جنگ بیشک کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے مگر یہ بھی صحیح ہے کہ غزہ میں اسرائیل کو جھکنے اور جنگ بندی کرنے پر مجبور اسی لئے کیا جاسکا ہے کہ غزہ کے عوام نے مزاحمت اور مزاحمت کرنے میں استقامت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ٹرمپ کا یہ کہنا کہ میں غزہ کو خریدنے اور اسکی ملکیت کے بارے میں پُرعزم ہوں ان کی نیت کو ظاہر کرتا ہے۔
اگر کوئی شخص کسی حکمراں کا ایجنٹ اور حکومت کا باجگزار نہ ہو تو یہی کہے گا کہ فلسطینی عوام کو اپنی سرزمین پر رہنے کا حق ہے۔ یہی دنیا کے بیشتر ملکوں میں کہا بھی جا رہا ہے اسکے باوجود ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ کہنا کہ فلسطینیوں یا غزہ کے عوام کو مصر اور اردن اپنی زمین پر بسا لیں ہزاروں خدشات کو جنم دیتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کھچڑی تیار ہوچکی ہے بس اسکے لقمہ بننے کی دیر ہے۔ اسرائیل کے قیام کے وقت بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ مسلم ملکوں یعنی جن ملکوں میں بادشاہ یا عوام کی اکثریت مسلمان تھی یہی کہا جا رہا تھا کہ اسرائیل کا قیام ناجائز ہوگا اسکے باوجود اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔ جنگیں ہوئیں ، اسرائیل کی حامی طاقتوں نے اتحاد کا مظاہرہ کیا مگر جنگ ہارنے والے ملکوں میں سازشیں ہوتی رہیں ، کچھ سازشیں بے نقاب ہوئیں ، کچھ ارباب اقتدار معزول ہوئے، کچھ نے خودکشی کی مثلاً مصر کے علی صبری نے، مگر اسرائیل طاقتور ہوتا گیا۔ ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو شروع ہونیوالی جنگ اس اعتبار سے پہلی جنگ تھی کہ اسرائیل کے مدمقابل کوئی عرب یا مسلم حکومت نہیں غزہ کے عوام تھے، غزہ کے عوام اتنی بڑی تعداد میں مارے گئے اور نقل مکانی پر مجبور ہوئے کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے اسکے باوجود اس جنگ میں اسرائیل اور اس کی پشت پناہ طاقتوں کے بھی ہوش ٹھکانے آگئے، ایسی صورت میں ’’نیا جال لائے پرانے شکاری‘ کے مصداق ٹرمپ نے غزہ کو ان کی سر زمین سے محروم کر دینے کا منصوبہ پیش کیا۔ یہ جنگ اور طاقت کے استعمال کے باوجود ناکامی کا شاخسانہ تھا۔ اس لئے تشدد اور دہشت کی مخالفت کے باوجود غزہ اور فلسطین کے عوام کی قوت مدافعت کے بھرپور استعمال کو جائز ٹھہرانا غلط نہیں ہے مگر مشکل یہ ہے کہ جب بھی حق و باطل اور ظالم و مظلوم میں جنگ چھڑتی ہے ایک طبقہ اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے اور مفاد کے تحت ہی ظالم سے مفاہمت کی راہ نکال لیتا ہے۔ بڑی طاقتیں اس حقیقت کو خوب جانتی اور فائدہ اٹھاتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کرتا رہا ہے۔
اب جبکہ نیتن یاہو نے اعلان کر دیا ہے کہ سعودی عرب میں کافی زمین ہے اور غزہ کے عوام کو وہیں آباد ہونا اور فلسطینی ریاست قائم کرنا چاہئے تو واضح ہوگیا ہے کہ اسرائیل کا منصوبہ کیا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں یا غزہ کے عوام کیلئے غزہ یا فلسطین میں ایک نئی مملکت قائم کرنے پر بالکل رضا مند نہیں ہے۔ ایسے میں سعودی عرب نے ہمت دکھاتے ہوئے کہا ہے کہ دو ریاستی حل کے ذریعہ ہی پائیدار امن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے مگر یہ سوال سوال ہی رہنے دیا کہ پائیدار حل پر اسرائیل اور اسرائیل نوازوں کو آمادہ یا مجبور کون کریگا؟ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے غزہ پٹی سے وہاں کے باشندوں کے بھگائے جانے کے مسئلہ پر گفتگو کیلئے او آئی سی (اسلامی ملکوں کی باہمی تعاون کی تنظیم) کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے صحیح کہا ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کی کوشش نہ صرف بڑا جرم بلکہ نسل کشی ہے۔ مصری وزارت خارجہ نے ۲۷؍ فروری کو عرب ملکوں کا ہنگامی اجلاس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ مصر جمال عبدالناصر کے زمانے تک سوویت یونین کا ہمنوا رہا مگر بعد میں امریکی گرفت میں آتا چلا گیا۔ آج مصر میں ایسی حکومت برسر اقتدار ہے جس کو پوری طرح امریکہ نواز سمجھا جاتا ہے مگر اس نے بھی ڈونالڈ ٹرمپ کے منصوبے کی مخالفت کی ہے۔ اس کی وزارت خارجہ نے بیان جاری کیا ہے کہ عرب ملکوں کا ہنگامی اجلاس ان سے مشورہ کرنے کے بعد طلب کیا گیا ہے۔ وزیر خارجہ بدر محمد عبدالعاطی واشنگٹن بھی گئے ہیں کہ اعلیٰ امریکی حکام ملاقات کرکے اپنے ملک کا موقف رکھ سکیں ۔ سمجھا جا رہا ہے کہ عربوں کے ہنگامی اجلاس میں ٹرمپ کے اس مشورے کی سخت لفظوں میں مخالفت کی جائیگی کہ غزہ کے بچے کھچے عوام کو مصر اور اردن اپنی اپنی زمینوں پر بسنے کی اجازت دیں ۔
اسی دوران ایک خبر یہ آئی ہے کہ اسرائیلی فوجوں نے غزہ کی مرکزی راہداری اور نتساریم کوریڈور کو مکمل طور سے خالی کر دیا ہے اس نے اپنی پوزیشنیں اور چوکیاں بھی ہٹا لی ہیں جس سے دونوں جانب گاڑیوں کی آزادانہ گزر ہو رہی ہے۔ اس کی تصدیق حماس کے دفتر سے بھی ہوئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک طرف صلح یا جنگ بندی کے نام پر جھانسہ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور دوسری طرف غزہ کے باشندوں کو ان کی سر زمین سے محروم کرنے کی بھی سازش کی جا رہی ہے۔ ان تمام خبروں کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ غزہ میں امریکہ اور اسرائیل سے امیدیں بھی بہت ہیں اور خدشات بھی۔ مگر امیدیں اسی صورت میں کارگر ثابت ہوں گی جب غزہ یا فلسطین کے باشندوں میں مزاحمت اور دماغ کی قوت باقی رہے۔ ایران کی قیادت کے بیانات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ عرب اور مسلم ملکوں کا اسرائیل کے خلاف سخت موقف چاہتا ہے۔
جنگ بیشک کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے مگر یہ بھی صحیح ہے کہ غزہ میں اسرائیل کو جھکنے اور جنگ بندی کرنے پر مجبور اسی لئے کیا جاسکا ہے کہ غزہ کے عوام نے مزاحمت اور مزاحمت کرنے میں استقامت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ کہنا کہ میں غزہ کو خریدنے اور اسکی ملکیت کے بارے میں پُرعزم ہوں ان کی نیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی لئے بشمول ترکی اور سعودی عرب ہر ملک نے ٹرمپ کے منصوبے کو مسترد کیا ہے مگر صرف مسترد کرنا بدنیتی کا علاج نہیں ہے۔ اس کیلئے تمام امن و انصاف پسند طاقتوں کو غزہ کے عوام کیساتھ کھڑا رہنا ہوگا۔ غزہ میں جو ہوا تکلیف دہ ہونے کے باوجود خوش آئند تھا۔ اگر غزہ کے عوام نے مزاحمت میں استقامت کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا تو غزہ اسی طرح اسرائیل کی جھولی میں چلا جاتا جس طرح دیگر عرب علاقے چلے گئے ہیں ۔ اب اسرائیل امریکی صدر کے ذریعہ انہیں جھانسہ دے رہا ہے مگر عرب بھی ہوشیاری سے کام کر رہے ہیں ۔ ایک سعودی وزیر نے بیان دیا ہے کہ اگر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ خطے میں امن، استحکام اور خوشحالی چاہتے ہیں تو وہ اپنے چہیتے اسرائیل کو الاسکا منتقل کریں ۔ اس بیان میں بڑی جرأت ہے مگر بیان میں جرأت کیساتھ اقدام میں جرأتمندی بھی ضروری ہے۔ مختصر یہ کہ امریکہ اور اسرائیل شروع سے ہی ایسی چال چلتے آئے ہیں کہ مملکت فلسطین کے قیام میں رخنہ پڑتا جا رہا ہے۔ حیرت ہے کہ اس ٹال مٹول کو سمجھنے میں عرب مملکتوں نے دیر کی۔ انہیں سمجھنا چاہئے کہ اسرائیل کا منصوبہ صرف قیام مملکت فلسطین میں رخنہ ڈالنا نہیں عرب مملکتوں کو اپنا باجگزار بنانا بھی ہے۔