Inquilab Logo

گنگا میا کے بن بلائے مہمان

Updated: May 21, 2024, 1:50 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

اس بار کے الیکشن کے پہلے بی جے پی کو یہ علم ہو گیا کہ لوگ بی جے پی سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ووٹنگ فیصد میں کمی ہونے کےبعد ان کی ایجنسیوں نے یہ بتا دیا کہ ووٹنگ وہیں کم ہورہی ہے، جہاں اس سے پہلے بی جے پی کو ووٹ بہت پڑے تھے، اس طرح گنگا میا کا بن بلایا مہمان خاصا گھبرایا ہوا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

یہ ۲۰۱۹ ءکی بات ہے۔ جب موجودہ وزیر اعظم نریندر دامودر داس مودی گجرات میں  اپنی سیٹ کے علاوہ اتر پردیش کے شہر بنارس یا وارانسی سے الیکشن لڑے تھے۔ اپنےوارانسی دورے کے وقت انہوں  نے وارنسی کے لوگوں  کے سامنے ایک پُرجوش تقریر کی تھی جو وہ عام طو رپر کرتے ہیں ۔ انہوں  نےکہا تھا کہ وہ وارانسی اپنی مرضی سے نہیں  آئے بلکہ انہیں  تو گنگا میا نےیہاں  بلایا ہے۔ عوام ظاہر ہے کہ اس بیان سے بہت خوش ہوئے تھے، انہوں  نے ان کا جملہ سنتے ہی زوردار تالیوں  سے ان کا خیر مقدم کیا تھا۔ 
 ہمارے یہاں  یہ روایت بھی عام ہے کہ لوگ اکثر مودی جی کے بیان پر تالیاں  ضرور بجاتے ہیں ، یہ تالیاں کیا رنگ لاتی ہیں  یہ بعد کی بات ہے۔ وارانسی ہی نہیں  تمام ملک میں  اس کے کسی بھی حصہ میں  گنگا میا کو بے حد مقدس مانا جاتاہے۔ گنگا میا کی عظمت اس کے بھکت کے دل میں  بہت بلند ہے ۔ اس پر تمام بھجن اور نظمیں  لکھی جاتی ہیں ۔ مودی جی کی یہ بات سن کر مجھے ایک پرانا گانا یاد آگیا۔ یہ بہت خوبصورت گیت ہے۔اس کے بول تھے؎
’اے گنگا میاتوہی پیری چڑھیبو،  سیاں  سے کردے ملنوا‘
 یہ گیت ایک ہٹ فلم کا تھا ا ور فلم کانام بھی اسی گیت پر تھا، اس دور کے ایک کیریکٹر ایکٹر تھے جو بالکل دلیپ کمار کی طرح ایکٹنگ کرتے تھے تو لوگ انہیں بوڑھا دلیپ کمار کہتے تھے۔ فلم کے سنگیت کار چترگپت تھے جو اس وقت کے اچھے سنگیت کار تھے۔ اس زمانے میں  لتا جی علاقائی فلموں  میں  گیت نہیں  گاتی تھیں  لیکن انہوں  نے لتا منگیشکر کو راضی کرلیا اور انہوں  نے گانا گادیا۔ گانا اتنا خوب صورت تھا کہ ہم آج بھی سنتے ہیں  تو جھوم جاتے ہیں ۔ لو گ کہتے ہیں  کہ اگر آج کل یہ گانا لکھا جاتا تو بول یہ ہوتے گنگا میا تو ہی پیری چڑھیبو، مودی کو وعدہ نبھانا سکھاتے۔
 مودی کی تقریریں  عموماً جملے ہی ہوا کرتی ہیں  اور یہ جملے وعدے ہی رہے اور یہ وعدے کبھی پورے نہیں  ہوئے ۔ نتیش کمار اور لالو پرساد یادو نے جے پرکاش نارائن کی مقلدی میں  ایک ساتھ سیاسست شروع کی تھی۔ یہ ساتھ بہت زمانے تک رہا۔ پھر دونوں  عملی سیاست میں  بھی ساتھ آئے لیکن نتیش نے دیکھا کہ عملی سیاست میں  لالو پرساد سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔ اصل میں  دونوں  کی ہی سیاست ذات پات کی بنیاد پر تھی۔  لالو،یادو تھے۔ بہار میں  اس برادری کی تعداد آٹھ سے دس فیصد تک تھی۔ نتیش کمار کرمی تھے۔ کرمیوں  کی بہار میں  صرف چار فیصد آبادی ہے، یہیں  سے نتیش کمار نے دوسری پسماندہ ذاتوں  میں  اپنے ساتھی تلاش کرنا شروع کئے۔ اس میں  ان کو خاصی کامیابی ملی، لیکن یادو اب بھی ان سے بہت آگے چلتے رہے ۔ بالآخر نتیش کمارکو بی جے پی میں  اپنا ایک ساتھی مل ہی گیا۔ شروع میں  وہ لالو یادو کا ساتھ نہیں  چھوڑنا چاہتے تھے اس کا وہ کئی بار اعتراف بھی کرچکے تھے، لیکن بی جے پی کے بڑھتے ہوئے اثر نے انہیں  بی جے پی کا دامن تھامنے پر مجبور کردیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نتیش کمار فطرتاً بُرے سیاست داں  نہیں  تھے۔انہوں  نے بہار میں  کافی کام بھی کیا۔ وہ کمیونل یا فرقہ پرست بھی نہیں  تھے لیکن نوٹ بندی اور اس کے بعد کشمیر کے معاملہ میں  وہ پوری طرح بی جے پی کے ہم خیال تھے۔نتیش کمار کو بہار میں  اپنے اقتدار کا سب سے زیادہ خیال تھا۔ اس وجہ سے انہوں  نے ہمیشہ غیر استوار رکھا، جب انہوں  نے دیکھا کہ مودی کا ساتھ ہی انہیں  اقتدار سے جوڑے رہے گا تو انہوں  نےمودی کے ساتھ ہی رہنے میں  اپنا فائدہ سمجھا۔
 اس دوران کچھ اور واقعات بھی ہوئے۔ انہوں  نے یہ بھی دیکھا کہ راہل کی مقبولت بڑھ رہی ہے، ایک زمانہ ایسا بھی آیا کہ انہوں  نے ’انڈیا ‘میں  جانے کا فیصلہ بھی کر لیا تھا، انہیں  بھی یہ خیال لاحق تھا کہ راہل اپنی کم عمری اور ان کے خیال میں  کم سنی کی وجہ سے شاید اپوزیشن کے اس محاذ کو سنبھال نہیں  پائینگے۔ انہیں  خیال ہوا کہ وہ اپوزیشن کے اس نئے محاذ کےلیڈر بنا لئےجائینگے، ان کے بارے میں  یہ افواہ بھی اڑی کہ وہ ’انڈیا‘میں  شامل ہوجائیں  گے لیکن اسی کے ساتھ انہیں  یہ بھی خیال آیا کہ اس تگ و دو میں  بہار ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ آخر ایک ریلی میں  مودی کی موجودگی میں  یہ عام بھی کر دیا کہ وہ اب مودی جی کو کبھی نہیں  چھوڑیں  گے۔لیکن یہی وجہ ہے کہ مودی کے پرچہ نامزدگی داخل ہوتے وقت نتیش کمار بھی مودی کی طرح اپنا وعدہ بھول گئے۔ وہ وہاں  موجود نہیں  تھے۔
  مودی کے ساتھ ایک اور ٹریجڈی بھی ہو رہی ہے۔ ایک نتیش کمار ہی نہیں  ان کے سارے پرانے دوست انہیں  رفتہ رفتہ چھوڑ رہے ہیں ۔ پنجاب میں  اکالی دل جو ان کے ساتھ تھا،اس نے بھی یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ اب بی جے پی کے ساتھ نہیں  ہے، اس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پنجاب میں  اکیلے ہی دم پر الیکشن لڑے گا، یعنی اب وہ بی جے پی سے نہ اشتراک کرے گا نہ انہیں  اشتراک کرنے دے گا ، یہی معاملہ اُدیشہ کے بیجو جنتا دل کا بھی ہے، پچھلے الیکشن میں   اس نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ نہ کانگریس کے ساتھ رہے گا نہ بی جے پی کے ساتھ رہے گا۔ اس کے لیڈر نوین پٹنائک نےبھی یہی اعلان کیا تھا لیکن اگر دیکھئے تو نوین پٹنائک بھی غیر جانبدار نہیں  رہے، نوٹ بندی اور پھر کشمیر کے ا یشو نے انہیں  بی جے پی کاسا تھ دینے پرمجبور کیا۔ ویسے نوین پٹنائک کا معاملہ بھی عجیب ہے، کہتے ہیں  کہ اسٹالن نے ایک تقریر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں  تویہ بھی نہیں  علم کہ کس ضلع کی کون سی راجدھانی ہے، انہیں  شاید یہ بھی نہیں  معلوم کہ راجدھانی ریاست اور ملک کی ہوتی ہے، کسی ضلع کی نہیں ۔
 معاملہ یہ ہے کہ اس بار کے الیکشن کے پہلے بی جے پی کو یہ علم ہو گیا کہ لوگ بی جے پی سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ووٹنگ فیصد میں  کمی ہونے کےبعد ان کی ایجنسیوں  نے یہ بتا دیا کہ ووٹنگ وہیں  کم ہورہی ہے، جہاں  اس سے پہلے بی جے پی کو ووٹ بہت پڑے تھے، اس طرح گنگا میا کا بن بلایا مہمان خاصا گھبرایا ہوا ہے۔اس بار یہ بھی ہورہا ہے کہ تمام بڑے شہر مثلاً دہلی، ممبئی کلکتہ اور مدراس برگشتہ ہیں ۔  ان سب نے بی جے پی کا خوب ساتھ دیا تھا لیکن اب یہ معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ الٹ گیا ہے اور ان شہروں  میں  اب بی جے پی کو شاید کچھ بھی نہ ملے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK