Inquilab Logo Happiest Places to Work

غزہ اور اہل غزہ میں دوبارہ جی اُٹھنے کی قوت ہے!

Updated: July 15, 2025, 1:32 PM IST | Sayyid Zubair Ahmad | Mumbai

جنگ رُکنے کا اور جنگبندی کی کوشش کامیاب ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ایسے میں غزہ کی بچی کھچی آبادی کیسے جی رہی ہے یہ اُن کا دل ہی جانتا ہے۔ غیر یقینی صورت حال ہمہ وقت اُن کے سامنے ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نےحال ہی میں  اعلان کیا کہ اسرائیل غزہ میں ۶۰؍ روزہ جنگ بندی پررضامند ہوگیا ہے ۔ انہوں  نے غزہ میں  باقی ماندہ اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی کو یقینی بنانے کا عہد بھی کیا اور کہا کہ اسرائیلی یرغمالوں  کی آزادی کسی بھی معاہدہ کا سب سے اہم پہلو ہے ۔ یہ دو مہینے کی جنگ بندی ان ۲۰؍ لاکھ شہریوں  کیلئے بڑی راحت کا سبب بن سکتی ہےجو ایک محصور غزہ پٹی میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ اکتوبر ۲۰۲۳ء میں اسرائیل پر حماس کے حملے میں  ۱۲۰۰؍ شہریوں  کی ہلاکت کے بعدجو جنگ چھڑی ہےاس کے نتیجے میں  پچھلے پونے دو سال میں  غزہ کے حالات انتہائی سنگین ہوچکے ہیں ۔
 جنگ بندی ڈاکٹر طاہر المادون جیسے نوجوان ڈاکٹر کیلئے بھی سزا میں  تخفیف کا مژدہ لے کر آئیگی۔ مَیں  نے ڈاکٹرطاہر المادون کا انٹرویو ۲۰۲۱ء میں  زوم پر کیا تھا۔ اس وقت بھی غزہ پرحملے جاری تھے۔ ان حملوں  میں اپنے دوبھائیوں  کو کھودینے کے باوجود ڈاکٹر طاہرنے کام جاری رکھا تھا۔ ان حالات میں  وہ اندر سے زخمی تھے لیکن باہرسےان کے چہرے پرہمیشہ ا طمینان جھلکتا اور وہ ایسا تاثر دیتے جیسے وہ ایک جنگ زدہ ملک میں نہ ہوں ۔ میں نے مہینوں  پہلے بھی ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ مجھے تشویش تھی کہ غزہ کے مہلوکین کی ایک طویل فہرست میں کہیں  ان کا نام بھی شامل نہ ہوگیا ہو۔ کافی وقت تک ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں  ملا۔ غزہ میں  خاموشی صرف خاموشی نہیں ہوتی۔ اس خاموشی کا تعلق زمیں  دوز  عمارتوں  کے ملبے سے ہوتا ہے، تباہ شدہ فون لائنوں  سے ہوتا ہے اور اس تشویشناک غیریقینی کیفیت سے ہوتا ہے کہ کوئی (جس سے رابطےکی کوشش کی جارہی ہے) زندہ ہے بھی یا نہیں ۔
   بالآخر اُن کا جواب موصول ہوا  جسے پڑھ کر محسوس ہوا کہ وہ تھک چکے ہیں لیکن ان کا عزم کمزور نہیں پڑا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ا نہوں  نے ایک ڈینٹسٹ سے شادی کرلی اور اب ان کا ایک سال کا  بچہ  ہے۔ وہ بچہ جسے ابھی کچھ بھی نہیں پتہ ہے کہ وہ  بے گھر ہے یا بے گھر ہونا کیا ہوتا ہے۔ ایک گھر جو انہوں  نے برسوں  پیسہ جمع کرکے، قرض لے کر اور بڑی اُمیدوں  کےساتھ بنایا تھا، ملبے کے ڈھیر میں  تبدیل ہوگیا۔ جب سےجنگ شروع ہوئی ہے، المادون اہلیہ اور بچے کے ساتھ ایک شیلٹر سے دوسرے شیلٹر میں  اور  ایک خیمےسے دوسرے خیمےمیں منتقل ہورہے ہیں ۔ وہ کلاس روم میں  بھی ٹھہرے اور اپنے متعلقین کے ٹوٹےہوئے گھروں  اور تباہ حال مکانوں  کے کسی حصہ کو بھی اپنا ٹھکانہ بنا چکے ہیں ۔ دن میں وہ دونوں اسپتال میں  ہوتے ہیں  جہاں  زخمیوں  کے آنے کا سلسلہ کبھی نہیں  تھمتا۔ رات میں  وہ پلاسٹک کی شیٹ (تارپولین ) سے بنے خیموں  میں  اورڈرون کی آوازوں  کے باوجود سونے کی کوشش کرتے ہیں اور ان ڈرونز کا اڑنا رات بھر بند نہیں ہوتا۔ المادون کا عزم بلند تھا۔ وہ جدید طب کی تعلیم حاصل کرنا  اور ملبے کے  ڈھیر سے کچھ ایسا تعمیر کرنا چاہتے تھے جو مستحکم ہو مگر جنگ کی تباہ کاری کے بعد اُن کا عزم ایک بہت سادہ سی خواہش میں  ڈھل چکا ہے۔ ان کی تمنا اب بس ایسی صبح دیکھنے کی ہے جس میں  وہ اپنے بچے کو زندہ دیکھ سکیں ۔ غزہ صبح ا ٹھنے کے بعداپنے بچوں کو زندہ اور سلامت دیکھنے سے بڑھ کر کوئی خوشی نہیں  ہے۔
 المادون اور ان جیسے دیگرکیلئے جنگ بندی کا مطلب صرف لڑائی کا خاتمہ نہیں ہوگا بلکہ سادہ اوربےخوف زندگی جینے کاایک موقع ہوگا۔ غزہ میں  جو کچھ ہورہا ہے اسے صرف انسانی بحران قرار دینا  بہت چھوٹی بات ہے۔ اسے صرف انسانی تباہی سے تعبیر کرنا بھی درست نہیں ۔ یہ ایسی مجموعی ہولناک صورتحال ہے جس میں اہل غزہ ٹوٹ کر بکھرچکے ہیں  اورانہیں ان کے وقار سے محروم کردیاگیا ہے۔ غزہ وہ جگہ ہے جہاں  زندہ اور مردہ افراد باہم پڑوسی ہیں ۔ شاعرہ ٹی ایس ایلیٹ نے ویسٹ لینڈ میں لکھا تھا : ’’ایک مٹھی بھر دھول میں ، مَیں  تمہیں خوف دکھاؤں  گی‘‘ لیکن،  غزہ میں آٹے کی بوری سے بھی خوف آتا ہے، سروں  پر اڑتے ہوئے ڈرون اور دواؤں کی خالی الماری بھی۔ کون سی شے ہے جو خوفزدہ نہیں  کرتی؟
 اکتوبر۲۰۲۳ء کے بعد سے غزہ میں  ۶۵؍ ہزارافراد شہید ہوچکے ہیں ۔ اس تعداد کی سنگینی سمجھی نہیں جاسکتی۔ غزہ کی ہرماں ، ہر بچہ اور ہر معمر شخص ایسے زندگی گزاررہا ہے جیسے وہ بھوکا رہنے، اداس رہنے اورگہری تشویش میں مبتلا رہنے کی کوئی رسم نبھا  رہا  ہو۔

یہ بھی پڑھئے : سی ایم نعیم: اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے

 غزہ تک پہنچنے والی غذائی امداد کم و بیش ہر شے کی شدید قلت کا سامنا کرنے وا لے اہل غزہ کیلئے کافی نہیں ۔  پھر المیہ یہ ہےکہ یہ امداد خود دہشت کا ذریعہ بن چکی ہے۔ امداد کے مراکز بھی قتل گاہوں  میں  تبدیل ہوچکے ہیں ۔ چشم دید گواہوں  نے بتایا کہ کس طرح آٹا اور دیگر امداد لینے کیلئے قطار میں  کھڑےفلسطینیوں  پرڈرون اور مشین گنوں  سے فائرنگ کی گئی۔ مقامی رپورٹس اور حماس کے  زیر انتظام ادارہ ہائے صحت  بتاتے ہیں کہ راشن اور امداد کے مراکز کو نشانہ بنانے کے واقعات میں ۶۰۰؍ فلسطینی شہید جبکہ ۴؍ ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں ۔ غزہ میں  زمین پر کام کرنے والے ایک صحافی کے مطابق ’’ غزہ ایک مردہ شہر ہے، مرتا ہوا شہر ہے۔‘‘
 اس تباہی کے باوجود غزہ اور اہل غزہ میں بحال ہونے  اور دوبارہ جی اُٹھنے کی غیر معمولی صلاحیت ہے لیکن یہ صلاحیت تندوتیز  آندھی میں جلتی ہوئی چراغ کی لو جتنی کمزور ہے۔ انسانیت سوز جرائم کا سامنا کرنے کے باوجود اہل غزہ انسانیت سے دستبردار نہیں  ہوئے ہیں ۔  تباہ حال علاقوں  اور ملبےکے درمیا ن رضاکار پانی تقسیم کرتے ہوئے نظر آ جاتے ہیں ۔ جو پہلے سے بے گھر ہیں  اور عارضی پناہ گاہ میں  ہیں ، وہ نئے بے گھر ہونے و الوں کو ا پنے یہاں  جگہ دینے سے نہیں ہچکچاتے اور ڈاکٹراس وقت بھی زندگیاں  بچانے میں  مصروف  ہیں  جبکہ انہیں  خود پتہ ہے کہ آنے والا دن ان کا آخری دن بھی ہوسکتا ہے۔ غزہ میں صرف عمارتیں اور زندگیاں  تباہ نہیں  ہوئی ہیں بلکہ وہ عوامی صلاحیت و قابلیت بھی سنگین حد تک متاثر ہوئی ہے جس سے تہذیبوں  کا وجود ممکن ہوتا ہے۔ غزہ کے حالات کا جو بھی جواز پیش کیاجائے، ایمانداری سے دیکھنے والے ہر شخص کو جھنجھوڑنے کیلئے یہ حالات  کافی ہیں ۔  اس کے باوجود یہ تلخ اپنی جگہ قائم ہے کہ ہم کیا ہوگئے ہیں  کہ اس کربناک صورتحال کو دیکھنے کے باوجود اپنے طرز عمل سےاسےکم اہم ثابت کردیتے ہیں ؟ (بشکریہ این ڈی ٹی وی )

gaza strip Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK