Inquilab Logo Happiest Places to Work

حکومت کی گیارہ سالہ کارکردگی کو کیسے دیکھا جائے؟

Updated: June 24, 2025, 1:41 PM IST | P Chidambaram | Mumbai

باشعور شہریوں کو حکومت کے دعوؤں کو سمجھنے کیلئے حقائق بالخصوص اعدادوشمار کو پیش نظر رکھنا چاہئے تاکہ دعوؤں کی حقیقت آشکار ہوسکے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

پچھلے ہفتے مَیں  نے اپنے مضمون بعنوان ’’حکومت کی گیارہ سالہ کارکردگی کو کیسے دیکھا جائے؟‘‘ میں  کئی باتیں  آپ کے گوش گزار کی تھیں ۔ مَیں  اعدادوشمار اور ڈیٹا کا قائل ہوں  مگر افسوس کہ اکثر قارئین اسے خشک سمجھتے ہیں ۔ تعلیم یافتہ قاری بھی ڈیٹا میں  کم دلچسپی لیتے ہیں  جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اعدادوشمار اور ڈیٹا کے ذریعہ ہی کسی معیشت کو اُس کی جزئیات کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ 
 اگر کسی حکومت کی کارکردگی کو سمجھنا ہے تو اس کا سب سے اہم طریقہ  یہ دیکھنا ہے کہ کیا عوام کی اتنی آمدنی ہے کہ وہ بنیادی ضرورتوں  کو پورا کرسکتے ہوں  مثلاً غذا، رہائش، تعلیم، صحت، آمدو رفت اور دیگر۔ اس سلسلے میں  ’’ہاؤس ہولڈ کنزمپش ایکسپینڈیچر سروے‘‘ (ایچ سی ای ایس) کافی معاون ہے۔ یہ سروے ۲۴۔۲۰۲۳ء میں  کرایا گیا تھا جس میں  ملک بھر کے ۲؍ لاکھ ۶۱؍ ہزار ۹۵۳؍ کنبوں  کی معلومات حاصل کی گئی تھی جن میں  ایک لاکھ ۵۴؍ ہزار دیہی اور ایک لاکھ ۷؍ ہزار شہروں  کے کنبے شامل تھے۔ یہی (۲۴۔۲۳ء) وہ وقت تھا جب مودی حکومت نے اپنے اقتدار کے دس سال مکمل کئے تھے۔ اس سروے سے جو ڈیٹا تیار ہوا اس سے ظاہر ہوا کہ ملک  کے ایک کنبے کا ہر فرد خود پر کتنے روپے یومیہ خرچ کرتا ہے۔ اس ڈیٹا کی مدد سے ایک ٹیبل بنالیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ ۱۰؍ فیصد لوگ جو آمدنی کے اعتبار سے بالکل نچلی سطح پر ہیں  وہ روزانہ ۵۰؍ تا ۱۰۰؍ روپے یومیہ خرچ کرتے ہیں ۔ آپ ہی سوچئے اتنی کم رقم سے کون کیا کرسکتا ہے؟ نہ تو قاعدہ کی خوراک میسر آسکتی ہے نہ ہی رہائش نہ ہی طبی سہولت نہ ہی بچوں  کی تعلیم۔ اس طبقے کی آبادی کتنی ہے؟ کم و بیش ۱۴؍ کروڑ، جی ہاں  ۱۴؍ لوگ اتنی کم رقم اپنی ذات پر خرچ کرپاتے ہیں ۔ یہ اتنی بڑی آبادی ہے کہ اگر کسی علاحدہ ملک کی ہو تو دُنیا کے ملکوں  میں  ۱۰؍ ویں  نمبر پر ہو۔ اس کے باوجود نیتی آیو گ کا کہنا ہے کہ ۵؍ فیصد سے کم لوگ غریب ہیں ۔ کیا یہ فریب نہیں  ہے؟
 ایک دیگر طریقے سے بھی صورت حال کو سمجھا جاسکتا ہے۔ اعلیٰ ترین ۵؍ فیصد آبادی اور غریب ترین ۵؍ فیصد آبادی کا موازنہ کرکے دیکھ لیجئے۔ ۱۲؍ سال پہلے اِن دو طبقات کی آمدنی میں  ۱۲؍ گنا کا فرق تھا، ۲۴۔۲۳ء میں  بھی ۷ء۵؍ گنا کا فرق باقی تھا۔
 اب حکومت کے ایک اور دعوے کی طرف آئیے۔ اس کا کہنا ہے کہ زراعت نمو پارہی ہے لیکن کیا کسان کی زندگی ٹھیک ٹھاک ہے؟ نابارڈ (NABARD) کا ڈیٹا برائے ۲۲۔۲۱ء پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ۵۵؍ فیصد زرعی خاندانوں  پر قرض کا بوجھ ہے۔ ہر کنبے پر ۹۱؍ ہزار ۲۳۱ء؍ روپے کا قرض ہے۔ ۳؍ فروری ۲۵ء کو لوک سبھا میں  دیئے گئے بیان کے مطابق ۱۳ء۰۸؍ کروڑ کسانوں  پر کمرشیل بینکوں  کا ۲۷؍ لاکھ ۶۷؍ ہزار ۳۴۶؍ کروڑ کا، ۳ء۳۴؍ کروڑ کسانوں  پر کو آپریٹیو بینکوں  کا ۲؍ لاکھ ۶۵؍ ہزار ۴۱۹؍ کروڑ کا اور ۲ء۳۱؍ کروڑ کسانوں  پر ۳؍ لاکھ ۱۹؍ ہزار ۸۸۱؍ کروڑ کا علاقائی دیہی بینکوں  کا قرض ہے۔ کیا ان اعدادوشمار سے انکار کیا جاسکتا ہے؟ 
 پی ایم کسان اسکیم کا جائزہ لیجئے تو اس میں  کئی سوراخ نظر آتے ہیں ۔ جب اس میں  حصہ لینے والوں  کی تعداد شباب پر تھی تب (اپریل تا جولائی ۲۲ء) اسکیم میں  شامل ہونے والوں  کی مجموعی تعداد ۱۰ء۴۷؍ کروڑ تھی۔ ۲۰۲۳ء میں  یہ تعداد ۸ء۳؍ کروڑ ہوئی (۱۵؍ ویں  قسط تک) اور فروری ۲۵ء میں  حکومت کا دعویٰ تھا کہ یہ تعداد ۹ء۸؍ کروڑ ہے۔ اگر اس دعوے کو درست مان لیں  تب بھی ۲۲ء کی تعداد ۱۰ء۴۷؍ کروڑ اور فروری ۲۵ء کی تعداد  ۹ء۸؍ کروڑ کیوں ؟
 فصل بیمہ اسکیم کو یوپی اے حکومت نے نئے سرے سے جاری کیا تھا جس کے تحت نجی بیمہ کمپنیوں  کواجازت دی گئی تھی کہ وہ اس اسکیم کو ’’فائدہ نہ نقصان‘‘ کی طرز پر چلاسکتے ہیں ۔ اس کے برخلاف این ڈی اے حکومت کی جاری کی ہوئی پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا (پی ایم ایف بی وائی) کے بارے میں  یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ یوجنا پیسہ وصولی کا کاریہ کرم بن گئی ہے۔ جمع کئے گئے پریمیئم کے مقابلے میں  انشورنس کا پیسہ ادا کرنے کی شرح جو ۲۰۔۲۰۱۹ء میں  ۸۷؍ فیصد تھی، ۲۴۔۲۰۲۳ء میں  ۵۶؍ فیصد ہوگئی۔
 منریگا کے بارے میں  ہر خاص و عام کی رائے تھی کہ یہ بہت اچھی اسکیم ہے۔ ابتدائی دور میں  بی جے پی نے بھلے ہی اس پر تنقید کی تھی مگر بعد میں  خود بی جے پی کی ریاستوں  نے اسے جاری رکھنے پر اصرار کیا ۔ مگر اس کا بھی حال یہ ہے کہ گزشتہ تین سال میں  اس کیلئے مختص کی جانے والی رقم جمود کا شکار ہے۔ ۱ء۵؍ کروڑ جاب کارڈ ہٹا دیئے گئے ہیں ۔ اسکیم کی بنیادی خوبی یہ تھی کہ اس کے ذریعہ ۱۰۰؍ دن کے کام کی ضمانت دی گئی تھی۔ اب صرف ۵۱؍ دن کا کام مل رہا ہے۔ یو پی اے نے جب اسکیم جاری کی تھی تب جتنے لوگوں  کو کام کی ضرورت ہے اُتنے لوگوں  کو کام دیا جاتا تھا ۱۰۰؍ دن کی شرط پر مگر موجودہ حکومت میں  ’’جتنا پیسہ اُتنا کام‘‘ کا طریقہ رائج ہوگیا ہے۔
 ۸۰؍ کروڑ کی آبادی کو ۵؍ کلو مفت اناج کے تحت کم و بیش ۱۰؍ کروڑ لوگوں  کو جنہیں  اس اسکیم کا فائدہ ملنا چاہئے، نہیں  مل رہا ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ مفت اناج ملنے اور مڈڈے میل کی اسکیم جاری ہونے کے باوجود بچوں  کی جسمانی نشوونما جیسی ہونی چاہئے نہیں  ہے اور تغذیہ کی کمی کے سبب جسمانی مسائل میں  مبتلا بچوں  کی تعداد حیران کن ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ گلوبل ہنگر اِنڈیکس میں  ہندوستان ۱۲۷؍ ملکوں  کی فہرست میں  ۱۰۵؍ ویں  نمبر پر ہے؟
 ہوسکتا ہے آپ کے ذہن میں  سوال اُبھرے کہ جب ہمارا ملک دُنیا کی سب سے تیز رفتار ترقی کرنے والی معیشت ہے تو یہ کیفیت کیوں  ہے؟ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ تیز رفتار معیشت ہونے کا یہ مطلب قطعی نہیں  کہ شہریوں  کی صحت اچھی رہے گی یا غربت ختم ہوجائیگی۔ معیشت کی رفتار کو آنکنے کے پیمانے الگ ہیں  اور عوامی صحت، تعلیم اور آمدنی کی پیچیدگی الگ۔ ہمیں  چاہئے کہ ہر دس سال پر ڈھانچہ جاتی اصلاحات کریں ، ریاستو ں کو زیادہ اختیار دیں  ، ریگولیشن کم سے کم کریں ، مقابلہ کی اسپرٹ پیدا کریں ،  زیادہ سے زیادہ مقابلہ کو راہ دیں  اور معاشی سرگرمیوں  میں  حکومت کا عمل دخل کم سے کم ہو۔ ایسے طریقوں  سے معیشت کو وہ رفتار دی جاسکتی ہے جو صرف کاغذ پر نہیں  ہوگی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK