• Tue, 14 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مسلم آبادی کے لحاظ سے اہم ریاست ہے آسام

Updated: October 07, 2025, 1:53 PM IST | Sohail Waheed | Mumbai

اس اعتبار سے ریاستی اسمبلی میں ۵۵؍ مسلم اراکین اسمبلی ہونے چاہئیں مگر آج تک ایسا نہیں ہوا کہ اتنےمسلمان ریاستی اسمبلی میں نمائندگی کیلئے منتخب ہوئے ہوں۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این
لکشدیپ اور جموں کشمیر کے بعد آسام ہندوستان کا ایسا بڑا صوبہ ہے جہاں مسلم آبادی بہت زیادہ ہے۔ لکشدیپ میں لگ بھگ ۹۶؍ فیصد، کشمیر میں ۶۸؍ فیصد سے زیادہ اور آسام میں قریب ۴۰؍ فیصد مسلمان بستے ہیں۔ مگر اس سے قبل کہ مَیں دیگر ریاستوں کی بابت اعدادوشمار کے حوالے سے کچھ کہنے کی کوشش کروں، آج کے مضمون میں صرف آسام کی صورت حال پر گفتگو ہوگی: 
آسام میں مسلم آبادی یا بساوٹ کافی پیچیدہ ہے پھر بھی درجن بھر ضلع ایسے ہیں جو ۵۰؍ تا ۹۵؍ فیصد مسلمانوں کا مسکن ہیں۔ آسام ہی وہ صوبہ ہے جہاں سے این آر سی کا معاملہ اٹھا اور پورے ملک کیلئے تشویش کا سبب بن گیا۔ آسام ہی وہ صوبہ ہے جہاں روہنگیا اور بنگالی ’میاں‘ مسلمانوں کی مبینہ دراندازی کا مسئلہ بار بار سیاسی حربہ بنتا ہے۔ سن ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے اعداد کے مطابق آسام میں مسلم آبادی ۳۴؍ تا ۳۶؍ فیصد تک تھی۔ وہاں کی صوبائی اسمبلی میں کل ۱۲۶؍ سیٹیں ہیں۔ مسلم آبادی کے حساب سے آسام اسمبلی میں قریب ۵۵؍ مسلم ایم ایل اے ہونے چاہئیں لیکن ابھی تک کبھی ایسا نہیں ہوا۔ سن ۲۰۲۱ء میں ہوئے انتخابات میں ۳۱؍ مسلم ایم ایل اے جیتے ہیں۔ اس سے پہلے ۲۰۱۶ء میں ۲۹؍ کو کامیابی ملی تھی۔ 
یہ بات سب سے زیادہ سمجھنے کی ہے کہ لکشدیپ، کشمیر اور آسام میں بھلے ہی مسلم آبادی زیادہ ہو، لیکن پورے ملک میں سب سے زیادہ مسلمان شمالی ہند کے سب سے بڑے صوبے اتر پردیش میں ہی بستے ہیں جہاں ان کی کل آبادی چار کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ یوپی میں بھی آزاد ہندوستان کی تاریخ میں مسلمانوں کو کبھی بھی آبادی کے تناسب میں سیاسی نمائندگی نہیں ملی تو آسام سے کیوں اُمید وابستہ کی جائے، وہاں تو کل مسلمان قریب ڈیڑھ کروڑ ہی ہیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں سماجیات کے پروفیسرنظام الدین صدیقی کی گزشتہ برس ایک تحقیقی رپورٹ شائع ہوئی تھی جس کے مطابق آسام میں مسلمانوں کی حالت بہت دگرگوں ہے۔ یہاں مسلم آبادی تو ۴۰؍ فیصد ہے مگر جیلوں میں زیر سماعت مسلم قیدی ۵۲ء۵۴؍ فیصد اور سزایافتہ مسلم قیدیوں کی تعداد ۵۵ء۶؍ فیصد ہے۔ یہ اعداد این سی آربی ۲۰۲۲ء سے مستعار ہیں۔ موجودہ آسام اسمبلی کے ۳۱؍ مسلم ایم ایل ایز میں ایک بھی مسلم وزیر نہیں ہے۔ جو ۱۴؍ ممبران پارلیمنٹ منتخب ہوئے اُن میں سے صرف دو مسلمان ہیں۔ آسام میں ڈی ایم یا ایس پی جیسے عہدوں پر بھی کوئی مسلمان نہیں ہے۔ گوہاٹی ہائی کورٹ میں صرف ایک مسلم خاتون جج ہیں۔ آسام میں دو مرکزی اور ۱۴؍  ریاستی یونیورسٹیاں ہیں، ان میں سے گوہاٹی یونیورسٹی میں مسلم اساتذہ کی تعداد ۷ء۴۷؍ فیصد ہے، باقی میں کسی میں بھی ۵؍ فیصد بھی نہیں ہے۔ 
آسام کے مسلمانوں کی غربت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی ہی طرح کے بنگالی بولنے والے ہندوؤں میں شرح غربت صرف ۱۲؍ فیصد ہے، جبکہ ایسی ہی بنگالی زبان بولنے والے مسلمانوں میں یہی شرح ۳۹؍ فیصد ہے۔ ایسا تب ہے جبکہ آسام میں غریبی کی شرح تیزی سے کم ہو رہی ہے، اس کیلئے نیتی آیوگ نے آسام کی تعریف بھی کی ہے کہ کیسے ۱۴۔۲۰۱۳ء میں وہاں غریبی کی شرح جو ۳۶ء۹۷؍ تھی وہ ۲۳۔۲۰۲۲ء آتے آتے گھٹ کر ۱۴ء۴۷؍ رہ گئی۔ آسام میں غربت کم ہو رہی ہے تو ظاہر ہے کہ خوشحالی بڑھ رہی ہے۔ اس خوشحالی میں آسام کے مسلمانوں کا کتنا حصہ ہے، شاید ہی کوئی اس کے بارے میں بتا سکے۔
آسام کی مسلم سیاست کا سب سے بڑا نام مولانا بدرالدین اجمل قاسمی کا ہے جنہوں نے ۲۰۰۵ء میں ’آسام یونائٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ‘ (اے ڈی سی پی) قائم کی اور ۲۰۰۶ء میں اس کے دس ممبران آسام اسمبلی میں پہنچ گئے۔ اس کے بعد ۲۰۱۱ء میں ۱۳؍ فیصد  ووٹ حاصل کئے اور اس کے ۱۸؍ ایل ایل اے جیتے۔ اس کے بعد ۲۰۱۶ء میں بھی ۱۳؍ فیصد ووٹ اسے ملے اور ۱۳؍ ایم ایل اے کامیابی حاصل کرپائے۔ اس کے بعد ۲۰۲۱ء میں اس کے ووٹ کم ہوکر محض ۹ء۳؍ فیصد ووٹ ملے اور اس کی سیٹیں ۱۶؍ ہو گئیں۔ مولانا اجمل نے اپنی پارٹی کو ۲۰۰۹ء میں آسام سے نکال کر دلی تک پہنچایا اور اس کا نام ’آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ‘ (اے آئی یو ڈی ایف) کر دیا اور پھر لوک سبھا کا الیکشن لڑا۔
۱۶ء۳؍ فیصد ووٹ حاصل کر کے اجمل صاحب لوک سبھا کیلئے منتخب کئے گئے۔ اس کے بعد ۲۰۱۴ء کے پارلیمانی انتخاب میں ۱۴ء۸؍ فیصد ووٹ کے ساتھ ان کی پارٹی کے تین ایم پی منتخب ہوئے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور ۲۰۱۹ء میں صرف ۷ء۸؍ فیصد ووٹ ہی ان کی پارٹی کو ملے اور صرف ایک ممبر جیت سکا۔ سن ۲۰۰۹ء کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے کہ بدرالدین اجمل کی پارٹی سے کوئی بھی شخص پارلیمنٹ میں نہیں ہے کیونکہ ۲۰۲۴ء کے پارلیمانی انتخابات میں کانگریس کے رقیب الحسین نے مولانا بدرالدین اجمل کو قریب ۱۰؍ لاکھ ووٹوں سے شکست دے کر تہلکہ مچا دیا۔ مولانا کو صرف ۱۸ء۷۲؍ فیصد ووٹ ملے۔ یہ پورے ہندوستان کی سب سے زیادہ فرق سے ہونے والی فتح تھی۔ رقیب الحسین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے ہیں۔ ایم پی بننے سے پہلے کئی بار آسام ریاستی سرکار میں کئی محکموں کے وزیر رہ چکے ہیں، دو سال پہلے تک حزب اختلاف کے لیڈر تھے۔
۲۰۰۵ء میں اپنی سیاسی جماعت قائم کرنے والے مولانا بدرالدین اجمل قاسمی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ سیاست میں تو وہ بعد میں آئے جب انہوں نے ۲۰۰۵ء میں سیاسی پارٹی قائم کی جس کا ذکر اوپر آچکا ہے، اس سے قبل ایک ملی ّ قائد، تعلیمی شخصیت اور تاجر کی حیثیت سے مشہور رہے ، اب بھی ہیں۔ اُن کے والد حاجی اجمل علی چاول کے کاشتکار تھے جنہوں نے ممبئی میں عطر کی صنعت قائم کی اور اس کا کاروبار شروع کیا تھا جسے بعد میں بدرالدین اجمل نے  سنبھالا اور اسے ترقی کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ دبئی میں ان کی عطر کمپنی کا وسیع کارخانہ ہے۔ اس کے شوروم ہندوستان کے تمام اہم شہروں کے علاوہ دنیا بھر کے اہم مقامات پر ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK