• Mon, 24 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

حق ِاظہار رائے اور آزادیٔ ذرائع ابلاغ

Updated: November 23, 2025, 1:54 PM IST | Aakar Patel | mumbai

آزادیٔ اظہارِ رائے اور ذرائع ابلاغ کا رشتہ محتاج تعارف نہیں ہے۔ جب اس حق پر زد پڑتی ہے تو افسوس ہوتا ہے۔ اس سے جمہوریت کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ کشمیر میں کچھ ایسے ہی حالات پہلے بھی تھے اور اب بھی ہیں۔ کیا ان میں بہتری نہیں آسکتی؟

INN
آئی این این
اخبار کشمیر ٹائمز اور اس کی مدیرہ انورادھا بھیسن کے بارے میں  ’’ذرائع‘‘ کے حوالے سے کئی باتیں  منظر عام پر آرہی ہیں  اور کئی الزام لگائے جارہے ہیں ۔ اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے تاکہ جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کو صحیح تناظر میں  دیکھا جاسکے۔ 
۲؍ جون ۲۰۲۰ء کو مرکزی حکومت نے ’’نئی میڈیا پالیسی ۲۰۲۰ء‘‘ کا اعلان کیا جو کشمیر کیلئے مخصوص تھی۔ کشمیر میں  حکومت کے اس اقدام کا سبب بظاہر یہ تھا کہ ریاست کشمیر کیلئے امتیازی خصوصی قوانین، جو بقیہ ہندوستان کیلئے نہیں  تھے، کے بے اثر ہوجانے کے بعد ماحول سازی ہو مگر  اس کے ساتھ ہی ایک اور پالیسی جاری کی گئی جو صرف کشمیر کیلئے تھی۔ ۵۰؍ صفحات پر مشتمل اس پالیسی کے ذریعہ حکومت کو ایسے اختیارات حاصل ہوئے جن کے ذریعہ جعلی، غیر اخلاقی اور ملک مخالف خبر کا تعین کیا جاسکتا تھا اور اس بنیاد پر کسی بھی صحافی یا صحافتی ادارہ کے خلاف تعزیری کارروائی کی جاسکتی تھی۔ میڈیا پر نگاہ رکھنے والی بیرونی ایجنسیوں  نے اس پر  تنقید کی اور کہا کہ اس پالیسی کی وجہ سے حاصل اختیارات کے ذریعہ حکام ’’جعلی، غیر اخلاقی، ملک مخالف اور سماج مخالف‘‘ جیسی اصطلاحات کے واضح نہ ہونے کے باوجود کارروائی کرنے کے مجاز ہیں ۔ اس سے اختیارات کے بے جا یا غلط استعمال کا دروازہ کھلے گا کیونکہ سرکاری افسران کسی بھی خبر کے بارے میں  فیصلہ صادر کردینگے کہ یہ غلط ہے، جعلی ہے، وغیرہ جبکہ اُن کے پاس کوئی کسوٹی نہیں  ہے جس کی بنیاد پر ایسا کوئی فیصلہ صادر کیا جاسکتا ہے۔ جو بھی ہوگا، حکومت یا اس کے افسران کی صوابدید پر ہوگا۔ اس پالیسی پر جموں  کے اخبارات اور صحافتی  ادارے تو خاموش رہے مگر کشمیر کے ذرائع ابلاغ نے اس کے خلاف شدید اعتراض کیا۔  اعتراض کرنے والے بہادر صحافیوں    میں  سے ایک تھیں  انورادھا بھسین۔ 
۱۰؍ جنوری ۲۰۲۰ء کو کشمیر میں  انٹرنیٹ کی بحالی سے متعلق ایک مقدمہ پر شنوائی کے دوران سپریم کورٹ نے انٹرنیٹ کی دستیابی کو ہندوستانیوں  کے بنیادی حقوق میں  سے ایک تسلیم کیا۔ دوسرے دن جن اخبارات نے اس خبر کو شائع کیا اُن کی سرخی کچھ اس طرح تھی: ’’انٹرنیٹ تک رسائی بنیادی حق ہے: سپریم کورٹ‘‘ یا ’’سپریم کورٹ نے انٹرنیٹ صارفین کے حق کو تسلیم کیا، جوابدہی بھی طے کی‘‘۔ مگر، بدقسمتی سے عملاً ایسا نہیں  ہوا اور اہل کشمیر کی انٹرنیٹ سے محرومی جاری رہی۔ حکومت کا کہنا تھا کہ ’’ انٹرنیٹ تک رسائی بنیادی حق نہیں  ہے اس لئے آرٹیکل ۱۹ (۱ ) (اے) کے تحت آزادیٔ اظہار رائے کا حق اور آرٹیکل ۱۹ (۱) (جی) کے تحت تجارتی و کاروباری غرض کے لئے انٹرنیٹ کے استعمال کو روکا جاسکتا ہے۔‘‘ اس سلسلے میں  جواز یہ پیش کیا گیا کہ’’اگست ۲۰۱۹ء کے بعد نیز دستوری تبدیلیوں  کے پیش نظر پاکستانی کارپردازوں  (ہینڈلرس) نے سوشل میڈیا پر بالواسطہ یا بلا واسطہ سرگرمی بڑھا دی ہے جس کا مقصد علاقے میں  خلفشار پیدا کرنا اور تشدد کو راہ دینا ہے۔‘‘ سولیسیٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت میں  بحث کرتے ہوئے کہا کہ ’’افسوسناک طور پر انٹرنیٹ جہاد کامیاب ہورہا ہے، یہ عالمی رجحان ہے، جہادی لیڈر انٹرنیٹ کے ذریعہ نفرت پھیلا سکتے ہیں  اور غیر قانونی سرگرمیوں  کو انجام دے سکتے ہیں ۔‘‘
اس پر عدالت نے دریافت کیا کہ کیا چند پابندیوں  کے ساتھ انٹرنیٹ جاری کیا جاسکتا ہے؟ اس پر حکومت کا جواب تھا کہ انٹرنیٹ کی رفتار بڑھانے کے نتیجے کے طور پر اشتعال انگیز مواد کا تیزی سے اپ لوڈ کیا جانا ممکن ہوسکتا ہے۔ دو ہی صورتیں  نکل سکتی ہیں ، یا تو انٹرنیٹ جاری کیا جائے یا اسے مکمل طور پر روکے رکھا جائے۔ حکومت کی جانب سے یہ جواب تشار مہتا نے دیا تھا۔ 
یہاں  یہ بات قابل ذکر ہے کہ کشمیر میں  تشدد کے واقعات کا عروج ۲۰۰۱ میں  تھا جب ۴؍ ہزار سے زائد لوگ فوت ہوئے تھے، یہ تب ہوا تھا جب کشمیر میں  انٹرنیٹ تو کیا موبائل فون بھی نہیں  تھا۔ اعداد و شمار سے اس حقیقت کی نشاندہی ہوتی ہے کہ تشدد کی سطح اور انٹرنیٹ تک رسائی کے درمیان کوئی تعلق نہیں  ہے لیکن حکومت یا عدالت نے اس نقطۂ نظر سے اس مسئلہ کو نہیں  دیکھا۔ ۲۰۱۹ء کی آئینی تبدیلی کے بعد سے، جموں  کشمیر میں  کم از کم ۹۰؍ مرتبہ انٹرنیٹ بند کیا گیا جو کہ دنیا میں  سب سے زیادہ ہے۔ 
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اندراجات کے مطابق ۱۴؍ جنوری ۲۰ء سے ۴؍ اگست ۲۰ء تک سرکاری حکم پر انٹرنیٹ ۶۷؍ مرتبہ بند کیا گیا۔ جب اس کی بحالی عمل میں  لائی گئی تب بھی اس کا وقفے وقفے سے بند ہونا جاری رہا۔ کوئی واقعہ یا کسی واقعہ کا گمان ہوا تو اس کی زد انٹرنیٹ پر پڑی اور کشمیری عوام ماضی میں  پہنچ گئے جب انٹرنیٹ تھا نہ موبائل تھا۔ اس گفتگو کو مختصر کرتے ہوئے آئیے ا س مقدمہ کی عرضی گزار، کشمیر ٹائمز کی مدیرہ انورادھا بھسین کی طرف، جن کی عرضداشت پر سماعت ۱۰؍ جنوری ۲۰۲۰ء کو ہوئی۔ انہوں  نے عدالت کو بتایا کہ وہ مرکزی حکومت کی عائد کردہ مواصلاتی پابندی کی وجہ سے اخبار شائع نہیں  کر سکیں ۔ انہوں  نے سپریم کورٹ سے انٹرنیٹ، موبائل اور لینڈ لائن فون تک رسائی پر عائد پابندیوں  کو ہٹانے اور دیگر مناسب سہولیات کی فراہمی کیلئے التجا کی (کیونکہ مواصلاتی سہولت نہ ہونا ذرائع ابلاغ کا اپنی خدمات انجام نہ دے پانا ہے جو  اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگانے جیسا ہے)۔ عدالت سے جس جواب کی اُمید تھی وہ نہیں  ملا، نتیجتاً پابندیاں  جاری رہیں ۔
کشمیر ٹائمز شائع نہیں  ہوا بلکہ اپنا کام بند کرنے پر مجبور ہوا۔ اس صورت حال کو دُنیا نے دیکھا اور وجہ بتائی: ’’کشمیر کے اخبار کا دفتر حکام نے سیل کر دیا‘‘۔  یہ ۲۰؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء کی ایک سرخی ہے۔ الزامات کے موجودہ دور کے بعد، اس ہفتے ایک اور سرخی آئی ہے: ’’کشمیر ٹائمز: جموں  کا ایک اخبار جو وادی کے لیے کھڑا ہوا۔‘‘ رپورٹ میں  کہا گیا ہے کہ ’’۱۹۵۴ء میں  قائم ہونے والا یہ اخبار کشمیری ذرائع ابلاغ کے منظر نامے پر ایک بااثر اور معتبر آواز سمجھا جاتا رہا ہے۔‘‘
یہ بالکل سچ ہے۔ اخبار پر لگائی گئی قدغن ہی افسوسناک نہیں  ہے بلکہ یہ بھی افسوسناک ہے کہ بھسین کو ملک کے دیگر حصوں  سے جو حمایت اور تائید اور سپورٹ ملنا چاہئے تھا، نہیں  ملا بالخصوص اُس میڈیا کی جانب سے جسے بزدل اور پست ہمت کہنا غلط نہ ہوگا۔ 
kashmir Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK