نکھل چکرورتی اپنے دَور کے ممتاز صحافیوں میں سے ایک تھے۔ اُن کے انتقال کو ۲۷؍ برس گزر چکے ہیں مگر اُن کی کتابوں کے ذخیرہ سے پتہ چلتا ہے کہ اُصول پسندی بھی اُن کی شخصیت کا زیور تھی۔
EPAPER
Updated: September 22, 2025, 1:41 PM IST | sarwarul-huda | Mumbai
نکھل چکرورتی اپنے دَور کے ممتاز صحافیوں میں سے ایک تھے۔ اُن کے انتقال کو ۲۷؍ برس گزر چکے ہیں مگر اُن کی کتابوں کے ذخیرہ سے پتہ چلتا ہے کہ اُصول پسندی بھی اُن کی شخصیت کا زیور تھی۔
گزشتہ اتوار کو معمول کے مطابق مہیلا ہاٹ جانا ہوا جو دریا گنج کے پاس ہے۔ اتوار کی صبح ویسے بھی اپنے ساتھ ایک سرشاری لاتی ہے چاہے موسم سرما کا ہو یا گرما کا۔ بس بارش ڈراتی ہے کہ کتابیں یا تو کم آئیں گی یا پلاسٹک سے چھپا دی جائینگی۔ کبھی اس خیال سے ڈر بھی لگتا ہے کہ کہیں کوئی ایسی کتاب نہ مل جائے جو دوسری کتابوں سے توجہ ہٹا دے، ایسی کتاب اکثر مل ہی جاتی ہے۔ اب اس بک بازار میں اردو کی کتابیں بہت کم آتی ہیں اور جو آتی ہیں وہ احتراماً ہی خریدی جا سکتی ہیں ۔ ایسے میں بہت دیر تک اردو اسکرپٹ کو اس جذبے کے ساتھ تلاش کرنا کہ کوئی کتاب مل جائے گی جو علم اور بصیرت میں اضافے کا سبب ہو، بہت دشوار ہے۔
پچھلے ہفتے نکھل چکرورتی کی کتابوں کا کلیکشن ایک بک اِسٹال پر نظر آیا ۔ یہ اِسٹال ہی نہیں بلکہ زمین پر رکھی کتابیں ہیں جو اپنے اپنے طور پر قاری کی منتظر ہیں ۔انہیں نزدیک اور دور سے دیکھنا پڑتا ہے۔ اسی عمل میں کوئی کتاب بہت پاس بلا لیتی ہے اور دیکھنے والا صفحات پلٹنے لگتا ہے۔یہ ایک خوشگوار تجربہ تھا کہ جو بھی کتاب نگاہ سے گزرتی اس کے پہلے صفحے پر نکھل چکرورتی کلیکشن کی مہر دکھائی دیتی۔ سرخ رنگ کی یہ مہر نکھل چکرورتی کے نام کو کچھ زیادہ روشن کر رہی تھی۔ میں نے ابھی دو تین کتابوں ہی کو دیکھا تھا کہ کتاب بیچنے والا کہنے لگا کہ کوئی خاص کلیکشن آیا ہے جو ہسٹری اور پولیٹکس سے متعلق ہے۔ پچھلے اتوار کو اس کے والد اور بھائی ذرا دیر سے بک بازار آئے تھے ورنہ وہ اس وقت تک مجھے سارا کلیکشن دکھا چکے ہوتے۔ خریداروں کی تعداد گھٹتی بڑھتی رہتی ہے، ایسے میں کسی ایک شخص کا بہت دیر تک کتابوں کو دیکھتے رہنا کچھ ناگواری کا سبب بھی بن جاتا ہے مگر مجھے یہ اطمینان حاصل ہے کہ میں جتنی دیر تک چاہوں کتابوں کو الٹتا پلٹتا رہوں ۔ کبھی کوئی خریدار مجھ سے پوچھتا ہے کہ یہ کتاب کتنے کی ہے۔ میری ہلکی مسکراہٹ اور خاموشی پوچھنے والے کو فوری طور پر مایوس کر دیتی ہے مگر وہ سمجھ جاتا ہے کہ میں بھی اپنی پسند کی کتاب تلاش کر رہا ہوں ۔ کبھی دھوپ اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ سارا جسم پسینے میں شرابور ہو جاتا ہے اور پلاسٹک کا شامیانہ گرمی کی شدت بڑھا بھی دیتا ہے لیکن پلاسٹک کا سبز رنگ زمین پر پڑی کتابوں کو کچھ زیادہ دلکش بنا دیتا ہے۔
اب مَیں جس کتاب کو دیکھتا اس پر نکھل چکرورتی کی مہر دکھائی دیتی۔ یہ کتابیں صرف سیاسی شخصیات سے متعلق نہیں تھیں اور نہ ان کا موضوع صرف اپنے زمانے کے حالات تھے۔لیکن کتابوں کے موضوعات چاہے کچھ بھی ہوں ان کا رشتہ تاریخ سے بھی قائم ہو جاتا ہے اور سیاست سے بھی۔ چند کتابیں ایک طرف کو رکھ دیں اور ذہن میں یہ سوال گردش کرنے لگا کہ نکھل چکرورتی کون ہیں ؟ فوری طور پر جو معلومات حاصل ہوئی ان سے یہ سمجھنا کافی تھا کہ وہ اپنے وقت کے نہایت باعلم اور صاحب نظر صحافی تھے۔ یہ صاحب نظری ان کی باغیانہ روش کے ساتھ کچھ زیادہ اثر انداز ہوئی یا اس نے زمانے کو کسی اور طرح سے دانشوری کا مفہوم سمجھایا۔ ایک چھوٹا سا میسج شاہد لطیف صاحب کو بھیجا کہ کیا نکھل چکرورتی سے آپ کی کوئی ملاقات رہی ہے؟ انہوں نے اُن کے بارے میں کچھ اہم باتیں بتائیں ، یہ بھی کہا کہ فضیل جعفری مرحوم کی ادارت کے دَور میں انقلاب میں ادارتی صفحہ پر ان کی تحریریں شائع ہوتی تھیں ۔ میری دلچسپی بڑھتی گئی، نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے بارے میں کئی تحریریں مطالعہ میں آئیں ۔
نکھل چکرورتی’’مین اسٹریم‘‘ کے بنیاد گزار تھے۔ انہوں نے اس کے وسیلے سے تہذیبی زندگی میں آزادیٔ رائے کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ مین اِسٹریم کا خیال صحافت کے مزاج ہی نہیں بلکہ معیار کی طرف بھی ذہن کو منتقل کر دیتا ہے۔ کلکتہ یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد وہ آکسفورڈ چلے گئے۔بعد ازاں کلکتہ یونیورسٹی میں تاریخ پڑھائی، پھر صحافت کی طرف رخ کیا اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ تاریخ کا طالب علم اور استاد اکثر صحافت اور سیاست کی طرف آ جاتا ہے۔ اس کی وجہ تاریخ کا سیاست سے وہ داخلی رشتہ ہے جس کی تفہیم و تعبیر اپنے اپنے طور پر سیاسی مفسرین اور علماءِ تاریخ نے کی ہے۔
نکھل چکرورتی کی صحافتی دنیا انکار اور بغاوت سے پہچانی جاتی ہے۔انہوں نے پریس کی آزادی کیلئے بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ ۱۹۹۷ء میں جب پرسار بھارتی کا قیام عمل میں آیا تو وہ اس کے پہلے صدر بنائے گئے۔ ملکی اور غیر ملکی معاملات جن کا تعلق سیاست، معیشت اور تہذیبی اقدار سے ہے، ان سب پر اُن کی گہری نظر تھی۔ مطالعہ سے صحافت کے گہرے رشتے کی بہترین مثال اُن کی زندگی ہے۔ عموماً، صحافت اپنے دور کے حقائق سے وابستہ ہو کر تحریروں کو وقتی صورتحال کا محض اظہار بنا دیتی ہے۔ اس میں قصور صحافت کا نہیں ، اس ذہن کا ہے جو اپنے وقت کی قید میں رہتا ہے اور فکر و خیال کی سطح پر وقت سے آزاد نہیں ہو پاتا۔ وقت کی طاقت تو صحافت کا وہ دن ہے جو کسی بڑی یا چھوٹی خبر کے ساتھ مخصوص ہے۔ بڑے واقعے کا تجزیہ بھی کبھی کبھی وقت کو وقت کی قید سے آزاد کر دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے : ۱۰۰؍ سال پر آر ایس ایس کو کس طرح سمجھیں؟
نکھل صاحب کا خیال تھا کہ صحافی کو سرکاری اعزاز سے گریز کرنا چاہیے۔ اس تعلق سے وہ گفتگو سنی جا سکتی ہے جو انہوں نے سرکاری اعزاز کے اعلان پر کہی تھی۔ اُن کے خیال سے دوسروں کو اختلاف بھی تھا لیکن اُن کی رائے تھی کہ فکر و خیال کی آزادی کیلئے سرکاری انعام و کرام نہ لینا ہی بہتر ہے۔ اُن کا سیاسی نظریہ کیا تھا اور انہوں نے کن شخصیات کو اپنا آئیڈیل بنایا تھا، یہ سوال اہم ضرور ہیں مگر ان کی کتابوں کا کلیکشن دیکھنے کے بعد یہی کہا جاسکتا ہے کہ نظریہ چاہے کچھ بھی ہو پڑھنا بہت ضروری ہے۔ باقر مہدی نے ایک مرتبہ وارث علوی سے کہا تھا کہ جو شخص پڑھتا نہیں اس سے کیا بات کریں ۔ یہ بات انہوں نے تب کہی تھی جب رجحانِ مطالعہ پر اتنا مشکل وقت نہیں آیا تھا۔ نکھل چکرورتی کی کتابوں کا ذخیرہ اعلان کر رہا ہے کہ اتفاق اور اختلاف کے مقامات تہذیبی زندگی میں آتے رہتے ہیں مگر جن سے اختلاف ہو انہیں ٹھیک سے جاننا، پڑھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ اب عالم یہ ہے کہ مطالعہ کم، اختلاف زیادہ کیا جاتا ہے۔