اسرائیل-غزہ جنگ کیخلاف پوری دُنیا میں مذمت کی جا رہی ہے اس کے باوجود نیتن یاہو غزہ پر مکمل قبضہ کرنا چاہتا ہے اور وہ اس کیلئے سازش بھی کر رہا ہے۔
EPAPER
Updated: September 05, 2025, 1:25 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai
اسرائیل-غزہ جنگ کیخلاف پوری دُنیا میں مذمت کی جا رہی ہے اس کے باوجود نیتن یاہو غزہ پر مکمل قبضہ کرنا چاہتا ہے اور وہ اس کیلئے سازش بھی کر رہا ہے۔
بڑھتی ہوئی بے چینی اور چوطرفہ مذمت کے باوجود اسرائیل غزہ اور دیگر علاقوں پر قبضہ کرنے اور وسیع تر اسرائیل وجود میں لانے کی راہ پر گامزن ہے۔ اس نے وسیع تر اسرائیل کا نعرہ نہ صرف دہرایا ہے بلکہ غزہ کے باشندوں کو بھوک اور گولیوں سے ہلاک کرنے کا ہر حربہ اختیار کر رہا ہے۔ غزہ کو ہتھیانے کے لئے فوجی اقدامات نہ صرف تیز کر دیئے گئے ہیں بلکہ یہ منصوبہ بھی بنایا گیا ہے کہ غزہ پر قبضے کے لئے اکتوبر سے فضا، سمندر اور زمین سے حملے کئے جائیں ۔ دنیا کی خوراک کے بحران پر سب سے بڑی اور مستند سمجھی جانے والی تنظیم آئی پی ایس نے جس کو اقوام متحدہ کی بھی حمایت حاصل ہے غزہ میں عوام کے بھوک سے مرنے اور قحط کے بڑے علاقے میں پھیلنے کی تصدیق کی ہے مگر اسرائیل کے وزیراعظم نے اس کو جھوٹ قرار دیا ہے۔ دوسری طرف ایک ہفتہ قبل فلسطین کے وزیراعظم محمد مصطفےٰ نے اعلان کیا کہ غزہ کے انتظام کے لئے جلد ہی ایک عبوری کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ اس موقع پر انہوں نے مصری وزیر خارجہ عبدالعاطی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس بھی منعقد کی جس میں کہا کہ تنظیم آزادی فلسطین عوام کی جائز اور واحد نمائندہ تنظیم ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ ادارے، تنظیمیں اور افراد جو امن کی دہائی دے رہے ہیں فلسطین کی بچی کچھی قوتِ مدافعت جو اسرائیل فوجی اقدامات کرکے چھین لینا چاہتا ہے۔ گفتگو اور تسلی کا جھانسہ دے کر چھین لینا چاہتے ہیں اسی لئے اسرائیل کے حوصلے اتنے بلند ہوگئے ہیں کہ وہ غزہ پر قبضہ کر لینے اور وسیع تر اسرائیل تشکیل دینے کے عزم کا برملا اعلان کر رہا ہے۔ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جس کی سرحدیں متعین نہیں ہیں اور وہ مقبوضہ علاقوں پر بھی اپنی بستیاں بسانے کی باتیں اور اقدام کر رہا ہے کہ اب اس نے مغربی کنارے، گولان کی پہاڑیوں ، جزیرہ نمائے سینا اور اردن کے کچھ علاقوں کو بھی اپنی سرحدوں میں شامل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ وسیع تر اسرائیل کا نقشہ واضح نہیں ہے بعض اطلاعات کے مطابق مدینہ منورہ کی مقدس سر زمین کو بھی اس میں شامل کیا جانا ہے مگر موجودہ حالات اور اعلانات سے تو ظاہر ہوگیا ہے کہ اسرائیل مغربی کنارے، گولان کی پہاڑیوں ، جزیرہ نمائے مصر اور اردن کے کچھ علاقوں کو بھی اپنے نقشے میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ کن کن علاقوں کو وسیع تر اسرائیل میں شامل کرنا چاہتا ہے یہ وقت بتائے گا۔
اچھی بات صرف یہ ہوئی ہے کہ حماس نے غزہ کے لئے امت مسلمہ اور حریت پسندوں سے اپنی تحریکیں تیز تر کرنے کی درخواست کی ہے۔ خود اسرائیل کے مصنفین اور صحافی تل ابیب میں مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ اسرائیلی مصنف ڈیوڈ گراس نے غزہ میں اسرائیل کی جاری مہم کو ’نسل کشی‘ قرار دیا ہے۔ آئرش ناول نگار سیلی رونی نے فلسطین اور غزہ کے مظلوموں سے یگانگت کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح اسرائیلی جارحیت کے خلاف آسٹریلیا میں جو احتجاج جاری ہے اس میں ساڑھے تین لاکھ افراد کی شرکت ہوئی ہے۔ آئرلینڈ کے صدر مائیکل ہیکنز نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی دنیا کی تاریخ کا المناک دور ہے اور اسرائیل کو اس کے جنگی جرائم کے احتساب سے بچانا جمہوریت کے لئے خطرہ ہے۔ ترکی کی خاتون اول ایمن اردگان نے امریکہ کی فرسٹ لیڈی میلانیا ٹرمپ کو لکھا ہے کہ انہوں نے جس طرح یوکرین کے بچوں کیلئے تشویش ظاہر کی تھی اسی طرح غزہ کے بچوں کی حفاظت و حقوق کے لئے بھی آواز بلند کریں یعنی دنیا کے ہر حصے اور ہر ملک میں غزہ کے معصوم عوام کے لئے آواز اٹھ رہی ہے خود امریکہ اور اسرائیل میں بہت بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو غزہ و فلسطین وہاں کے اصل باشندوں کے حوالے کرنا چاہتے ہیں ۔ ہندوستان میں بھی سیاست دانوں ، صحافیوں اور تخلیق کاروں میں بعض لوگ غزہ اور فلسطینیوں کے ہمنوا ہیں مگر اُردو میں ایسے صحافی، تخلیق کار اور مصنف جو غزہ و فلسطین کی حمایت میں لکھ رہے ہیں ، وہ بھی عنقا ہوتے جا رہے ہیں ، اور جو ایسا کررہے ہیں وہ پیشہ ور ہیں ۔ یہ المیہ ہے کہ اُردو میں اچھے مضامین کا سلسلہ ترجمے یعنی ادھار پر چل رہا ہے۔ اوریجنل مضامین لکھنے والے یا تو کم ہوتے جا رہے ہیں یا مسلسل ناقدری کے سبب سامنے نہیں آرہے ہیں ۔ ہاں ایسے لوگوں پر شباب ہے جو بے پَر کی اڑانے میں ماہر ہیں ۔ اُردو صحافت کا ذکر اس لئے ہوا کہ اس پر ملّی صحافت ہونے کا الزام ہے جبکہ ملّت میں ایسے لوگ کثرت سے ہیں جو صحافی ہیں نہ ملّت دوست۔
یہ بھی پڑھئے : بہار میں سیاسی فضا کی تبدیلی کے امکانات روشن؟
ادھر نیتن یاہو کے خلاف خود انہیں کے فوجی سربراہ ایال زامیر نے کہا ہے کہ یاہو کو یرغمالوں کی رہائی کے لئے دستیاب موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ بیشک نیتن یاہو پر اسرائیل کی تشدد پسند سیاسی پارٹیوں کا دباؤ ہے اس کے باوجود فوج اور سیاست دانوں کا ایک بڑا طبقہ ان کے خلاف اور جنگ بندی کے حق میں ہے۔ خود اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے بیان دیا ہے کہ مارچ ۲۰۲۵ء میں جنگ بندی معاہدہ ہوجانے کے بعد غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ جنگی جرم ہے۔ اس جنگ میں خود اسرائیل کے کافی فوجی مارے جا رہے ہیں ۔ ادھر اسرائیل اسپتال اور فلسطینی صحافیوں پر شدید بمباری کر رہا ہے۔ حیرت ہے کہ جدہ میں منعقدہ خلیجی تعاون تنظیم کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ترک وزیر خارجہ ہاکان فیزان نے کہا تو ہے کہ اسرائیل کو غزہ پر قبضہ کرنے نہیں دیں گے مگر شہداء کی ارواح پوچھ رہی ہیں کہ اقدام کب کرو گے؟ سعودی حکومت اور ایران سے بھی ان کا یہی سوال ہے۔ جہاں تک عام مسلمانوں اور انصاف پسندوں کا معاملہ ہے وہ فلسطین و غزہ کو غصب کرنے یا فلسطین و غزہ میں کٹھ پتلی حکومت مسلط کرنے کی سازش سے بھی بے خبر ہیں ، وہ دوسروں کو بیدار و خبردار کیا کریں گے۔ اسی دوران یہ خبر بھی آئی ہے کہ غزہ کو امریکہ ’ٹورسٹ اسپاٹ‘ کے طور پر ترقی دینے یعنی اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اطمینان کی بات ہے تو صرف یہ کہ یہاں صحافی احتجاج کر رہے ہیں ۔