Inquilab Logo Happiest Places to Work

بہار میں نئی سیاسی صف بندی کی کوشش!

Updated: May 22, 2025, 3:18 PM IST | Dr. Mushtaq Ahmed | Mumbai

پرشانت کشور کی ’جن سوراج پارٹی’ اور آر سی پی سنگھ کی پارٹی ’آپ سب کی آواز‘ کا انضمام ہو گیاہے۔ یہ دونوں کبھی نتیش کمار کی ناک کے بال ہوا کرتے تھے مگر اب انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کی مہم میں لگے ہوئے ہیں۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

ہم سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ سالِ رواں میں صرف ریاست بہار میں اسمبلی انتخاب ہونا ہے اور بہار کا اسمبلی انتخاب نہ صرف ریاست بہار کے لئے بلکہ قومی سیاست کے لئے بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے ۔کیوں کہ گزشتہ دو دہائی سے بہار میں نتیش کمار کی قیادت والی حکومت ہے اور حالیہ پارلیمانی انتخابی نتائج کے بعد نتیش کمارکی پارٹی جنتا دل متحدہ کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا ہے کہ نریندر مودی حکومت اس پارٹی کی حمایت کے بغیر تشکیل نہیں پا سکتی تھی۔بہار میں جنتا دل متحدہ اور بھارتیہ جنتا پارٹی اتحاد کی حکومت ہے اور اس اسمبلی انتخاب میں بھی نتیش کمار کی قیادت قبول کرلی گئی ہے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کے ذریعہ وقتاً فوقتاً ایسے متنازع بیانات بھی آتے رہے ہیں جن سے جنتا دل متحدہ کے کارکنوں کے اندر شک وشبہات پیدا ہوئے ہیں۔ ممکن ہے کہ اسمبلی انتخاب کے نتائج کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی نتیش کمار کو وزیر اعلیٰ کے طورپر قبول نہ کرے لیکن نتیش کمار کے حامیوں کی طرف سے بھی یہ دعویٰ کیا جا رہاہے کہ اگر نتیش کمار کی قیادت قبول نہیں کی گئی تو پھر نئی سیاسی صف بندی بھی ہو سکتی ہے۔
 بہر کیف! قومی جمہوری اتحاد اور راشٹریہ جنتا دل وکانگریس کے ساتھ ساتھ بایاں محاذ کی عظیم اتحاد آئندہ اسمبلی انتخاب کی تیاری میں مصروف ہے اور دونوں اتحادیوں کی طرف سے بوتھوں کی سطح تک اپنے کارکنوں کو فعال کرنے کے لئے طرح طرح کے سیاسی پروگرام جاری کئے جا رہے ہیں اور جلسے جلوس بھی منعقد ہو رہے ہیں۔مگر ان دونوں اتحادیوں کے علاوہ کئی نئی سیاسی جماعتوں کی غیر معمولی فعالیت نے دونوں بڑے اتحادیوں کے لئے فکر مندی لاحق کردی ہے ۔اسی اتوار کو پرشانت کشور کی جن سوراج پارٹی اور آر سی پی سنگھ کی پارٹی ’’آپ سب کی آواز‘‘ کا انضمام ہو گیاہے ۔ واضح ہو کہ پرشانت کشور اور رام چندر پرساد سنگھ جنہیں بہار میں آر سی پی کے نام سے جانا جاتا ہے ، دونوں کبھی نتیش کمار کی ناک کے بال ہوا کرتے تھے بلکہ بہار کی سیاست میں آر سی پی کو غیر معمولی وقار حاصل تھا کہ ان کے بغیر جنتا دل متحدہ کی تنظیم ہو کہ انتظامیہ، ہر جگہ ان کا دخل تھا۔وہ جنتا دل متحدہ کے قومی صدر بھی ہوئے اور نریندر مودی کی کابینہ میں وزیر بھی رہے لیکن نہ جانے کن وجوہ پر نتیش کمار سے ان کی دوری ہوئی اور اب آر سی پی نتیش کمار کے مخالف بن کر نئی سیاسی پارٹی تشکیل دے کر فعال ہیں۔لیکن اب انہوں نے اپنی نو تشکیل شدہ سیاسی جماعت ’’آپ سب کی آواز ‘‘ کو پرشانت کشور کی پارٹی جن سوراج کے ساتھ ضم کردیاہے۔پرشانت کشور بھی نتیش کمار کے خاص چہیتوں میں رہے ہیں لیکن اب وہ ایک نئی سیاسی جماعت کے قائد بن کر نتیش حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی مہم میں لگے ہوئے ہیں۔  اب دیکھنا یہ ہے کہ بہار قانون ساز اسمبلی انتخاب کے اعلان تک اور کئی چھوٹی بڑی پارٹیاں ایک ساتھ قومی جمہوری اتحاد اور عظیم اتحاد کے خلاف صف بند ہوتی ہیں ۔کیوں کہ حالیہ دنوں میں کئی نئی علاقائی سیاسی جماعتیں فعال ہوئی ہیں اور پرشانت کشور جو کبھی پیشہ ورانہ طورپر مختلف سیاسی جماعتوں کے لئے کام کرتے تھے اب وہ خود لیڈر بن چکے ہیں اور بہار کی تصویر کو بدلنے کا مبینہ دعویٰ کر رہے ہیں۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ نئی صف بندی حکمراں جماعت اور حزب اختلاف کے اتحاد کا مقابلہ کر سکے گی؟کیوں کہ حال ہی میں کانگریس نے جس طرح اپنے کارکنوں کو فعال کیا ہے اور بالخصوص حالیہ راہل گاندھی کا دورہ جو کہ متنازعہ بھی رہا لیکن ان کی پارٹی کے  کارکنوں کے لئے حوصلہ بخش رہاہے اس سے یہ امید جاگی ہے کہ کانگریس بھی اپنی موجودگی کا پراثر احساس کرائے گی۔
 واضح ہو کہ راہل گاندھی حال ہی میں شمالی بہار کے دربھنگہ آئے تھے اور یہاں کے دلت طبقے کے طلبا کے ہاسٹل امبیڈکر ہاسٹل کے رہائشی طلبا سے روبرو ہوئے لیکن ان کی آمد کو لے کر جس طرح کا تنازع پیدا ہوا وہ کانگریس کے لئے ایک طرح سے مفید ہی ثابت ہوا۔دراصل شروع میں ان کی آمد اور ہاسٹل میں جلسہ کی اجازت ضلع انتظامیہ سے مل چکی تھی لیکن عین وقت پر ضلع انتظامیہ نے نظم ونسق کا حوالہ دے کر اسے رد کردیا ۔ باوجود اس کے راہل گاندھی دربھنگہ پہنچے اور اعلانیہ پروگرام کے تحت امبیڈکر ہاسٹل میں داخل ہوئے اور طلبا سے خطاب بھی کیا ۔اس تنازع کو قومی میڈیا میں بھی جگہ ملی اور راہل گاندھی نے اس مسئلہ کو پارلیمنٹ میں بھی اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ راہل گاندھی کے اس دورہ کو متنازع بنانے کے لئے عظیم اتحاد کی تمام سیاسی جماعتوں نے حکمراں جماعت پر نکتہ چینی کی ہے اور اس عمل کو جمہوریت کے لئے مضر قرار دیاہے جب کہ بر سر اقتدار پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ ضلع انتظامیہ کا ہے اور اس نے اپنے نظم ونسق کے مسائل کو سامنے رکھ کران کے پروگرام کی منظوری کو رد کیا تھا اور اس کے باوجود پروگرام کرنے  پر  قانونی کاروائی کے تحت راہل گاندھی اور ان کے حامیوں پر مقدمہ کیا گیاہے۔
 بہر کیف! بہار میں روز بروز سیاسی فضا میں تبدیلی آرہی ہے ۔ نئی صف بندی کا آغاز ہو رہا ہے اور بر سراقتدار پارٹی کے خلاف آواز بلند کی جا رہی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ بہار میں ابھی بھی نتیش کمار کی شخصی اہمیت بر قرار ہے اور ان کے ترقیاتی کاموں کی بدولت ہی قومی جمہوری اتحاد کو یقین ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخاب میں ان کی راہیں ہموار  ہوں گی ۔ جب کہ عظیم اتحاد کا دعویٰ ہے کہ وہ دو دہائیوں سے قابض قومی جمہوری اتحاد کی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کر دیں گے۔یہ دعویٰ اور در دعویٰ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک بہار اسمبلی انتخاب کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوتا اور انتخاب کے بعد نتائج سامنے نہیں آتے ۔ کیوں کہ جمہوریت میں ہر سیاسی جماعت کو یہ آئینی حق حاصل ہے کہ وہ اپنا امیدوار کھڑا کرے اور اپنا سیاسی موقف ظاہر کرتی رہے۔لیکن فتح یابی تو وہی جماعت ہوگی جس کے حق میں ریاست بہار کے رائے دہندگان اپنا فیصلہ کریں گے۔ کیوں کہ ریاست بہار سیاسی طورپر بہت ہی حسّاس ریاست ہے اور ماضی میں بھی بہار کے عوام نے قومی سیاست کے پنڈتوں کو اپنے فیصلوں سے حیران کیا ہے ۔اس لئے اس بار کا اسمبلی انتخاب ایک طرف قومی جمہوری اتحاد کے لئے ناک کا سوال ہے تو دوسری طرف انڈیا اتحاد کے لئے بھی جینے اور مرنے کے مترادف ہے۔دونوں اتحاد ایک دوسرے کے خلاف تمام تر سیاسی شطرنجی چالیں چل رہے ہیں اور اسی درمیان کئی نوتشکیل سیاسی جماعتیں بہار میں اسمبلی انتخاب کو سہ طرفہ بنانے کی جی توڑ کوششیں کر رہی ہیں۔ 
 اس لئے ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا کہ بہار کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK