نقل مکانی اور اس سے بھی بڑھ کر ’’پلائن‘‘ کو سمجھنا آسان نہیں۔ سیاست تو اسے سمجھنا بھی نہیں چاہتی مگر جو لوگ پلائن پر مجبور ہوتے ہیں اُن کے پاس بیٹھ کر کبھی اُن کے دل کا حال بھی جاننا چاہئے۔ کچھ لوگ کبھی کچھ نہیں کہتے مگر کیا وہ کچھ بھی نہیں کہنا چاہتے؟
اصل میں یہی زندگی ہے اور اسی کو زندگی کا حسن بھی کہتے ہیں ۔ دو پھول کی حصولیابی کا مطلب اپنے دو پھولوں سے چمن کو بنانا ہے۔ کبھی دو پھول بھی نہیں ملتے اور ہمارا دامن خالی خالی چمن سے لوٹ آتا ہے۔ وقت نے دو پھول کی ضرورت کو بھی سیاست کا موضوع بنا دیا ہے۔ دو پھول کی تلاش میں لوگ ایک مقام سے دوسرے مقام تک کا سفر کرتے ہیں ۔ وہ جہاں جاتے ہیں ، وہاں کی بھی ایک سیاست پہلے ہی سے سرگرم عمل ہوتی ہے۔ چمن کی طرف دیکھنے کا مطلب ایک وسیع و عریض زمین کے خطے کو اپنی نظر سے اپنا سمجھ کر دیکھنا ہے۔ کبھی دیکھنے والی نظر کچھ اس طرح لوٹ آتی ہے کہ جیسے وہ کبھی اٹھی ہی نہیں تھی۔ ایک ہی زمین کا خطہ الگ الگ ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ وہی خطہ اپنا کہلاتا ہے جہاں اس کی چھوٹی سی یا چھوٹی سے بڑی کوئی کٹیا ہے۔ اس کے آس پاس کی دنیا اس کیلئے بہت بڑی حقیقت اور طاقت ہے۔
بڑھتی عمر کے ساتھ نئی جان پہچان بھی کس قدر مشکل ہو جاتی ہے۔ پرانی جان پہچان پرانی زمین کے ساتھ زندگی کو تھوڑے سے وسائل میں بھی آسودہ رکھتی ہے۔ نئی زمین کے تقاضے اتنے نئے ہوتے ہیں کہ ایک پرانا آدمی خود کو بدل نہیں پاتا۔ وہ نئے اور پرانے خیال کے درمیان جھولتا رہتا ہے۔ نقل مکانی کی تاریخ دراصل زمین یا اپنی مٹی سے بچھڑنے کی تاریخ نہیں بلکہ ذہنی جلا وطنی کی تاریخ بھی ہے۔ ذہنی جلا وطنی جسمانی جلا وطنی سے زیادہ مشکل ہو جاتی ہے۔ اختر الایمان کی نظم ’’ایک لڑکا‘‘کا پس منظر بھی اپنے گاؤں سے ہجرت ہے۔ اختر الایمان نے نظم کے بارے میں لکھا ہے کہ سامان گاڑی پر لاد کر دوسرے شہر بھیج دیا تو گیا مگر وہ لڑکا وہیں کھڑا رہ گیا۔ ہم سب وہیں کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے، اس میں وہ شخص بھی شامل ہے جو بڑی نوکری کی تلاش میں اپنی مٹی سے دور ہوا اور وہ مزدور بھی جو اپنی گٹھری اٹھا کر شہر کی طرف روانہ ہوا تھا۔ بڑے شہروں میں وہی لوگ پریشان حال دکھائی دیتے ہیں جن کے سروں پر گٹھریاں تھیں اور جو ٹوٹے ہوئے چپلوں اور چپلوں سے خالی پاؤں کے ساتھ اپنے گھروں سے چلے تھے۔ ان کے پاؤں اب بھی کھردرے ہیں اور ان کے چہروں پر اب بھی غربت کی لکیریں ہیں ۔ یہ لکیریں وقت کے ساتھ گہری ہوتی گئیں ۔ سیاست نے کم بلکہ بہت کم غربت کی ان لکیروں کو دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ ایک طبقہ جو نقل مکانی کے بعد خوشحال زندگی گزارتا ہے، اسے بھی کبھی کبھی اپنے گھر اور وطن کی یاد آجاتی ہے لیکن آسائشیں اتنی حاوی ہو گئی ہیں کہ سینے میں وہ دل دھڑکتا ہی نہیں جو نئی آسائشوں سے پہلے دھڑکتا تھا۔
ذہنی جلا وطنی ایک سزا ہے۔ ذہنی جلاوطنی کی تاریخ نقل مکانی کی تاریخ کے ساتھ ہی شروع ہوئی ہوگی۔لیکن ذہنی جلا وطنی کی تاریخ کہاں لکھی جا سکی۔ جن لوگوں نے لکھی ہے اسے فکشن کے طور پر پڑھا گیا۔ پھر بھی یہ کیا کم ہے کہ ہمارے یہاں ایسے لکھنے والے موجود ہیں جنہوں نے ہجرت کرنے والوں کی ذہنی کیفیات تک پہنچنے کی کوشش کی۔نقل مکانی اب ایک ایسا موضوع ہے جو سیاست کی نذر ہو چکا ہے۔ سیاست کسی لفظ، کسی مکالمے کو اس کی اصل کے ساتھ رہنے نہیں دیتی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ سیاست اب ختم ہو چکی ہے جس کے مقاصد بہت اعلیٰ تھے، اور جن میں ایماندارانہ جذبہ شامل تھا۔ سیاست کی آواز اپنے نظریے کے ساتھ پرکشش بھی ہو سکتی ہے اور بھروسے مند بھی۔ پھر بھی نقل مکانی کا سیاسی موضوع بن جانا خوفزدہ کرتا ہے۔
نقل مکانی کی وجہ وسائل کی کمی ہو سکتی ہے، بے یقینی کی صورتحال ہو سکتی ہے، زیادتیاں ہو سکتی ہے، قدرتی آفت ہو سکتی ہے۔ ان تمام مسائل کو ملا کر دیکھیے تو ان کے مرکز میں انسانی زندگی ہے لہٰذا بات کہیں سے شروع کی جائے اسے انسانی زندگی کا موضوع بننا ہے۔ ان مسائل میں ایک سب سے بڑا مسئلہ جنگ کے بعد کی صورتحال ہے۔ رِفیوجی کیمپ کی تاریخ بھی انسانی زندگی کی ایک بڑی سچائی ہے۔مختلف سرحدی علاقے جنگ کی تباہ کاریوں کا جو نقشہ پیش کرتے ہیں ، انہیں انہی کیمپوں کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ کھلے میدان میں بنائے گئے شامیانے کہتے ہیں کہ زندگی ابھی راہ میں ہے۔ زندگی کا کیمپوں میں اس طرح ہونا تب زندگی کی توہین بن جاتا ہے جب اسے بھی سیاست اپنا موضوع بنا لیتی ہے۔ کلیم عاجز نے نجانے کس طرح اور کس کیفیت میں یہ شعر کہا ہوگا:
میں ہوں وہ غریب عاجز کے گلوں کی انجمن میں
مرے پیرہن کے ٹکڑوں کا بنا ہے شامیانہ
پیرہن کے ٹکڑوں سے بننے والا شامیانہ ہر اس شہر کا مقدر ہے جہاں نقل مکانی کرنے والے مزدور ہیں ۔ مزدوروں کو مہاجر نہیں کہا جاتا شاید اس لئے کہ یہ سفر روحانی اور اخلاقی اقدار سے وابستہ نہیں ۔مگر اب تو یہی سب سے بڑی روحانی اور اخلاقی قدر ہے کہ وسائل کی کمی نے لوگوں کو اپنی مٹی سے بچھڑنے پر مجبور کر دیا۔ مزدوروں کی اخلاقی اور روحانی قدر کو سمجھنے اور محسوس کرنے کیلئے ہمیں ایک نئی ترقی پسندی پر غور کرنا ہوگا ۔
اہل چمن کو ’’دو پھول چاہتے ہیں چمن چاہتے نہیں ‘‘ کا یقین آ جاتا تو شاید صورتحال اتنی خراب نہ ہوتی۔ نقل مکانی سے کہیں زیادہ لفظ ’’پلائن‘‘ شناسا اور بامعنی سمجھا جاتا ہے۔ پلائن بولتے اور لکھتے ہوئے لگتا ہے کہ جیسے قلم اور زبان نے خود کو اپنی جڑوں سے کاٹ لیا ہے۔ نقل مکانی کو تھوڑا وقت لگتا ہے اپنے مرکز سے ہٹتے ہوئے۔ پچھلے دنوں ایک نوجوان کو دن کا کھانا کھاتے ہوئے دیکھا تو لگا جیسے اس کے والدین نے نقل مکانی کو اپنے لئے واقعی بہتر زندگی کے حصول کا وسیلہ بنا لیا ہے۔ کہیں اور جگہ نہیں تھی لہٰذا وہیں بیٹھ گیا۔ دریافت کیا کہ کس کورس میں تمہارا ایڈمیشن ہے اور کہاں سے آئے ہو؟ اس کا ایک ہم جماعت بھی ساتھ تھا۔ نوجوان روٹی کے ساتھ آم کا اچار کھا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں چمک تھی اور کچھ کر گزرنے کا حوصلہ۔ کہاں کے رہنے والے ہو تو اس کا جواب تھا شیخ پورہ بہار۔ اسے اس وقت تک معلوم نہیں تھا کہ میں یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں ۔ پھر وہ نمستے کر کے کھڑا ہو گیا۔ کہنے لگا روٹی اچار ممی نے ساتھ کر دیا کہ بیٹا آج یہی کھانا ہے۔ مجھے اس چھوٹی سی ملاقات نے نقل مکانی کا وہ مفہوم سمجھایا جس کا تعلق ہمارے وقت کی سیاست سے نہیں ہے۔