• Tue, 02 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

یوم آئین آیا بھی اور چلا بھی گیا ....

Updated: December 02, 2025, 1:57 PM IST | Seema Joshi | mumbai

کیا ہم نے ان باتوںکی یاددہانی کی اور ان پر غور کیا جومعمار آئین نے آئین سے متعلق کہی تھیں ۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے خبردار کیا تھا’’ آئین اتنا ہی اچھا یا برا ہوگا جتنےاچھے یا برے اسے نافذ کرنے والے ہوں گے۔‘‘یہ جملہ آج ہر شہری، ہر نمائندے اور ہر ادارے کیلئے آئینے کا کام کرتا ہے۔

INN
آئی این این
۲۶؍ نومبر کا دن نہ صرف ایک تاریخی لمحے کی یادگار ہے بلکہ جمہوریت پر ہمارےیقین، ہماری ذمہ داریوں  اور ایک قوم، ایک ملک کی حیثیت سے اپنے کردار کا گہرائی سے جائزہ لینے کا موقع بھی ہے۔ اسی دن ۱۹۴۹ء کو دستور ساز اسمبلی نے ہندوستانی آئین کو اپنایا تھا۔ آئین کیا ہے؟ آئین ایک ایسی دستاویز جس نے متنوع قوم میں  انصاف، آزادی، مساوات اور بھائی چارے کی بنیاد رکھی ہے۔ ۲۰۱۵ء میں  اس دن کو باضابطہ طور پر’ یوم آئین ‘ قراردیا گیاتھا جس کا مقصد آئین کے معمار ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی بے مثال خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا اور آئینی شعور کو نئی جہتیں  عطاکرنا تھا ۔
آئین محض ایک قانون نہیں ، یہ قوم کی روح ہے۔ کسی بھی مہذب قوم کی اصل پہچان اس کا دستور ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف حکمرانی کے ڈھانچے کا تعین کرتا ہے بلکہ اس اخلاقی اور انسانی بنیاد کا بھی تعین کرتا ہے جس پر ریاست اور اس کے شہریوں  کے درمیان تعلقات استوار ہوں  گے۔ ہندوستانی آئین دنیا کا سب سے طویل تحریری مسودہ ہے جو اصل میں ۳۹۵؍ آرٹیکلز،۲۲؍ حصوں  اور۸؍ شیڈولز پر مشتمل ہے جو کہ ترامیم کے بعد اب بڑھ کر۴۷۰؍آرٹیکلز،۲۵؍ حصے اور۱۲؍ شیڈولز تک پہنچ چکے ہیں ۔
جب ہندوستان جیسا وسیع، کثیر لسانی، کثیرمذہبی اور کثیر ثقافتی ملک ایک دھاگے میں  پرویا ہوا نظر آتا ہے تو یہ آئین کا فلسفیانہ نظریہ اور حساس ڈھانچہ ہی ہے جو اسے باندھے رکھتا ہے۔ ہمارا آئین مکالمے، جدوجہد اور اتفاق رائے کی منفرد مثال ہے۔ دستور ساز اسمبلی۹؍ دسمبر۱۹۴۶ء کو تشکیل دی گئی تھی۔ ابتدا میں  اسمبلی کے اراکین کی تعداد۳۸۹؍ تھی جو تقسیم کے بعد کم ہو کر۲۹۹؍رہ گئی۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر، ڈرافٹنگ کمیٹی کے چیئرمین اور آئین بنانے والوں  نے تقریباً ۲؍ سال،۱۱؍ ماہ اور۱۸؍ دن تک انتھک محنت کی۔ اس عرصےمیں  ۲؍ ہزارسے زیادہ ترامیم، طویل بحثیں ، اختلاف رائے اور نظریاتی اختلافات دیکھنے میں  آئے۔ بالآخر، ایک آئین تیار کیا گیا جس نے کروڑوں  ہندوستانیوں  کی امنگوں  کو آواز دی۔ یہ عمل ہمیں  سکھاتا ہے کہ قومی تعمیر بحث و تبادلہ خیال سے جنم لیتی ہے، اتفاق رائے کے تسلط یاجبری نفاذ سے نہیں ۔
آئین کی تمہید ہمارے قومی خواب کا اعلان ہے۔ تمہید میں  کہا گیا ہے کہ ہندوستان ایک خودمختار، سوشلسٹ، سیکولر، جمہوریہ کے قیام کیلئے پُرعزم ہے جو سماجی، اقتصادی اور سیاسی انصاف، آزادی فکر، اظہار، عقیدہ، عبادت اورمساوی مواقع نیز بھائی چارہ کو یقینی بناتا ہے جو قوم کے اتحاد اور سالمیت کو مضبوطی عطا کرنے کا ضامن ہوتا ہے۔ یہ چار بنیادیں  انصاف، آزادی، مساوات اور بھائی چارے ہندوستانی جمہوریت کے اخلاقی ستون ہیں ۔ آئین ہر شہری کو وہ حقوق دیتا ہے جو جمہوریت کی روح ہیں ۔ ان میں  مساوات کا حق، آزادی کا حق، استحصال سے تحفظ، مذہبی آزادی، ثقافتی، تعلیمی حقوق اورمسائل کے قانونی حل کا حق شامل ہیں ۔ لیکن جمہوریت صرف حقوق سے نہیں  چلتی۔
آئین کی ۴۲؍ویں  ترمیم(۱۹۷۶ء) نے شہریوں  کو۱۰؍ بنیادی فرائض کا بھی پابند کیا ہے جنہیں  بعد میں  بڑھا کر۱۱؍ کر دیا گیا۔ پیغام واضح ہے: حقوق اور فرائض کے درمیان توازن جمہوریت کو مضبوط کرتا ہے۔ ہندوستانی آئین محض ایک انتظامی دستاویز نہیں  ہے بلکہ سماجی تبدیلی کا ایک آلہ ہے۔ ریزرویشن کا نظام، تعلیم اور روزگار میں  خصوصی دفعات اور خواتین، بچوں ، دلتوں ، قبائلیوں  اور کمزور گروہوں  کا تحفظ۔ یہ سب اسی ایک آئینی وِژن کی عکاسی کرتے ہیں جو آزادی کے بعد ہمارے دستور سازوں نے پیش کیا تھا ۔ ہم آئین کی قدر تو کرتے ہیں لیکن یہ قدر صرف زبانی ہےیا کچھ حد تک ہمارے دل میں آئین کا احترام ہے لیکن کرداروعمل سے آئین سے وابستگی ثابت کرنا بہت بڑی ذمہ داری ہے۔
ڈاکٹر امبیڈکر نے اس وقت خبردار کیا تھا:’’سیاسی جمہوریت اسی وقت قائم رہے گی جب سماجی اور اقتصادی جمہوریت کی بنیادیں  مضبوط ہوں  گی۔‘‘ یہ تنبیہ آج بھی اتنی ہی معنویت اور مطابقت رکھتی ہے جتنی ۷۵؍سال پہلے تھی۔ ہندوستانی آئین وقت کے ساتھ بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس میں  اب تک۱۰۰؍ سے زائد ترامیم کی جا چکی ہیں ۔ اگر آئین سخت ہوتا تو آج کے حالات کی مناسبت سے غیر متعلق ہو کر رہ جاتا ۔ اگر یہ بہت زیادہ اتار چڑھاؤ والا ہوتا تو اس کا مستحکم رہنا ممکن نہ ہوتا لیکن اس کی خوبصورتی اس کے توازن میں  ہے۔ آج، ہندوستان اظہار رائے کی آزادی، ڈیجیٹل رازداری، فرقہ وارانہ کشیدگی، سماجی پولرائزیشن اور شہری حقوق پر مباحثوں  سے گزر رہا ہے۔ ایسے وقت میں  آئین نہ صرف قانونی مدد فراہم کرتا ہے بلکہ اخلاقی رہنمائی بھی کرتا ہے۔ یہ ہمیں  سکھاتا ہے کہ اختلاف رائے جمہوریت کی طاقت ہے، کمزوری نہیں ۔ شہری حقوق کا مطلب شہری ذمہ داری بھی ہے۔
یوم آئین آیا بھی اور چلا بھی گیا لیکن کیا ہم نے ان باتوں کی یاددہانی کی اور ان پر غور کیا جومعمار آئین نے آئین سے متعلق کہی تھیں  ۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے خبردار کیا تھا’’ آئین اتنا ہی اچھا یا برا ہوگا جتنےاچھے یا برے اسے نافذ کرنے والے ہوں  گے۔‘‘ یہ جملہ آج ہر شہری، ہر نمائندے اور ہر ادارے کیلئے آئینے کا کام کرتا ہے۔ یوم آئین صرف ایک جشن نہیں  ہے بلکہ آئینہ آئین میں  یہ خود کو دیکھنے کا موقع ہے۔ 
 
 
یوم آئین ہمیں  اس بات پر غور کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ آیا ہم مساوات اور انصاف کی اقدار کو برقرار رکھے ہوئے ہیں  یا چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر ان کی بھینٹ چڑھا چکے ہیں ۔ کیا نوجوان نسل آئین کا مطالعہ کررہی ہےیا محض مسابقتی امتحانات کیلئے اس کے کچھ حصوں  کو یاد کر لیاجاتا ہے؟ صرف آئین کا مطالعہ کافی نہیں  ہے بلکہ اپنے عمل، کرداراور شہری ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئےآج کے حالات میں  اس کا احیاءکرنا ضروری ہے۔
(مضمون نگار دہلی ہائی کورٹ کی وکیل ہیں )
 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK