انڈیا ہیٹ لیب کی رپورٹ میں آسام میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کو جائز قرار دینے میں ریاست کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما کے کردار کو بھی نوٹ کیا گیا ہے۔
EPAPER
Updated: August 02, 2025, 10:11 PM IST | New Delhi
انڈیا ہیٹ لیب کی رپورٹ میں آسام میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کو جائز قرار دینے میں ریاست کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما کے کردار کو بھی نوٹ کیا گیا ہے۔
واشنگٹن میں قائم ایک ادارے انڈیا ہیٹ لیب (آئی ایچ ایل) کی ایک حالیہ رپورٹ میں آسام میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر، ہراسانی اور تشدد میں ”تیز اور شدید تشویشناک“ اضافے کو اجاگر کیا گیا ہے۔ آئی ایچ ایل کے ابتدائی انتباہ، ابتدائی ردعمل (ای ڈبلیو ای آر) اقدام کے تحت جمعرات کو جاری کی گئی رپورٹ میں ریاست میں بنگالی مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی کشیدگی کو سیاسی بیان بازی اور ریاستی حمایت یافتہ اقدامات سے جوڑا گیا ہے۔
رپورٹ میں آسام میں بنگالی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کو جائز قرار دینے میں ریاست کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما کے کردار کو بھی نوٹ کیا گیا۔ مئی میں، بی جے پی لیڈر نے بنگلہ دیش کی سرحد کے ساتھ واقع ’کمزور‘ علاقوں میں ”مقامی باشندوں“ کو اسلحہ لائسنس جاری کرنے کی ایک اسکیم کا اعلان کیا جس میں پانچ مسلم اکثریتی اضلاع کو واضح طور پر ”خصوصی توجہ والے علاقوں“ کے طور پر نامزد کیا گیا۔ شرما نے اس اقدام کو ”دشمن قوتوں کے غیر قانونی خطرات سے نمٹنے“ کیلئے اٹھایا گیا قدم قرار دیا۔
۹ جولائی سے ۳۰ جولائی کے درمیان، آئی ایچ ایل نے آسام کے ۱۴ اضلاع میں ۱۸ ریلیوں پر تحقیق کی جن میں سے بیشتر ریلیوں کا اہتمام بی جے پی لیڈران اور ان کے اتحادیوں کے ذریعے کیا گیا تھا۔ ان تقریبات میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر، مسلمان شہریوں کی پرتشدد بے دخلیوں کا عوامی جشن اور مبینہ ”غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن“ کے گھروں کو گرانے کے مطالبات کئے گئے تھے۔ کئی ریلیوں میں علامتی بلڈوزر کا جلوس نکالا گیا جس میں ریاستی حکومت کی قیادت میں انہدامی کارروائیوں کی حب الوطنی کے اعمال کے طور پر ستائش کی گئی۔
آئی ایچ ایل نے اسی عرصے کے دوران ہراسانی اور تشدد کے ۹ واقعات بھی ریکارڈ کئے۔ چپائی ڈونگ میں مسلم مزدوروں پر بے دخل کئے گئے لوگوں کو پناہ دینے کا الزام لگانے کے بعد ان پر حملہ کیا گیا اور ان کے گھروں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ کالیابور میں، بیر لچیت سینا کے ممبران نے بے گھر مسلم خاندانوں کو ان کے رشتہ داروں کے پاس رہنے کی مخالفت کی۔ ماریانی میں، اس گروپ نے بنگالی بولنے والے مسلمانوں کے گھر گھر جا کر ان کے شناختی دستاویزات کی جانچ کی اور پولیس سے تصدیق کا مطالبہ کیا۔
یہ بھی پڑھئے: آسام میں بنگالی شہریوں پر مظالم،بسوا شرما پر ممتا کا حملہ
گزشتہ ایک ماہ میں بڑے پیمانے پر بے دخلی کی پانچ مہموں نے ہزاروں بنگالی نژاد مسلم خاندانوں کو بے گھر کردیا ہے۔ دھوبری میں، ۸ جولائی کو اڈانی تھرمل پاور پروجیکٹ کیلئے ۱۶۰۰ سے زیادہ خاندانوں کو بے دخل کیا گیا۔ گوال پاڑہ میں، ۱۲ جولائی کو ۱۰۰۰ سے زیادہ گھروں اور ایک مسجد کو گرایا گیا اور مظاہرین پر پولیس نے فائرنگ کی، جس میں ایک ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ ۲۹ جولائی کو اوریم گھاٹ میں ۲۵۰ گھروں کو تباہ کر دیا گیا جہاں کے رہائشیوں نے الزام لگایا کہ اس کارروائی میں صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
آئی ایچ ایل نے آسام کے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ بنگالی نژاد مسلمانوں کے خلاف بے دخلی اور انہدامی کارروائیوں کی مہم کو روکیں، بے گھر خاندانوں کی بحالی کو یقینی بنائیں اور نفرت انگیز تقاریر کو ہوا دینے والے سیاسی لیڈران کو جوابدہ ٹھہرائیں۔ ادارے نے بیرلچیت سینا اور سچیتن یووا منچ جیسے گروپس سے اقلیتوں کے فوری تحفظ کا بھی مطالبہ کیا۔