• Fri, 19 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بندے ماترم.... ایک معتدل رائے

Updated: December 19, 2025, 1:57 PM IST | shamim Tariq | mumbai

’بندے ماترم‘ پکارتے ہوئے کئی آزادی کے متوالے پھانسی چڑھ گئے۔ اس سے ملک میں انگریز دشمنی کی فضاء ہموار ہوئی مگر آج اس گیت کو فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکانے کیلئے پڑھنے والے موجود ہیں اس کے باوجود ہماری خواہش ہے کہ پہلے دو بند کو ’بندے‘ میں ترمیم کرکے پڑھا جائے۔

INN
آئی این این
اقتدار کو ہی سب کچھ سمجھنے اور ملک کی وحدت و سالمیت کو ترجیح دینے والوں  کے لہجے میں  فرق ہونا لازم ہے۔ اقتدار میں  اقتدار حاصل کرنے کی خواہش اور شہرت پسندی بھی شامل ہے۔ شہرت پسندی اور شوشہ چھوڑنے کی روش نے ان تمام مباحث اور اجتماعات کو غیر مؤثر اور غیر مفید بنا دیا ہے جو مسلمانوں  سے تعلق رکھتے ہیں  اسی لئے مسلمانوں  کا موقف پیش کرنے والوں  کا نشانہ بنایا جانا عام ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی تازہ مثال وہ تقریریں  ہیں  جو ’بندے ماترم‘ کی تخلیق کے ۱۵۰؍ سال پورے ہونے پر لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں  حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے لیڈروں  کی طرف سے کی گئیں ۔ وزیراعظم شری نریندر مودی نے کہا کہ اس گیت کے اہم حصوں  کو ۱۹۳۷ء میں  حذف کر دیا گیا تھا جس نے تقسیم کے بیج بوئے اور وہ ذہنیت اب بھی ملک کے اتحاد و سالمیت کے لئے چیلنج بنی ہوئی ہے۔ جواب میں  پرینکا گاندھی، گورو گو گوئی، جے رام رمیش، کپل سبل، سنجے سنگھ وغیرہ نے اہم تقریریں  کیں ۔ اکھلیش یادو، اقراء حسن، اسدالدین اویسی اور مہوا موئترا نے بھی اہم نکات کی نشاندہی کی۔ بعض اراکین نے حزب اقتدار کے لیڈروں  پر الزام عائد کیا کہ انہوں  نے رابندر ناتھ ٹیگور وغیرہ پر تقسیم کرنے والی ذہنیت کو بڑھاوا دینے کا الزام لگایا ہے جس کیلئے انہیں  ملک سے معافی مانگنا چاہئے۔
ترنمول کانگریس کی مہوا موئترا نے کہا کہ بنکم چندر چٹوپادھیائے یا چٹرجی نے وندے ماترم گیت کے دوبند پہلے لکھے تھے، بعد ازاں  ۱۸۸۲ء میں  اس کو اپنے ناول ’آنند مٹھ‘ میں  اضافے کے ساتھ شامل کیا۔ ناول میں  شامل کئے جانے سے اس کا لہجہ بدل گیا کیونکہ ناول سنیاسیوں  کی بغاوت سے متعلق تھا۔ پہلے دو بند میں  جو ۱۸۷۵ء میں  لکھا گیا تھا بنگال کی تعریف تھی۔ اگلے چار بند میں  بنکم بابو نے ’سپت کوٹی‘ یعنی سات کروڑ کا استعمال کیا اور ۱۸۷۱ء کی مردم شماری کے مطابق متحدہ بنگال (بنگال، آسام، بہار، اڈیشہ) کی آبادی سات کروڑ تھی یعنی یہ گیت متحدہ بنگال کے لئے لکھا گیا تھا پورے ہندوستان کے لئے نہیں ۔ ۱۸۸۵ء میں  جب رابندر ناتھ ٹیگور نے اس کا میوزیکل اسکور ’راگ دیش‘ میں  ترتیب دیا تو بنکم بابو کو یہ دھن اتنی پسند آئی کہ انہوں  نے اس کو ناول کے تیسرے ایڈیشن (۱۸۸۶ء) میں  شامل کر دیا۔ ۱۹۳۷ء میں  رابندر ناتھ ٹیگور نے نہرو جی کو لکھا کہ ’بندے ماترم‘ کو جس دھن پر آج تک گایا جا رہا ہے وہ انہوں  نے بنکم بابو کی موجودگی میں  ترتیب دی تھی۔ ۱۸۹۶ء کے کانگریس اجلاس میں  بھی انہوں  نے ہی سب سے پہلے یہ گیت گایا تھا۔ اس کے بعد ۱۹۰۵ء کی سودیشی تحریک اور ۱۹۱۵ء اور ۱۹۱۸ء کے درمیان مختلف تحریکوں  میں  خاص طور سے تقسیم بنگال کے خلاف احتجاج کے دوران یہ گیت عوام کے دلوں  کی ترجمانی کرتا رہا۔ ٹیگور نے رکشا بندھن کے موقع پر ہندوؤں  اور مسلمانوں  کو یکجا کیا تھا اور سب نے مل کر یہ گیت گایا تھا۔ انقلاب کے اسی کالم میں  چند ہفتے پہلے مَیں  نے ایک مضمون لکھا تھا۔ اس مضمون میں  جو نہیں  لکھا تھا اس کا مطلب بھی یہی تھا کہ برطانوی حکومت نے جس گیت کو بغاوت کا مترادف قرار دے کر ممنوع بنا دیا تھا اور جو گیت ملک بھر کے لوگوں  میں  وطن دوستی کے جذبات پیدا کرتا ہے اور جب بندے ماترم سے ’سپ کوٹی‘ پہلے ہی نکالا جا چکا ہے تو ’بندے‘ جیسے چند لفظوں  کو ’صدقے‘ جیسے چند لفظوں  سے بدلنے میں  کیا مضائقہ ہے۔ یہ بات اس لئے کہی گئی تھی کہ ملک بھر کے لوگوں  میں  وطن دوستی اور وطن پر مر مٹنے کا جذبہ پیدا ہو اور اس جذبے کے اظہار میں  شرک شامل نہ ہو۔ اب جبکہ مہوا موئترا نے لوک سبھا میں  کھل کر یہ بات کہہ دی ہے کہ یہ نظم یعنی بندے ماترم متحدہ بنگال کے لئے لکھی گئی تھی پورے ہندوستان کے لئے نہیں ، تب بھی معمولی تبدیلی کے ساتھ اس کو پڑھے جانے کے حق میں  ہم بھی ہیں ۔
ہم یہ بھی سمجھتے ہیں  کہ اقبال کا ترانۂ ہندی ’سارے جہاں  سے اچھا ہندوستاں  ہمارا‘ وطن سے محبّت کا شعری اظہار ہے اور اس کا یہ مطلب قطعی نہیں  ہے کہ اقبال نے ریاض الجنہ کو کمتر قرار دیا۔ ’سارے جہاں  سے اچھا....‘‘ کی تخلیق کا باعث یہ ہے کہ ۱۹۰۶ء کے آس پاس اقبال لاہور گورنمنٹ کالج میں  لیکچرر ہوئے اس وقت کالج میں  لالہ ہردیال طالب علم تھے۔  لالہ ہردیال وائے ایم سی اے کے رکن تھے۔ کسی بات پر وائے ایم سی اے کے سیکریٹری اور ان میں  اختلاف ہوگیا۔ انہوں  نے ایک متوازی انجمن وائے ایم آئی اے تشکیل دی اور اس کے افتتاح یا افتتاحی اجلاس کی صدارت کی دعوت اقبال کو دی۔ اقبال کو دعوت اسی روز دی گئی تھی جس روز افتتاح ہونے والا تھا۔ وہ افتتاح کے جلسے میں  شریک ہوئے اور انہوں  نے وہاں  صدارتی تقریر کرنے کے بجائے ’سارے جہاں  سے اچھا ہندوستاں  ہمارا‘ ترنم سے سنایا۔ لالہ ہردیال کے اختلاف اور متوازی انجمن کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اختلاف کی نوعیت کیا رہی ہوگی۔ اقبال کے اشعار جس کو ’ترانۂ ہندی‘ کہا گیا ہے سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کو اپنی جائے پیدائش سے کتنی محبّت تھی اور کس کیفیت میں  انہوں  نے یہ اشعار کہے۔ ٹیگور نے ’سونار بانگلہ‘ کا گیت کب کہا تھا اور بنگلہ دیش نے اس کو اپنا قومی گیت کب بنایا؟ اقبال کے ترانۂ ہندی کو پاکستان اپنا ترانہ بنا ہی نہیں  سکتا تھا، اگرچہ اقبال پر اس نے قبضہ کر لیا تھا۔ اقبال کے کسی اور شعر یا مصرعے کو بھی اس نے اپنے قومی ترانے میں  شامل نہیں  کیا۔
 
 
آنند مٹھ سے اختلاف کرنے کی کئی وجوہ ہیں ۔ اس کے تخلیق کار انگریز کی ملازمت میں  تھے یعنی ڈپٹی کلکٹر تھے۔ سبکدوشی کے بعد انگریز حکومت نے انہیں  اعزاز سے نوازا تھا۔ اس میں  سنیاسیوں  کی تحریک پر روشنی ڈالی گئی ہے اور فقیروں  کی تحریک کو نہ صرف نظرانداز کیا گیا ہے بلکہ مسلمانوں  کے خلاف جملے بھی لکھے گئے ہیں ۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ ’بندے ماترم‘ پکارتے ہوئے کئی آزادی کے متوالے پھانسی چڑھ گئے۔ اس سے ملک میں  انگریز دشمنی کی فضاء ہموار ہوئی مگر آج اس گیت کو فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکانے کے لئے پڑھنے والے موجود ہیں  اس کے باوجود ہماری خواہش ہے کہ پہلے دو بند کو ’بندے‘ میں  ترمیم کرکے پڑھا جائے۔ ایسا کرنا دستور ہند کی بھی پاسداری ہوگی اور ہندوستان کی صدیوں  پرانی روایت ہے کی بھی جو کسی مذہب کے عقیدے سے چھیڑ چھاڑ کی اجازت نہیں  دیتی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ایک مسلم نے ممبئی کا میئر بنتے ہی ’بندے ماترم‘ گایا تھا اور میں  نے سوال کیا تھا کہ کیوں  پڑھا تو انہوں  نے جواب دیا تھا کہ میرے پاس فتویٰ ہے کہ وطن کی تعریف کرسکتے ہیں ۔ کچھ اور مثالیں  بھی ہیں  جن کی روشنی میں  یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’بندے‘ کو تبدیل کرکے وطن کی تعریف کرنے سے بڑی سازشیں  ناکام ہوسکتی ہیں ۔ ورنہ ایسے لوگ تیار کئے جاتے رہیں  گے جو عہدہ پانے کے لئے ایمان کا سودا کرنے میں  مضائقہ نہیں  سمجھتے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK