’ہم بمقابلہ وہ ‘ اور’ شہری بمقابلہ درانداز‘ کے اس مسئلہ میںسب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہندوستانی ہونے کے معنی کیا ہیں۔
EPAPER
Updated: August 12, 2025, 1:19 PM IST | Parmita Chakraborty | Mumbai
’ہم بمقابلہ وہ ‘ اور’ شہری بمقابلہ درانداز‘ کے اس مسئلہ میںسب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہندوستانی ہونے کے معنی کیا ہیں۔
حالیہ مہینوں میں ایک پریشان کن پیٹرن کئی ریاستوں میں دیکھنے میں آیا ہے ۔ اس میں زبان ، مذہب اور شہریت کے نام پر عوام کے ایک طبقے کو ملک کے مرکزی دھارے سے باہر نکالنے کے میکانیزم پر عمل کیاجا رہا ہے ۔ پہلگام کے دہشت گردانہ حملے کے بعدمرکزی وزارت داخلہ نے ہریانہ ،مہاراشٹر ،ادیشہ ،چھتیس گڑھ اوردہلی جیسی ریاستوں کو غیر قانونی مہاجرین کی شناخت کرنے کی ہدایت دی بالخصوص ان کی جو بنگلہ دیش اور میانمارسے نقل مکانی کرکے ہندوستان وارد ہوئے۔ اس سلسلے میں سیکوریٹی کو اہمیت دینےکے بہانے تحقیقات کا دراصل وہ راستہ اختیار کیا گیا جس سےبنگالی بولنے والے ہندوستانی مسلمان نشانے پر آگئے ۔ گڑگاؤں میں بلیو کالر ملازمین کے گرد گھیرا تنگ کرکے انہیں حراست میں لیا گیا اور ان میں کئی ایسے بھی تھے جن کے پاس شناخت کی مصدقہ دستاویزات تھیں ۔ دہلی کے جے ہندکیمپ میں ایسے مہاجرین سے مکان اور علاقہ خالی کروانے کیلئے ضروری خدمات معطل اور منقطع کردی گئیں ۔ ادیشہ میں ۴۰۰؍بنگالی مہاجرین کو اس شبہ کی بنیاد پر حراست میں لے لیا گیا کہ وہ غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن ہیں ۔
قومی سلامتی اور اس کی اہمیت سب پر مقدم ہے لیکن نقل مکانی، مہاجرین اور تارکین وطن کا جو مسئلہ ہے وہ اس بات کا متقاضی ہےکہ انصاف، شفافیت اورانسانی ہمدردی کی بنیادوں پر اس کاحل تلاش کیاجائے۔ دہلی کے اسکولوں میں عام آدمی پارٹی کی سابقہ حکومت کی جانب سے ’ غیر قانونی بنگلہ دیشی‘طلبہ کی نشاندہی کی مہم سے لے کر آسام میں وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما کی جانب سے ’باہری ‘ لوگوں کومسلسل نشانہ بنانے اور ان کے خلاف زمین، سیلاب اور لو جہاد جیسے اشتعال انگیز حوالے دینے تک، بی جےپی کے آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ کے ذریعے ’بنگالی‘ کو ایک زبان نہیں بلکہ ایک نسل سے متعلق کرنے اور دہلی پولیس کے ذریعے ایک خط میں بنگالی کو بنگلہ دیشیوں کی زبان قرار دینے تک جو مثالیں ہمارے سامنے ہیں انہیں دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہےکہ نقل مکانی کے مسئلےپر جو بیانیہ تشکیل دیا گیا ہے وہ گہری فرقہ واریت پر مبنی ہے۔ علاوہ ازیں بنگالی بولنے والے طبقے کو مسلسل الزامات کی زد پر رکھناآئین کی ان بنیادوں کے بھی منافی ہے جن میں مساوات ، وقار اور ایسے کسی مسئلے پر شفاف رخ پر تفتیش کا وعدہ کیا گیا ہے۔ مذکورہ ریاستوں میں اختیار کیا گیا طریق کار در اصل اکثریتی طرز کی حکمرانی کا اشاریہ ہے۔ شناخت کے مسئلے کو ہتھیار بنانے کا یہ رجحان بالکل نیا نہیں ہے۔۹۰ء کی دہائی میں سنگھ پریوار نے ہندوستان میں مقیم ان بنگلہ دیشی شہریوں کے خلاف مہم شروع کی تھی جن کے پاس قانونی کاغذات نہیں تھے۔ اس وقت کانگریس کی وزارت داخلہ نے دہلی میں مبینہ غیر قانونی بنگلہ دیشیوں کو ان کے ملک واپس بھیجنے کیلئے ایک خصوصی آپریشن بھی شروع کیاتھا۔ یہ مہم غیر منظم اور مختصروقت تک ہی تھی لیکن اس سے پہلے مناسب قانونی راستہ اختیار کئے بغیربڑی تعداد میں مشتبہ غیر قانونی تارکین وطن کوسرحد پار بھیجا جا چکا تھا۔
آسام سے ’ غیر قانونی‘ تارکین وطن کے انخلاء کی اپنی تاریخ رہی ہے اور نوآبادیاتی دورکے بعد تو یہ مسئلہ شدیدترہوا ہے۔ آسام میں بنگالی مخالف جذبات کی اپنی جڑیں ہیں ۔ تقسیم ہند اور ۱۹۷۱ء میں قیام ِبنگلہ دیش کے بعد اجتماعی نقل مکانی کے بہتیرے واقعات سامنے آتے ہیں ۔۱۹۶۰ء میں شروع کی گئی ’بونگال کھیڑا تحریک‘ اور اس کے بعد۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۵ء تک چلنے والے ’آسام ایجی ٹیشن ‘ ، اس کے بعد آسام معاہدہ، یہ سب ریاست کی اصل شناخت باقی رکھنے کی جدوجہد تھی لیکن اس کی قیمت اکثر ریاست میں برسوں سے مقیم بنگالی بولنے والی مقامی آبادی کو ہی چکانی پڑی۔ ۲۰۱۹ء میں جس این آر سی کا اعلان کیا گیا تھا، اس سے وہی پرانے اندیشے اور خدشات تازہ ہوگئے۔ ۱۹؍ لاکھ سے زائد افرادکو غیر ملکی قرار دے دیا گیا جن میں اکثریت بنگالی بولنے والوں اور مسلمانوں کی تھی ۔
یہ پورا طریق کارسنگین خامیوں سے پُر ، غیر منظم اورکھوکھلا تھا، اس میں جگہ جگہ بیوکریٹک رکاوٹیں تھیں جن کی زد میں آکر ایک بڑی آبادی کو فلاحی اسکیموں سے محروم کردیا گیا، متعدد کو حراستی مراکز بھیج دیاگیا اور دیگر کو بے گھر اور بے آسرا کردیا گیا۔ ہیمنت بسوا شرما نے حال ہی میں آسام سے تارکین وطن کے انخلاء سے متعلق ۱۹۵۰ء کے قانون کے دوبارہ نفاذ کے اقدامات کئے ہیں جس میں ضلع کلکٹروں کو نہ صرف ’ باہری ‘ لوگوں کی شناخت کرنے اور فارینرس ٹریبونل میں ان کا مقدمہ پیش کئے بغیر انہیں نکالنے کے اختیارات دئیے گئے ہیں ۔
مشتبہ غیر قانونی بنگلہ دیشیوں کےخلاف مہم کے نام پربنگالی بولنے والے ہندوستانی باشندوں کو ہراساں کرنے کے عمل کو مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ نے بنگالی شہریو ں پرایک منظم حملہ قراردیا ہے۔ ممتا نے اس کیلئے الیکشن کمیشن کی ایس آئی آر مہم کا بھی حوالہ دیا اور الزام لگایا کہ اسی مقصد کیلئےملک گیر ایس آئی آر کروانے کا منصوبہ ہے۔ انہوں نے اس پورے عمل کوچوردروازہ سےاین آر سی نافذ کرنے کی حکومت کی سازش بھی قراردیا۔ اس کے خلاف سخت احتجاج کرنے کیلئے ممتا بنرجی نے ’بھاشا آندولن ‘ کی ابتداء کی ہے۔ یہ سرگرمیاں ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب بنگال اور آسام دونوں ریاستوں میں آئندہ سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ۔ قابل ذکر ہےکہ ممتا بنرجی نے تارکین وطن کے مسئلے پر اپنا بیانیہ اس وقت ہی تشکیل دے دیا تھا جب انہوں نے سرحد پار سے غیرقانونی طورپر بنگلہ دیشیوں کے ملک میں داخلے کیلئے بی ایس ایف کو ذمہ دارقراردیا تھا۔
ہندوستان جیسے ہر لحاظ سے تکثیری اور رنگا رنگ ملک میں نقل مکانی اور ہجرت فطری مظہر ہے۔ آئین ہندکے آرٹیکل ۱۹؍ میں بھی یہ ضمانت دی گئی ہےکہ ہندوستانی شہری ملک کے کسی بھی حصہ میں جا سکتے ہیں اور آزادانہ رہائش اختیار کرسکتے ہیں ۔ کئی لوگوں کیلئے نقل مکانی مجبوری ہوتی ہے۔ معاشی مشکلات اور کئی دیگر مسائل اس کے اسباب ہوسکتے ہیں ۔ اس عمل یا مسئلہ کو زبان ، مذہب اورنسلی امتیازکا موضوع بناناملک کی جمہوریت کو کمزور کرنے جیسا ہے۔ ہندوستان میں شناخت کے مسئلہ کو ہتھیار نہیں بنایاجاسکتا۔’ہم بمقابلہ وہ ‘ اور’ شہری بمقابلہ درانداز‘ کے مسئلہ میں سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہئے کہ ہندوستانی ہونا یعنی کیا؟ (بشکریہ انڈین ایکسپریس )