• Fri, 17 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

یو پی میں بی ایس پی طاقت کے مظاہرہ کیلئے تیار

Updated: September 23, 2025, 1:51 PM IST | ashish mishra | Mumbai

۹؍ اکتوبر کو لکھنؤ کے کانشی رام میموریل میں پارٹی کے بانی کی برسی پر منعقد ہونے والا پروگرام صرف ایک خراج عقیدت نہیں ہوگا، بلکہ یہ مایاوتی کی سیاسی واپسی کی حکمت عملی کا ایک پلیٹ فارم ثابت ہونے والا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 اتر پردیش میں  گزشتہ ایک دہائی سے بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کی سیاست مسلسل کمزور ہوتی جا رہی ہے لیکن اب مایاوتی اس تسلسل کو توڑنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔۹؍ اکتوبر کو لکھنؤ کے کانشی رام میموریل میں  پارٹی کے بانی کی برسی پر منعقد ہونے والا پروگرام صرف ایک خراج عقیدت نہیں  ہوگا، بلکہ یہ بی ایس پی کی سیاسی واپسی کی حکمت عملی کا ایک پلیٹ فارم ثابت ہونے والا ہے۔
 یہ تقریب۲۰۲۱ء کے بعد بی ایس پی کی طاقت کا پہلا بڑا مظاہرہ ہوگاجس میں  مایاوتی خود موجود ہوں  گی اور کارکنوں  سے خطاب کریں  گی۔ بی ایس پی نے ریاست بھر کے کارکنوں  سے ’لکھنؤ چلو‘ کی اپیل کی ہے۔ پارٹی کا ماننا ہے کہ یہ پروگرام کسی سیاسی ریلی سے کم نہیں  ہوگا اور یہیں  سے۲۰۲۷ء کے اسمبلی انتخابات کی تیاریاں  شروع ہو جائیں  گی۔
 مایاوتی نے گزشتہ برسوں  میں  خود کو عوام تک محدود رکھا ہے۔ ۲۰۱۲ء کے اسمبلی انتخابات میں شکست کھاکر اقتدار سے باہر ہونے کے بعد مایاوتی نے اپنی سیاسی سرگرمیوں  کو زیادہ تر لکھنؤ کے مال ایونیو علاقے میں واقع بنگلے تک محدود کر دیاتھا۔ یہی وجہ تھی کہ کارکنوں  کے حوصلے ٹوٹنے لگے اور پارٹی الیکشن کے بعد کمزور ہوتی گئی۔۲۰۰۷ء میں  بی ایس پی نے ۲۰۶؍ سیٹیں  جیت کر مکمل اکثریت والی حکومت بنائی تھی لیکن ۲۰۱۲ء میں  ۸۰؍ سیٹوں  پرمحدود ہو گئی تھی ۔ ۲۰۱۷ء میں  یہ تعداد گھٹ کر۱۹؍ ہوگئی اور ۲۰۲۲ء کے اسمبلی انتخابات میں  پارٹی کو صرف ایک سیٹ ملی۔
 ووٹوں  کا تناسب بھی۲۰۰۷ء میں ۳۰؍ فیصد سےکم ہوکر ۲۰۲۲ء میں  ۱۲ء۹؍ فیصد رہ گیا۔ اس مسلسل کمی نے بی ایس پی کے کارکنوں  کو مایوس کیا اور سیاسی تجزیہ کاروں  نے پارٹی کے مستقبل پر سوال اٹھانا شروع کر دئیے۔۹؍ اکتوبر کے پروگرام کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ تقریب کانشی رام میموریل میں  منعقد کی جا رہی ہے جسے مایاوتی نے ۲۰۰۷ء میں  اقتدار میں  آنے کے بعد تعمیر کیا تھا۔ یہ یادگار بی ایس پی کے کارکنوں  کیلئے ایک علامت اور تحریک سمجھی جاتی ہے۔ اس لئے مایاوتی نے اسی جگہ سے انتخابی تیاری شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ مایاوتی نے حال ہی میں  پارٹی میں  بڑے پیمانے پر تنظیم نوکے عمل کاآغاز کیا ہے اورمنڈل یا زون، ضلع، سیکٹر اور بوتھ کی سطح پر کمیٹیاں  تشکیل دی ہیں ۔ 
 اس مشق کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس بار بوتھ سطح پر بھائی چارہ کمیٹیاں  بنائی گئی ہیں  جن کا مقصد خاص طور پر او بی سی ووٹروں  تک پہنچنا ہے۔ بی ایس پی اب ’ایک منڈل، ایک کوآرڈی نیٹر‘ کی پالیسی اپنانے پر بھی غور کر رہی ہے تاکہ منڈل کی سطح پر ذمہ داری کا تعین ہو اور انتخابات تک استحکام برقرار رہے ۔ 
 مایاوتی نے حالیہ میٹنگوں  میں  یہ بھی واضح کیا ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں  مل کر بی ایس پی کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہیں  اور بہوجن سماج کو اس کے آئینی حقوق سے محروم کرنا چاہتی ہیں ۔ انہوں  نے کارکنوں  کو خبردار کیا کہ وہ اپوزیشن کی اس سازش سے ہوشیار رہیں  اور دلتوں ، قبائلیوں ،پچھڑوں  ، مسلمانوں  اور دیگر اقلیتوں  کو جوڑنے کی مہم کو تیز کریں  ۔ یہ طبقات بی ایس پی کی سیاست کی بنیاد رہے ہیں ۔ 
 پارٹی فی الحال پرانے لیڈروں  کو بھی واپس لانے کی کوشش کر رہی ہے۔۶؍ ستمبر کو راجیہ سبھا کے سابق رکن اشوک سدھارتھ کو مایاوتی نے معافی مانگنے کے بعد پارٹی میں  بحال کر دیا تھا ۔ انہیں  فروری میں  پارٹی مخالف سرگرمیوں  اور گروہ بندی کے الزام میں  نکال دیا گیا تھا۔ سدھارتھ مایاوتی کے بھتیجے اور پارٹی کے حال ہی میں  مقرر کیے گئے قومی کنوینر آکاش آنند کے سسر بھی ہیں ۔ ان کی واپسی صرف ایک لیڈر کی بحالی نہیں  ہے بلکہ اس بات کا اشارہ ہے کہ بی ایس پی اب تقسیم کو روکنے اور اتحاد دکھانے کی سمت میں  آگے بڑھ رہی ہے۔پارٹی کا مستقبل آکاش آنند سے بھی جڑا ہے۔ مایاوتی نے حال ہی میں  انہیں  قومی کنوینر مقرر کیا ہے۔ آکاش کو بہار اسمبلی انتخابات کا انچارج بھی بنایا گیا ہے اور وہ ۱۰؍ ستمبر سے بہار کے کیمور ضلع کے بھبھوا سے شروع ہونے والی ’سروجن ہتائے یاترا‘ کی تیاریوں  میں  مصروف ہیں ۔ مایاوتی نے انہیں بہار اور دیگر ریاستوں  میں پارٹی کی توسیع کی ذمہ داریاں  سونپی ہیں ۔

یہ بھی پڑھئے : آئیے ایک باعلم اور صاحب ِنظر صحافی کو یاد کرلیں

 مایاوتی کے ایجنڈے میں  تنظیم ہی نہیں  مسائل کی سیاست بھی شامل ہے۔ حال ہی میں ، انہوں  نے مذہبی مقامات اور سنتوں  کی توہین کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ انہوں  نے کہا کہ یہ سب معاشرے میں  نفرت اور تفرقہ پھیلانے کی سیاسی سازش ہے اور حکومتوں  کو ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہئے۔ انہوں  نے کانپور کے بدھ پارک میں  شیوالیہ پارک بنانے کے منصوبے کی مخالفت کی اور اسے دلت برادری کے عقیدے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ قرار دیا۔بعد میں  حکومت نے اس تجویز کو منسوخ کر دیا۔ مایاوتی نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ اس طرح کے تنازعات دوبارہ کہیں  اور نہیں  اٹھنے چاہئیں  ۔ اس کے ساتھ ہی مایاوتی نے اقتصادی مسائل کو بھی موضوع بنایا۔ امریکہ کی طرف سے لگائے گئے۵۰؍ فیصد ٹیرف کی مثال دیتے ہوئے انہوں  نے کہا کہ بی جے پی کو اپنی پالیسیوں  میں  اصلاح پسندانہ انداز اپنانا ہو گا اور عوام اور ملک کے مفادات کو مدنظر رکھنا ہو گا۔ اس بیان سے واضح ہے کہ بی ایس پی سربراہ قومی سیاست میں  بھی اپنی آواز بلند کرنا چاہتی ہیں  اور خود کو صرف اتر پردیش تک محدود نہیں  رکھنا چاہتیں ۔علاوہ ازیں  بی ایس پی پنچایتی انتخابات کو اسمبلی انتخابات کی تیاری کا سیمی فائنل سمجھ رہی ہے ۔ اس کیلئے ضلع اور ڈویژن کی سطح پر نئے افسران کا تقرر کیا گیا ہے اور گاؤں  گاؤں  جا کر ملاقاتوں  کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے ۔ پارٹی کارکنوں  کو گھر گھر جاکر بہوجن سماج کو پارٹی سے جوڑنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ پارٹی لیڈروں  کا ماننا ہے کہ پنچایتی انتخابات میں  اچھی کارکردگی سے بی ایس پی کو اسمبلی انتخابات تک رفتار ملے گی اور کارکنوں  کے حوصلے بھی بلند ہوں  گے۔ تاہم سیاسی تجزیہ کاروں  کا ماننا ہے کہ بی ایس پی کا راستہ آسان نہیں  ہے۔ لکھنؤ کے مشہور اودھ کالج کی پرنسپل اور پولیٹکل سائنس ڈپارٹمنٹ کی سربراہ بینا رائے کہتی ہیں  ’’بی ایس پی کے ووٹ فیصد میں  لگاتار گراوٹ، بڑے لیڈروں  کا پارٹی چھوڑنا، تنظیمی کمزوری اور دلت اور او بی سی ووٹروں  پر ایس پی۔کانگریس اور بی جے پی جیسی پارٹیوں  کے دعوے، یہ تمام چیلنجز مایاوتی کے سامنے ہیں ۔ان کے مطابق بی جےپی نے گزشتہ برسوں  میں دلت لیڈروں  کو آگے کرکے اس طبقے پر گرفت مضبوط کی ہے۔ایس پی اور کانگریس بھی اب دلت پسماندہ ووٹروں  کو براہ راست ہدف بنانے کی حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں ۔ ایسے میں  مایاوتی کو دوہرے چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا، ایک طرف پارٹی کارکنوں  کا حوصلہ بڑھانا اور دوسری طرف بہوجن سماج کے ووٹروں  کو یہ باور کروانا کہ بی ایس پی اب بھی ان کی سب سے بڑی آواز ہے۔

mayawati Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK