قابض افواج کی مسلسل بمباری کے باعث غزہ پٹی میں خوراک کی شدید قلت اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ نومبر میں، بین الاقوامی فوجداری عدالت نے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تھے۔ اسرائیل اپنی جنگ کیلئے بین الاقوامی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمہ کا بھی سامنا کررہا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ کیلئے امید کی بوتل: اناج سے بھری پلاسٹک کی بوتلیں بحیرۂ روم کے حوالے

دریں اثنا، جنگ بندی مذاکرات تعطل کا شکار ہیں، اسرائیل اور امریکہ نے قطر میں مذاکرات سے اپنے وفود کو واپس بلالیا ہے۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ وہ جنگ کو تب ہی ختم کرے گا جب حماس ہتھیار ڈال دے۔ یہ ایسی شرط ہے جسے حماس نے مسترد کردیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK