انسان دوستی بی جے پی کے نزدیک پارٹی کے فلسفے کا لازمی جزو ہے جو دین دیال اُپادھیائے کے ۱۹۶۵ء کے خطبات سے ماخوذ ہے۔ دیکھئے انہوں نے اسے کیسے سمجھایا تھا:
EPAPER
Updated: July 06, 2025, 3:11 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
انسان دوستی بی جے پی کے نزدیک پارٹی کے فلسفے کا لازمی جزو ہے جو دین دیال اُپادھیائے کے ۱۹۶۵ء کے خطبات سے ماخوذ ہے۔ دیکھئے انہوں نے اسے کیسے سمجھایا تھا:
بی جے پی کا دستور (آرٹیل ۳) میں درج ہے: ’’انسان نوازی پارٹی کے فلسفے کا لازمی جزو ہوگا۔‘‘ پارٹی کے ممبر شپ فارم میں یہ عہد موجود ہے جس کی پہلی ہی سطر میں کہا گیا ہے کہ ’’مَیں انسان دوستی کے لازمی جزو ہونے کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی فلاسفی پر یقین رکھتا ہوں ۔‘‘ لازمی انسان دوستی ایسی اصطلاح ہے کہ بہت سے ہندوستانی واقف ہیں مگر کم ہی لوگ ہوں گے جو اس کی وضاحت کرسکتے ہوں ۔
لازمی انسان نوازی دراصل دین دیال اُپادھیائے کے چار خطبات سے ماخوذ اصطاح ہے جو اُنہوں نے ۲۲؍ اور ۲۵؍ اپریل ۱۹۶۵ء کو ممبئی میں دیئے تھے۔ اُپادھیائے بی اے تھے اور آر ایس ایس کے اپنے جریدہ ’’پنچ جنیہ‘‘ سے وابستہ تھے۔ جب اُنہو ں نے مذکورہ خطبات دیئے تب اُن کی عمر کم و بیش پچاس سال تھی۔اس کے چند سال بعدوہ جن سنگھ کے صدر منتخب کئے گئے۔ یہاں اُن کی تقریروں یا خطبات کا مختصر جائزہ پیش کرنا مقصود ہے:
آج ہمارے ملک کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ قومی شناخت کے نظر انداز کئے جانے سے پیدا ہوئے ہیں ۔ ملک کو اگر فرد مان لیا جائے تو یہ فرد بیمار کہلائے گا اگر اس کی فطری جبلتوں کو نظر انداز کیا جائے، دبایا کچلا جائے یا ان کا احترام نہ کیا جائے۔ ہمار ا مسئلہ یہ ہے کہ آزادی ملنے کے باوجود ہم یہ طے نہیں کرسکے کہ حقیقی ارتقاء یا ترقی کیا ہے اور اس کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہئے، کس سمت میں مڑنا چاہئے اور کس راہ پر گامزن رہنا چاہئے۔آزادی کی نعمت زیادہ معنی خیز ہوجاتی ہے جب یہ تہذیب کے اظہار کا ذریعہ بن جائے۔
ہم نے منزل تک پہنچنے کیلئے جن راستوں کا انتخاب کیا اگر اُنہیں نام دیا جاسکتا ہو تو معاشی، سماجی اور سیاسی کہا جائیگا۔ ہم نے انہی راستوں کا انتخاب اس لئے کیا کہ ہم نے مغربی فکر یا سائنس کو اپنایا جبکہ مغرب سماجی بہبود کا نظریہ (سوشلزم)، وطن دوستی (نیشنلزم) اور جمہوریت (ڈیموکریسی) کے ساتھ کبھی پوری طرح ہم آہنگ نہیں ہوسکا۔ ہم ہندوستانیوں کیلئے ترقی کا معنی تھا مغرب کی نقل کرنا۔ بنیادی طور پر یہ مغربی فلسفے بھی اس کے باوجود مغرب خود کو اُن سے ہم آہنگ نہیں کرپایا تھا۔ جن نظریات کی بنیاد پر یہ فلسفے وضع کئے گئے وہ نظریات آفاقی نہیں تھے اور ان کو وضع کرنے والے لوگوں اور تہذیبوں کی اپنی خامیاں بھی تھیں ۔ آیوروید کا نظریہ ہے کہ آپ کو مقامی بیماریوں کیلئے مقامی حل تلاش کرنا چاہئے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا بھارتیہ تہذیب عالمی معاملات و مسائل کا حل پیش کرسکتی ہے؟
عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ بھارتیہ تہذیب روح کی نجات کے بارے میں سوچتی ہے اور جسم، دماغ اور فہم و دانش کے علاج کی فکر نہیں کرتی۔ یہ عام خیال ضرور ہے مگر سچائی پر مبنی نہیں ہے۔ اس تہذیب میں دھرم کو خاص اہمیت دی جاتی ہے جو کہ فطری قانون ہے اور اس کا آفاقی ہونا بھی عام طور پر مانا جاتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے دھرم جو ہے وہ منتظمہ، مقننہ اور عدلیہ سے ارفع ہے اور ظاہر ہے کہ عوام سے بھی اعلیٰ ہے۔ اگر کسی ایک کو چھوڑ کر تمام ہندوستانی ووٹ دیں تب بھی اس کی اہمیت نہیں ہوگی اگر ووٹ دھرم کے خلاف دیا گیا۔ عوام کو دھرم کے خلاف ووٹ دینے کا حق نہیں ہے۔ سیکولر ازم یا دھرم نرپیکشتا جیسے الفاظ جو آئین ہند میں درج ہیں ، اس لئے غلط ہیں کہ دھرم ایک لازمی شرط ہے۔ جو چیز یا بات یا دستاویز دھرم پر مبنی نہیں ہے وہ قابل قبول نہیں ہے ، اس لئے سیکولرازم قطعی غلط نظریہ ہے۔
آگے بڑھنے سے قبل عرض کردوں کہ یہ خیالات اس ناچیز کے نہیں بلکہ پنڈت دین دیال اُپادھیائے کے ہیں جن کا اظہار اُنہو ں نے ممبئی میں اپنے خطبات میں کیا تھا۔
قومی اتحاد ہندوستان کا دھرم ہے اور اس لیے تنوع یا تکثیریت مسئلہ ہے۔ اس وجہ سے ہندوستان کے آئین کو وفاقی سے وحدانی میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جس کے تحت ریاستوں کو قانون سازی کے اختیارات نہ دیئے جائیں بلکہ مرکز کو حاصل رہیں ۔ معاشرے کے افراد اور اداروں کے درمیان ٹکراؤ زوال اور کج روی کی علامت ہے۔مغرب فرد اور ریاست کے درمیان روابط کو ایک دوسرے کی مخالفت پر مبنی سمجھتا تھا جو کہ غلط تھا۔ فرد تشکیل پاتا ہے جسم، دماغ، ذہانت اور روح سے۔ انسان ایک روح کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ شخصیت، روح اور کردار ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ فرد کی روح ذاتی تاریخ سے متاثر نہیں ہوتی۔ اسی طرح، ملک اور قوم کی تاریخ قومی ثقافت کو تسلسل کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے : آنکھ ہے لیکن دیکھ نہ پاؤں، عقل ہے لیکن سوچ نہ پاؤں
ثقافت میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو اچھی اور قابل ستائش سمجھی جاتی ہیں ، لیکن وہ `قومی روح (چٹی) کو متاثر نہیں کرتیں ۔ ہندوستان کی قومی روح بنیادی اور مرکزی ہے۔ ’’چٹی‘‘ ثقافتی پیش رفت کی سمت کا تعین کرتی ہے اور یہ طے کرتی ہے کہ تہذیب سے کس چیز کو باہر کرنا ہے۔ معاشرے متحرک ہوتے ہیں اور معاشرے کا جسم، دماغ، عقل اور روح ہوتی ہے۔ بعض مغربی شخصیات اس سچائی کو قبول کرنے لگتی ہیں ان میں سے ایک ولیم میک ڈوگل نے کہا کہ ایک گروہ کے پاس ذہن اور ایک نفسیات ہوتی ہے، اس کے سوچنے اور عمل کرنے کا طریقہ بالکل اسی طرح ہوتا ہے جیسے ایک فرد کا۔
ہمارے ملک اور مغرب میں فرق یہ تھا کہ ہم جسم کو صرف دھرم کے حصول کا ایک آلہ سمجھتے ہیں ۔ ہماری کوشش دھرم، ارتھ (پیسہ)، کام (خوشی) اور موکش (نجات، آزادی) کے لیے تھی۔ مغرب نے چاروں کے ساتھ الگ الگ سلوک کرکے غلطی کی۔ آپ کو ووٹنگ کا حق مل سکتا تھا لیکن پھر آپ کو کھانا نہیں ملا۔ امریکہ کو سیاسی آزادی اور دولت دونوں حاصل تھے لیکن خودکشی اور ذہنی مریضوں کی تعداد میں بھی اس کا سرفہرست ہونا حیران کن تھا - روٹی اور ووٹنگ کے حقوق تھے لیکن سکون یا خوشی نہیں تھی۔ امریکہ میں اچھی نیند کی کمی تھی کیونکہ انہوں نے مربوط انسان کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ امریکیوں نے کہا `دیانت بہترین کاروباری پالیسی ہے اور اہل یورپ نے کہا کہ `ایمانداری بہترین پالیسی ہے لیکن ہندوستانیوں نے کہا کہ `دیانت پالیسی نہیں ، اصول ہے۔
یہ سب بی جے پی کے بنیادی فلسفے کا حصہ ہے اور یہ دیکھنا دلچسپ ہوسکتا ہے کہ کتنے بی جے پی والے اس کی وضاحت کرسکتے اور یہ بتا سکتے ہیں کہ ان نظریات کو وہ کتنا قبول کرتے ہیں ۔ n