Inquilab Logo Happiest Places to Work

آنکھ ہے لیکن دیکھ نہ پاؤں، عقل ہے لیکن سوچ نہ پاؤں!

Updated: July 05, 2025, 3:26 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

’’سب کچھ ہے مگر سکون نہیں ہے‘‘ یہ جملہ ہے اَب بار بار سنائی دیتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ انسان کو اتنی بے سکونی کیوں ہے؟ کیا اِس بدلتی دُنیا نے اُس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلی ہے؟

Photo: INN
تصویر:آئی این این

فرینک ٹرینٹ مین یونیورسٹی آف لندن کے برک بیک کالج میں  تاریخ پڑھاتے ہیں ۔ انہیں  ملکہ حاصل ہے صارفیت کی تاریخ پر، جس کا اندازہ اُن کی تصنیفات کے ناموں  سے لگایا جاسکتا ہے جن میں  سے چند یہ ہیں : سلطنت ِ اشیاء (ہم صارف کیسے بنے؟)، شہریت اور صارفیت، صارفی تہذیب اور تشکیل ِ صارف (دی میکنگ آف دی کنزیومر)۔ ’’دی ایٹلانٹک‘‘ میں  اُن کا مضمون نظر سے گزرا جس میں  اُنہوں  نے لکھا ہے: ’’دور جدید سے قبل کی (پری ماڈرن) کئی حکومتیں  اپنے شہریوں  کے اخراجات کے تعلق سے ضابطے بنایا کرتی تھیں ، چودہویں  صدی سے اٹھارہویں  صدی تک یورپ کی اکثر حکومتوں  (اور اُن کی امریکی نوآبادیات) نے کیا خریدیں  اور کیا نہ خریدیں  کے ضابطے (سمچوئری لاز) متعین کئے تھے تاکہ ملبوسات اور فیشن سے متعلق شہریوں  کے بڑھتے رجحان پر قابو پایا جاسکے۔ ۱۵۱۲ء میں  وینس کی مجلس قانون ساز (سینیٹ) نے قانون منظور کیا کہ شادی کے تحفے میں  چھ کانٹے (فورک) اور چھ چمچے (اسپون) ہی دیئے جاسکتے ہیں  اس سے زیادہ نہیں ، ملمع چڑھے ہوئے صندوق اور شیشہ (آئینہ) دینے پر تو پابندی عائد تھی۔ اس کے بعد کی دو صدیوں  میں  جرمنی کی ریاستوں  میں  خواتین گلے میں  پہننے والا چوکور رومال (نیکرچیف) استعمال کرتیں  تو اُن پر جرمانہ عائد کیا جاتا یا جیل میں  ڈال دیا جاتا تھا۔‘‘ فرینک ٹرینٹ مین نے مزید لکھا کہ ’’ محدود آمدنی اور محدود خواہشات اِن معاشروں  کے لوگوں  کی پہچان تھی اور اگر کوئی شے جو بیرونی ملک سے منگوائی گئی ہے، جیسے ہندوستانی کپاس کی کوئی مصنوع، تو اُسے ملک کے خزانے پر بوجھ سمجھا جاتا تھا۔ اِن ادوار میں  صارف کو ملک کا غیروفادار اور دولت کا دشمن قرار دیا جاتا تھا۔‘‘ 
 یہ بیسویں  صدی سے پہلے کی باتیں  ہیں ۔ بیسویں  صدی نے شہری کو صارف بنادیا اور ’اُس کے ذہن نشین کرادیا کہ ’’پیسہ پھینک تماشا دیکھ‘‘ ۔ اُسے یہ بھی سمجھا دیا کہ اس کی ایک مٹھی میں  دُنیا سما سکتی ہے اگر دوسری مٹھی میں  دُنیا خریدنے کی طاقت (رقم) ہے۔ اب اکیسویں  صدی میں  حالات مزید بدل گئے ہیں ۔ شہری کتنا شہری رہ گیا ہے یہ تو نہیں  معلوم مگر یہ ضرور معلوم ہے کہ صارف سو فیصد صارف بن چکا ہے جو خواہشات کی طویل فہرست لے کر گھر سے نکلتا ہے اور اسی فہرست کے ساتھ گھر لوَٹتا ہے۔ اس میں  سے چند خواہشات پوری ہوتی بھی ہیں  تو مزید خواہشات کو فہرست میں  جگہ مل جاتی ہے۔ بڑے تو بڑے، بچے بھی صارف ہیں  اور صارفیت کو پروان چڑھانے والے ادارے یہ نفسیاتی راز اچھی طرح جانتے ہیں  کہ والدین کی دوسری مٹھی میں  دُنیا خریدنے کی طاقت نہ ہو تب بھی وہ بچوں  کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیں  گے، قرض لے کر ہی سہی، دوسری مٹھی کو گرم کریں  گے اور پہلی مٹھی میں  دُنیا سمیٹنے کی کوشش کرینگے۔ اس لئے اکثر تجارتی ادارے بچوں  کو اپنی تشہیری مہم کا ہدف بناتے ہیں ۔ صارفیت کے دور میں  وضع کئے گئے فقروں  مثلاً کسٹمر اِز کنگ اور کسٹمر اِز آلویز رائٹ (گاہک / صارف بادشاہ ہے اور صارف ہمیشہ صحیح یا درست ہوتا ہے) کے ذریعہ تاثر تو یہی دیا جاتا ہے کہ صارف بادشاہ ہے مگر صارف کو غلام بنانے میں  ان اداروں  نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں  کیا ہے ۔  
  گزشتہ دِنوں  ہندی ادیب چندر دھر گلیری کی کہانی ’’اُس نے کہا تھا‘‘ کی صرف ایک سطر کہ ’’ایک لڑکا اور ایک لڑکی چوک کی ایک دکان پر آملے، اُس کے بالوں  اور اُس کے ڈھیلے پجامے سے جان پڑتا تھا کہ دونوں  سکھ ہیں ، وہ اپنے ماما کے کیش دھونے کیلئے دہی لینے آیا تھا اور یہ رسوئی کیلئے بڑیاں ‘‘۔ ۱۹۱۵ء میں  لکھی گئی اس طویل  کہانی کا ایک جملہ نقل کرنے کی ضرورت صرف اس لئے محسوس ہوئی تاکہ بتایا جاسکے کہ بیسویں  صدی کی ابتدائی ربع صدی میں  بھی وطن عزیز میں  صارفیت کی آہٹ محسوس نہیں  کی گئی تھی۔ اس پر مجھے یاد آیا کہ بچپن میں  کبھی پاؤ کلو شکر اور کبھی دو کلو گیہوں  خریدنے کیلئے پنساری کی دُکان پر جانا پڑتا تھا۔ کبھی کبھی دن میں  دو دو مرتبہ چکر لگانے کی نوبت آجاتی تھی کیونکہ باورچی خانہ میں  جب جو چیز درکار ہوتی وہ تبھی منگوائی جاتی تھی، پہلے سے ذخیرہ کرکے نہیں  رکھی جاتی تھی جیسا کہ اب کی جاتی ہے۔ ضروری قوت خرید تھی یا نہیں  تھی یہ الگ بحث ہے، اصل بات یہ تھی کہ اشیاء کو ذخیرہ کرنے کا نہ تو رواج تھا نہ مزاج۔ اب صارفیت نے اس قدر پر پُرزے پھیلا لئے ہیں  کہ بڑے مالس اور اسٹورس کی بات جانے دیجئے، محلے کی دکانیں  بھی ڈھیروں  اشیاء سے اس طرح پٹی رہتی ہیں  کہ چھلکی پڑتی ہیں ۔ 
 اب لوگ باگ زیر استعمال موبائل محض اس لئے پھینک کر نیا خریدنے چلے جاتے ہیں  کہ پرانے سے بور ہوگئے ہیں ۔ کپڑے لتے کا بھی یہی حال ہے۔ آپ نے بھی ’’بور ہونے‘‘ کا محاورہ اِدھر چند برسوں  ہی میں  سنا ہوگا ورنہ اب سے پہلے تک تو لوگ شرابور ہوتے تھے، بور کبھی نہ ہوتے۔ بور ہونے کا مرض حال حال میں  لاحق ہوا ہے اور صرف نوعمروں  کو لاحق نہیں  ہوا، پختہ عمر کے اچھے خاصے لوگوں  میں  بھی پایا جاتا ہے۔
  صارفیت کا یہ کمال بھی محسوس کیجئے کہ صارف اشیاء بنانے والے ادارے اشیاء کچھ اس طرح بناتے ہیں  کہ تین چار سال چلیں  اُس سے زیادہ نہیں ، تاکہ صارف لامحالہ واپس آئے اور نئی اشیاء خریدے۔ کبھی سوچا ہے آپ نے کہ اب کوئی بھی مصنوع یا شے ایک وقت تک ہی کارآمد رہتی ہے۔ وقت کے پورا ہونے کے بعد خود بخود ناکارہ ہونے لگتی ہے یا اس کی کارکردگی متاثر ہوجاتی ہے۔ اکیسویں  صدی کی آمد آمد سے قبل بعض اشیاء استعمال کرتے کرتے بچے بڑے ہوجاتے اور اُن کے بھی بچے ہوجاتے تھے۔ یاد کیجئے ’’ریلی فین‘‘ ( ٹیبل فین) یا نرگس، اوشا اور سنگر نامی سلائی مشینوں  کو۔ ان سے تیسری اور چوتھی نسل تک نے فائدہ اُٹھایا کیونکہ تب ڈیمانڈ (طلب نہیں  ضرورت) دیکھ کر سپلائی کا تانا بانا بُنا جاتا تھا  اب سپلائی کیلئے ڈیمانڈ اور ڈیمانڈ کیلئے بے چینی پیدا کی جاتی ہے اور اچھے خاصے انسان کو صارف بنا دیا جاتا ہے۔ اگلے وقتوں  میں   ایسے شخص کو (جیسا آج کا صارف ہے) گھن چکر کہا جاتا تھا کہ اُس بے چارے کو گھن چکر بنا دیا گیا ہے۔ اب، آدمی کسی کے بنانے سے تو گھن چکر بنتا ہی ہے، اپنی مرضی سے بھی بنتا  ہے اور خوشی خوشی بنتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK