Inquilab Logo Happiest Places to Work

دیوانے کے بھیس میں ایسے فرزانے بھی ہوتے ہیں!

Updated: May 24, 2025, 3:00 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

دُنیا میں سچائی کا تحفظ کرنے والے ایک سے بڑھ کر ایک لوگ ہوئے ہیں۔ بے پناہ ذہانت کے مالک۔ دُنیا داری سے دور۔ زندگی گزارنے کے غالب رجحان کو مسترد کرنے والے۔ اپنا نظریہ جینے والے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

انسان ماضی کے جن مشہور لوگوں کے بارے میں سنتا ہے اکثر اُن سے اُنسیت محسوس کرتا ہے۔ کم از کم، میرا حال تو یہی ہے۔ بالفرض محال ایسا کوئی شخص مل جائے تو ممکن ہے وہ میری پسند کی کسوٹی پر پورا نہ اُترے اور مَیں اُس سے دوسری بار نہ ملنا چاہوں مگر چونکہ ماضی ماضی ہے اور اُس سے وابستہ لوگ پردۂ خفا میں جاچکے ہیں اس لئے اُن کی شخصیت میں عجیب سی کشش محسوس ہوتی ہے۔ اس کی مثالیں تو کئی دی جاسکتی ہیں مگر مضمون طویل ہوجائیگا اس خوف سے اُن سے احتراز کرتے ہوئے صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ اس مضمون میں ایسی ہی شخصیت کا احاطہ مقصود ہے۔ یہ شخص سنکی کہلاتا تھا مگر اُس میں غضب کی جرأت، بلا کی حاضرجوابی اور غیر معمولی بے نیازی تھی۔ وہ سامنے ہو تو کوئی اُسے دیکھنا بھی گوارا نہ کرے مگر اُس کے الفاظ سن لے تو رُک جائے۔ مَیں نے اُس کا ایک مختصر واقعہ ایک ادبی جریدہ کےحاشئے میں پڑھا تھا۔ آج کم و بیش پچیس سال بعد بھی یہ نام اور واقعہ ذہن میں محفوظ ہے۔ واقعہ سن لیجئے نام خود بہ خود ظاہر ہوجائیگا:
  ’’ایک بار سکندر اعظم نے دیو جانس کلبی سے کہا کہ اے دیو جانس! کچھ مانگنا چاہتے ہو تومانگو، تمہیں عطا کروں گا۔ دیو جانس نے برجستہ کہا: میرے سامنے کھڑے رہ کر اِس وقت تو‘ میری دھوپ پر قابض ہے، الگ ہٹ، میری دھوپ مجھ تک آنے دے!‘‘
 اِس جملے سے سرسری گزرنا ٹھیک نہیں۔ غور کیجئے یہ کس نے کہا اور کس سے کہا؟ گداگروں کی طرح کسی بھی کونے کھدرے میں پڑ رہنے والے ایک شخص نے دُنیا کا بڑا حصہ فتح کرنے والے ایسے شہنشاہ سے کہا جسے تاریخ صرف سکند ر نہیں، سکندر اعظم (الیگزینڈر دی گریٹ) کے نام سے یاد کرتی ہے۔ یہ بات ذہن نشین رکھتے ہوئے جملے کی معنویت پر غور کیجئے، دھوپ کو عالمی وسائل کا اور سکندر کو عالمی طاقتوں کا استعارہ مان لیجئے تو محسوس ہوگا کہ دیو جانس کلبی سنکی تھا مگر ایسا سنکی بھی نہیں تھا۔ وہ بڑی گہری باتیں کیا کرتا تھا اور صرف کہتا نہیں تھا بلکہ بڑی جرأت کا مظاہرہ کرتا تھا۔ دُنیا نے اُسے دانشور، عالم اور فلسفی بھی تسلیم کیا اور سنکی بھی کہا۔ اُس کی کوئی مستقل سکونت نہیں تھی۔ ایتھنز کی گلیوں میں کسی بھی جگہ وہ اپنا مسکن بنالیتا تھا۔ چونکہ اس کے ساتھ ہمیشہ ایک کتا رہتا تھا اس لئے ’’کلبی‘‘ اُس کے نام کا جز  بن گیا۔ (آپ جانتے ہیں عربی میں کتے کو کلب کہتے ہیں)۔
  اب سے تقریباً سوا دو ہزار سال قبل (اُس کا دور ۴۰۴؍ تا ۳۲۳؍ ق م) اپنے ڈھب کی کم و بیش ۹۰؍ سالہ زندگی جی کر یہ شخص ابدی نیند سو گیا مگر اُس کے اقوال اور اُس کے تذکرے آج بھی سنے اور پڑھے جاتے ہیں۔ اُس نے کوئی کتاب تصنیف نہیں کی، اس کے بارے میں جو کچھ ہے وہ گویا سینہ بہ سینہ سفر کررہا ہے اور بڑی حد تک غیر مستند ہے مگر مستند ہونے کی حد تک پُرکشش۔ بحیرۂ اسود (بلیک سی) کے ساحل پر واقع اس کا قصبہ سائنوپ (Sinope) اَب ترکی کا حصہ ہے۔ سائنوپ ہی کی نسبت سے اُسے ڈائیوجینس آف سائنوپ (Diogenes of Sinope) کہا جاتا ہے۔ دیو جانس سائنوپ سے ایتھنز منتقل ہوگیا تھا۔
  شمالی ایریزونا یونیورسٹی میں فلسفہ کی پروفیسر جو‘لی اَین پیئرنگ کا کہنا ہے کہ ’’سقراط اور دیو جانس میں فرق یہ ہے کہ سقراط نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وسائل زندگی اختیار نہ کرو، اُس نے اپنے معتقدین سے صرف اتنا کہا تھا کہ نہ تو مال و اسباب کے پیچھے دوڑو نہ ہی جاہ و منصب کے پیچھے، کچھ کرنا ہی ہے تو اپنی روح کی فکر کرو، مگر، دیو جانس نے  وسائل زندگی کو مسترد کردیا۔ اُس کا خیال تھا کہ آدمی جتنا زیادہ فطرت کے قریب رہے گا، اُس کیلئے اُتنا اچھا ہے۔‘‘ دیو جانس کے طرز فکر کی اِس وضاحت سے مذکورہ واقعہ کی ایک اور پرت کھلتی ہے کہ دیو جانس سکندر اعظم سے کیوں اُلجھا۔ اُسے چند لمحوں کیلئے بھی اپنے حصے کی دھوپ سے محرومی گوارا نہ ہوئی جو کہ انعام ِ فطرت ہے۔ جہاں تک مال و اسباب سے بے تعلقی کا سوال ہے، اُس کی انتہا یہ ہے کہ اُس نے ایک بچے کو ہاتھوں کا پیالہ (چلو ّ) بنا کر پانی پیتے دیکھا تو اپنا پیالہ، جو کہ اس کے پاس واحد برتن تھا، پھینک دیا کہ اس کے بغیر بھی کام چلتا ہے یہ مَیں نے دیکھ لیا۔ دیو جانس اُس میں کھانا کھاتا تھا۔ 
 سنتے ہیں کہ ایک بار بحری قزاقوں نے دیو جانس کو قید کرلیا۔ اُس زمانے میں جو لوگ اِس طرح پکڑے جاتے تھے اُنہیں غلام بنالیا جاتا اور پھر بیچ دیا جاتا تھا مگر ایسا کرنے سے پہلے یہ معلوم کیا جاتا تھا کہ اُنہیں کون سا ہنر آتا ہے۔ کوئی درزی ہوتا تو درزی کی قیمت آتی، کوئی باورچی ہوتا تو باورچی کی۔ قزاقوں نے اسی اعتبار سے فہرست بنانی شروع کی۔ جب وہ دیو جانس کے قریب آئے اور اُس سے اُس کے ہنر یا پیشے کے بارے میں پوچھا تو اُس کا جواب تھا کہ مجھے حکمرانی آتی ہے۔ قزاق کچھ سمجھ نہیں پائے، اُنہوں نے پھر پوچھا، اُس نے پھر وہی جواب دیا بلکہ قزاقوں کو قائل کرنے کیلئے بھیڑ میں سے ایک شخص، جس کا نام زینیاد تھا، کی طرف اشارہ کیا اور کہا: مجھے اُس آدمی کے ہاتھ بیچ دو، اُسے آقا کی ضرورت ہے۔ 
 پروفیسر جو‘لی اَین پیئرنگ کا خیال ہے کہ اس واقعہ سے دیو جانس کے تصورِ آزادی پر روشنی پڑتی ہے، وہ ذہنی طورپر زینیاد سے بھی زیادہ آزاد تھا اور چاہتا تھا کہ اگر غلامی میں رہنا پڑے تب بھی اتنا آزاد ہو کہ دوسروں پر حکم چلا سکے۔ دیو جانس کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ اکثر مجسموں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا۔ جب وجہ پوچھی گئی تو اس کا جواب تھا: تاکہ مجھے انکار کی عادت ہوجائے۔
 دیو جانس خود شناس تھا۔ زمانہ بھلے ہی اُس کی قدروقیمت نہ جانتا رہا ہو مگر وہ جانتا تھا۔ سکندر اعظم کا جو واقعہ اوپر گزرا ہے اُس میں یہ بھی درج ہے کہ دیو جانس کے جواب سے متاثر ہوکر سکندر نے کہا تھا: اگر میں سکندر اعظم نہ ہوتا تو دیو جانس بننے کی تمنا کرتا۔ اس پر دیو جانس نے کہا تھا: مَیں دیو جانس نہ ہوتا تو مَیں بھی دیو جانس بننا چاہتا۔


 سائنوپ اپنے اس سنکی کو بھولا نہیں۔ ۲۰۰۶ء میں یہاں کی میونسپلٹی نے اس کامجسمہ (دیکھئے تصویر) بنوایا جس میں وہ اُس جار پر کھڑا ہے جس میں،بعض راویوں کے مطابق، وہ رہتا تھا۔ اُس کے قریب کتا ہے اور اُس کے ہاتھ میں قندیل ہے جو اسکی شناخت بن گئی تھی کیونکہ وہ دن کے اُجالے میں بھی قندیل بڑھا کر لوگوں کو پہچاننے کی کوشش کرتا۔ کہتا تھا : ڈھونڈ رہا ہوں شاید کوئی آدمی ملے۔
  آپ دیو جانس کو فلسفی مانیں نہ مانیں مگر وہ تھا دلچسپ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK