Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیابی جے پی کا پانسہ الٹا پڑگیا؟

Updated: August 13, 2025, 1:41 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں بنگلہ بولنے والے مہاجر مزدوروں کو نشانہ بنائے جانے کے خلاف بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی سرتاپا احتجاج بن گئی ہیں۔ انہوں نے بنگلہ زبان کو بی جے پی کے خلاف ایک مؤثر ہتھیار بناتے ہوئے ۲۸؍ جولائی کو بول پور سے ایک نئے ’’بھاشا آندولن‘‘کا آغاز کردیا ہے

Photo: INN
تصویر:آئی این این

۵؍اگست ۲۰۲۴ء کے دن بنگلہ دیش میں  ایک عوامی بغاوت میں  وزیر اعظم شیخ حسینہ کا تختہ پلٹ دیا گیا اور وہ بڑی مشکل سے جان بچاکر ڈھاکہ سے فرار ہوسکیں ۔ بنگلہ دیش میں  یہ بغاوت جو طلبہ کے احتجاج سے شروع ہوئی تھی مشکل سے چھ ہفتے تک چلی تھی۔ اس تحریک میں  مختلف نعروں  کے ساتھ ایک گیت بے حد مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے:’’ دیش ٹا تومار باپیر نا کی؟‘‘یعنی یہ ملک تمہار ے باپ کا ہے کیا؟ میرے آج کے کالم کا موضوع بنگلہ دیش نہیں  مغربی بنگال ہے۔ ان تمہیدی جملوں  کی ضرورت اس لئے آن پڑی کیونکہ اتوار کے دن کلکتہ کے سالٹ لیک اسٹیڈیم میں  ایک فٹ بال میچ کے دوران ایک بینر لہرارہا تھا جس پر لکھا تھا ’’دیش ٹا کارور باپیر نوئے‘‘ یعنی یہ ملک کسی کے باپ کا نہیں  ہے۔ ڈھاکہ سے کلکتہ آتے آتے الفاظ میں  تھوڑی تبدیلی کے باوجود نعرے کا مفہوم بھی وہی ہے اور پیغام بھی وہی۔یہ تاناشاہی کے خلاف مزاحمت کا اعلان ہے۔ یہ جبر کے خلاف بغاوت کا پیغام ہے۔یہ دنیا کے ان تمام حکمرانوں  کے لئے ایک انتباہ ہے جو اقتدارکے نشے میں  اندھے ہوکریہ سمجھ بیٹھتے ہیں  کہ یہ ملک ان کی موروثی جاگیر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برسوں  پہلے اردو کے مقبول شاعر راحت اندوری نے بھی کچھ اسی قسم کے خیال کا اظہار اس مصرع میں  کیا تھا؎
’’کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے‘‘
 قارئین سوچ رہے ہوں  گے کہ کلکتہ میں  اس وقت ’’یہ ملک کسی کے باپ کا نہیں  ہے‘‘کا بینر لگانے کی کیا تک ہے۔ یہاں  کون سا انقلاب آرہاہے؟ کلکتہ میں  انقلاب نہیں  آرہا ہے لیکن اضطراب ضرور پیدا ہوگیا ہے۔ بنگال میں  اپنی زبان اور اپنی شناخت کے تحفظ کی تحریک جنم لے رہی ہے۔پچھلے چند ماہ سے مغربی بنگال کے باشندوں  کے دلوں  میں  غم و غصہ اور خدشات سر ابھار رہے ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ بی جے پی کی حکومتوں  والی ریاستوں  میں  بنگلہ بولنے والے مہاجر مزدوروں  کے ساتھ دشمنوں  جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن کے بہانے پولیس بنگال کے مختلف علاقوں  کے باشندوں  پر ظلم ڈھارہی ہے۔ غریب الوطنی کا عذاب جھیل رہے ان مفلس و لاچار لوگوں  کو گرفتار کرکے جیلوں  اور حراستی کیمپوں  میں  بند کیا جارہا ہے اور بہت سے بد نصیبوں  کو جبراً بنگلہ دیش میں  بھی دھکیل دیا گیا ہے۔
 اگلے اسمبلی انتخابات ۲۰۲۶ء کے اپریل اور مئی میں  متوقع ہیں  لیکن بی جے پی نے اس سال کے اوائل سے ہی بنگال میں  اقتدار کی حصولیابی کے لئے منصوبہ بند طریقے سے کام شروع کردیا ہے۔ پہلے انتخابی مہم کے دوران بنگال میں  بنگلہ دیشی دراندازی کا ایشو اچھالا جاتا تھا۔ اس بار الیکشن سے ایک سال قبل ہی بی جے پی نے اس ایشو کوملک گیر پیمانے پر اچھالنا شروع کردیا ہے۔ دلی، گڑگاؤں ، مہاراشٹر، گجرات، راجستھان، مدھیہ پردیش اوراڑیسہ میں  بنگلہ دیشی اور روہنگیا گھس پیٹھیوں  کی دھر پکڑ کی مہم کے نام پران ہندوستانی شہریوں  کو نشانہ بنایا جانے لگا جو بنگلہ بولتے ہیں ۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں  ہے کہ مظلومین میں  اکثریت مسلمانوں  کی ہے۔ ان کے پاس آدھار کارڈ، ووٹر آئی ڈی، راشن کارڈجیسے تمام دستاویز موجود ہیں  جن سے ان کی شہریت کی تصدیق ہوسکتی ہے لیکن متعصب پولیس والوں  کی نظر میں  ان کی کوئی وقعت نہیں  ہے۔بنگالی مزدورں  کے دلوں  میں  پولیس کی ایسی دہشت بیٹھ گئی ہے کہ کوچ بہار، مالدہ، مرشد آباد، دنیاج پور، بردوان، ندیا، چوبیس پرگنہ اور ہوگلی جیسے اضلاع کے ہزاروں  مزدور اپنے اپنے گھر واپس آرہے ہیں ۔
  ممتابنرجی نے دوسرے صوبوں  میں  بنگالی مزدوروں  کو ٹارچر کئے جانے کو بنگالی شناخت پر حملہ قرار دیتے ہوئے بی جے پی کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔چونکہ بی جے پی بنگلہ بولنے کی وجہ سے ان مہاجر مزدوروں  کو ہراساں  کررہی ہے اور ان پر بنگلہ دیشی اور روہنگیا کا لیبل چپکا رہی ہے اس لئے ممتا نے بنگلہ زبان کو بی جے پی کے خلاف ایک مؤثر ہتھیار بنالیا ہے ۔۲۸؍ جولائی کو ممتا بنرجی نے بول پور (جہاں  شانتی نکیتن واقع ہے)میں  ایک نئے ’’بھاشا آندولن‘‘کا آغاز کردیا۔رابندر ناتھ ٹیگور کی تصویر ہاتھوں  میں  اٹھائے ممتا نے بی جے پی حکومتوں  کے بنگلہ فوبیاکے خلاف احتجاج کیا۔پاکستان میں  جب بنگلہ زبان کو اس کا جائز حق نہیں  ملا تو مشرق پاکستان میں  اس ناانصافی کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوگئے تھے جن میں  اسٹوڈنٹس بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ کئی سالوں  تک چلی اس تحریک نے جسے ’’بھاشا اندولن‘‘کانام دیا گیاپاکستانی حکومت کو بنگلہ کو بھی سرکاری زبان کا درجہ دینے پر مجبورکردیاتھا۔ممتا بنرجی نے ہندوستان میں  بنگلہ زبان بولنے والوں  کے خلاف متعصبانہ سلوک کرنے اور انہیں  بنگلہ دیشی درانداز قرار دینے کے خلاف’’ بھاشا آندولن‘‘ چھیڑ کر بی جے پی کی نیندیں  اڑا دی ہیں ۔
 جب بی جے پی کے لیڈران ہی بنگلہ زبان کی لسانی اور ثقافتی اہمیت سے نابلد ہیں  تو دلی پولیس سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ حال میں  دلی پولیس نے اپنے ایک پریس ریلیز میں  بنگلہ زبان کو’’ بنگلہ دیشی زبان‘‘ لکھ کر اپنی بدعقلی کا ثبوت فراہم کیا۔ بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ نے دلی پولیس کی حمایت کرتے ہوئے یہ دعویٰ کردیا کہ بنگلہ سرے سے کوئی زبان ہی نہیں  ہے۔ ابھی تک صرف ترنمول کانگریس کے لیڈران اور ورکرز بی جے پی پر تنقید کر رہے تھے لیکن اب اپنی زبان اور ثقافت کے خلاف بی جے پی لیڈروں  کی زہرافشانی سے بنگال کے عام لوگ بھی ان سے بدظن ہوگئے ہیں ۔فٹبال اسٹیڈیم میں  لہراتے جس بینر کا میں  نے اوپر ذکر کیا وہ دراصل بنگالیوں  کی اس بدظنی کی عکاسی کررہا تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے : تارکین وطن کا مسئلہ ا نسانی بنیادوں پر حل ہو سکتا ہے؟

  بنگالی اپنی زبان، اپنے ادب، اپنی ثقافت مطلب یہ کہ اپنی شناخت کے سلسلے میں  بے حد جذباتی ہوتے ہیں ۔دوسرے صوبوں  میں  مہاجر مزدوروں  کو بی جےپی حکومتوں  کے ذریعہ نشانہ بنائے جانے کو ممتا بنرجی نے بنگالی شناخت کو قومی منظر نامے سے مٹانے کی بی جے پی کی سازش قرار دیا ہے اور وہ اس سازش کے خلاف سرتاپا احتجاج بن گئی ہیں ۔وہ صوبے کے باشندوں  کو یہ باور کرارہی ہیں  کہ بی جے پی نے بنگلہ وقارپر حملہ کیا ہے۔ ترنمول کانگریس پورے صوبے میں  بنگلہ زبان اور بنگلہ ثقافت کیلئے عوام کے دلوں  میں  ایک نیا جوش ایک نیا ولولہ ابھار رہی ہے۔ کلکتہ کے مئیر فرہاد حکیم نے سائن بورڈوں  پر دکانوں  کے نام بنگلہ زبان میں  لکھنا لازمی قرار دیا ہے۔ ہر سال درگا پوجا کے پنڈال کسی نہ کسی تھیم پر بنائے جاتے ہیں ۔ اس بار متعدد پنڈالوں  میں  بنگالی مہاجر مزدوروں  کے خلاف بی جے پی کے ظلم و ستم کو خصوصی طور پر اجاگر کرنے کی تیاریاں  کی جارہی ہیں ۔ 

bangladesh Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK