Inquilab Logo Happiest Places to Work

بہار میں بھاجپا ۔جنتا دل متحدہ اتحاد ایک دوسرے کی مجبوری!

Updated: July 24, 2025, 4:13 PM IST | Dr. Mushtaq Ahmed | Mumbai

اس سچائی سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نتیش کمار کی قیادت اور ان کا اقتدار میں رہنا بھارتیہ جنتا پارٹی کیلئے رام بان ثابت ہواہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

 بہار کی سیاست پر نگاہ رکھنے والے سیاسی مبصرین اس حقیقت سے کما حقہٗ واقف ہیں کہ گزشتہ تین دہائیوں سے ریاست میں کسی بھی ایک سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں رہی ہے ۔نتیجہ ہے کہ مختلف سیاسی جماعتیں اتحادی حکومت تشکیل دینے پر مجبور ہوتی رہی ہیں۔۱۹۹۰ء کے بعد مسلسل پندرہ برسوں تک جنتا دل اور راشٹریہ جنتا دل کی حکومت رہی اور اس میں کبھی کانگریس تو کبھی بایاں محاذ کے ساتھ لالو رابڑی اقتدار میں رہے۔ ۲۰۰۵ء میں نتیش کمار بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ مل کر پہلی بار اقتدار میں آئے اور وہ اب تک بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت کر رہے ہیں۔البتہ درمیان میں دو بار محض کچھ دنوں کیلئے وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو چھوڑ کر راشٹریہ جنتا دل کے ساتھ گئے تھے لیکن اب نتیش کمار نے اعلانیہ کہا ہے کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو چھوڑ کر کبھی نہیں جائیں گے۔ یہ اور بات ہے کہ اس سے پہلے بھی جب انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو چھوڑا تھا تو اعلانیہ کہا تھا کہ ’’ہم مٹی میں مل جائیں گے لیکن بھاجپا کے ساتھ نہیں جائیں گے ‘‘ ٹھیک اسی طرح بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں نے بھی اعلان کیا تھا کہ ’’نتیش کمار کیلئے بھارتیہ جنتا پارٹی کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند ہوگیاہے ‘‘ لیکن سیاست میں سب کچھ حالات کے تحت بدلتے رہتے ہیں اور نتیش کمار نے بھی حالات کی مجبوری کے تحت ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کو چھوڑ کر کبھی راجد میں گئے تو کبھی پھر بھاجپا میں واپس ہوئے۔ 
 بہر کیف! بہار میں نتیش کمار کی قیادت والی جنتا دل متحدہ کی یہ مجبوری ہے کہ وہ کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد کرکے ہی اقتدار حاصل کر سکتی ہے۔ لیکن اس اتحاد سے ریاست میں سب سے زیادہ فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہوا ہے ۔ کیوں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی جب سے قائم ہوئی اس وقت سے ہی غیر منقسم بہار میں اپنے امیدوار کھڑا کرتی رہی لیکن اسے کبھی بھی اقتدار حاصل نہیں ہوا۔اگرچہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو بالواسطہ یہ موقع نہیں ملا وہ حکومت سازی کر سکے لیکن نتیش کمار کے ساتھ مل کر وہ حکومت میں صرف اتحادی کے کردار میں نہیں رہی بلکہ ہمیشہ اقتدار میں اس کا دبدبہ رہا۔ شروع میں بہار بھاجپا کے قد آور لیڈر سشیل کمار مودی نائب وزیر اعلیٰ کے طورپر نتیش کمار کی کابینہ میں شامل ہوتے رہے اور ان کے بعد دو دو نائب وزیر اعلیٰ بھارتیہ جنتا پارٹی کے کوٹہ سے نتیش کابینہ میں شامل ہونے لگے۔ اس وقت بھی نتیش کابینہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کوٹہ کے دو نائب وزیر اعلیٰ سمراٹ چودھری اور وجے کمار سنہا شامل ہیں اور اقتدار کے بااثر وزراء میں ان کا شمار ہوتا ہے۔حالیہ دنوں میں بہار کی سیاست میں جس طرح نتیش کمار کے تعلق سے طرح طرح کی افواہیں آتی رہی ہیں اور بالخصوص ان کی صحت کو لے کر عوام میں جس طرح کا پیغام جاتا رہا ہے اس سے بھی جنتا دل متحدہ اقتدار کی پارٹی ہوتے ہوئے بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقابلے پست ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ اب جب کہ آئندہ نومبر ماہ میں اسمبلی انتخاب ہونا ہے تو دونوں اتحاد کی یہ کوشش ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ سیٹوں پر کامیابی ملے۔ایک طرف جنتا دل متحدہ کے کارکن نتیش کمار کو ہی وزیر اعلیٰ دیکھنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے بھی یہ اعلامیہ جاری کیا جا رہاہے کہ نتیش کمار کی قیادت میں ہی اسمبلی انتخاب ہوگا ۔لیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اندر ہی اندر ایک ایسی زمین تیار کر رہی ہے جس سے اسے زیادہ فائدہ ہو اور اسمبلی انتخاب میں اس کے کامیاب ممبران کی تعداد اتحادی جنتا دل متحدہ سے زیادہ ہو تاکہ آئندہ کالائحہ عمل طے کیا جا سکے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کی اس حکمت عملی سے جنتا دل متحدہ کے کارکن ہراساں ہیں اور نتیجہ ہے کہ ان کے اندر روز بروز یہ وسوسہ بڑھتا جا رہا ہے کہ کیا آئندہ اسمبلی انتخاب میں جنتا دل متحدہ کے ساتھ کہیں دھوکہ تو نہیں ہونے والا ہے؟ جنتا دل متحدہ کے تنظیمی ڈھانچوں میں بھی وقتاً فوقتاً تبدیلی ہوتی رہی ہے اور اس کے اندر سے بھی یہ آواز اٹھنے لگی ہے کہ ریاست میں قیادت کی باگ ڈور جنتا دل متحدہ کے ہاتھوں میں ہی رہنی چاہئے۔ظاہر ہے کہ بہار میں جنتا دل متحدہ اور بھاجپا اتحاد دونوں ایک دوسرے کی مجبوری ضرور ہے لیکن ووٹ فیصد کے معاملے میں جنتا دل متحدہ اور بھاجپا اتحاد سے سب سے زیادہ فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہوا ہے ۔اگر ۱۹۸۰ءسے اب تک کا ووٹ فیصد پر نگاہ دوڑائیںتو ۱۹۸۰ءمیں غیر منقسم بہار میں بھارتیہ جنتا پارٹی ۴۱ء۸؍ ۱۹۸۵ء میں ۷ء۵۴؍ ۱۹۹۰ء میں ۱۱ء۶۱؍ ۱۹۹۵ء میں ۱۲ء۹۶؍ ۲۰۰۰ءمیں ۱۴ء۶۴؍ ۲۰۰۵ء میں ۱۵ء۶۵؍ ۲۰۱۰ء میں ۱۶ء۴۹؍ ۲۰۱۵ء میں ۲۴ء۴۲؍ اور ۲۰۲۰ء میں ۱۹ء۴۶؍فیصد ووٹ ملا تھا۔اگر سیٹوں کو دیکھیں تو ۱۹۸۰ء میں ۲۱، ۱۹۸۵ء میں ۱۶؍ ۱۹۹۰ء میں ۳۹؍ ۱۹۹۵ء میں ۴۱؍ ۲۰۰۰ء میں ۶۷؍ ۲۰۰۵ء میں ۵۵؍ ۲۰۱۰ء ۹۱، ۲۰۱۵ء میں ۵۳؍ اور ۲۰۲۰ء میں ۷۴؍ سیٹیں بھارتیہ جنتاپارٹی کو ملی ہیں ۔یہ اعداد وشمار اس حقیقت کا غماز ہے کہ ریاست میں نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل متحدہ سے اتحاد کرنے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کو ووٹ فیصدوں کے ساتھ ساتھ سیٹوں میں بھی کس طرح اضافہ ہواہے اور بر سراقتدار رہ کر اپنے تنظیمی ڈھانچوں کو بھی کس طرح مستحکم کیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اب جب کہ نتیش کمار کی قیادت پر کسی طرح کا سوال اٹھتا ہے تو جنتا دل متحدہ کے اندر ایک اضطرابی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ جنتا دل متحدہ کی وجہ سے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کو نہ صرف اسمبلی انتخاب میں فائدہ ملا بلکہ اقتدار میں رہ کر اس نے اپنے لئے زمین بھی مستحکم کی ہے۔حال ہی میں اوپندر کشواہا نے بھی یہ مشورہ دیاہے کہ جنتا دل متحدہ کے سپریمو نتیش کمار کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنی پارٹی کے سپریمو رہیں گے یا پھر اقتدار کی کمان اپنے ہاتھوں میںر کھیں گے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اسمبلی انتخاب تک اس اتحاد کے درمیان کس طرح کی صف بندی رہتی ہے لیکن اس سچائی سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نتیش کمار کی قیادت اور ان کا اقتدار میں رہنا بھارتیہ جنتا پارٹی کیلئے رام بان ثابت ہوا ہے۔ اس لئے تمام تر افواہوں اور قیاس آرائیوں کے باوجود نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل متحدہ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا اتحاد آئندہ اسمبلی انتخاب میں بھی دیگر سیاسی جماعتوں کیلئے ایک بڑا چیلنج ہی ثابت ہوگا۔کیونکہ دونوں کیلئےایک دوسرے کیساتھ مل کر رہنا مجبوری اور ضروری دونوں ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK