• Tue, 02 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’علم ہے کچھ اور شے، تعلیم ہے کچھ اور شے‘‘

Updated: August 30, 2025, 1:56 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

تعلیم کو علم سمجھ لینے کی غلطی کا نتیجہ ہے کہ دُنیا علم کے ثمرات سے بیگانہ ہے۔ جس کو علم کہا اور سمجھا جارہا ہے وہ تکنیکی علم ہے۔ ایسا علم نہ تو خود شناسی میں معاون ہوسکتا ہے نہ ہی خدا شناسی تک لے جاسکتا ہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

مارک ٹوین انگریزی زبان کے شہرہ آفاق مصنفوں  اور ادیبوں  میں  شمار کئے جاتے ہیں ۔ اُن کا یہ قول مجھے کبھی نہیں  بھولتا: 
I have never let my schooling 
interfere with my education.

اسکولنگ اور ایجوکیشن کا فرق اس قول سے واضح ہی نہیں  ہوتا، اس میں  اسکولنگ کے تعلق سے ہلکی سی تحقیر بھی موجود ہے کہ اس کیلئے لفظ ’’Interfere‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ انٹرفیئر کا معنی ہے مخل ہونا، مداخلت کرنا۔ انسان اُسی چیز کو مداخلت کار سمجھتا ہے جو اُس کیلئے ناپسندیدہ ہو۔ مارک ٹوین کے نزدیک ایجوکیشن میں  اسکولنگ کی حیثیت مداخلت کار کی ہے مگر وہ اسکولنگ کی نفی نہیں  کرتے اور اس لئے نہیں  کرتے کہ ایجوکیشن، اسکولنگ کے ساتھ بھی ممکن ہے اور اس کے بغیر بھی۔ کلید ایجوکیشن ہے، تعلیم ہے، علم ہے۔ اسکولنگ کا مقصد بھی وہی ہے مگر اسکولنگ، جس کو آپ روایتی تعلیم کہہ سکتے ہیں ، تعلیم و تعلم میں  ممد و معاون تو ہوتی ہے مگر حرف ِآخر نہیں  ہوتی۔ مارک ٹوین کا دور ۱۸۳۵ء سے ۱۹۱۰ء کا ہے۔اُس دور میں  تعلیم جیسی تعلیم تھی۔ طالب علم میں  سیکھنے کا اور معلم میں  درس و تدریس کے ذریعہ اپنا سب کچھ شاگرد پر نچھاور کردینے کا جذبہ تھا۔ اس کے باوجود اگر مارک ٹوین نے ایجوکیشن کو اسکولنگ سے الگ کیا ہے تو اس کا یہی معنی سمجھ میں  آتا ہے کہ روایتی تعلیم، حقیقی تعلیم کا حق ادا نہیں  کرسکتی، تب بھی نہیں  کرسکتی تھی جب بہت اچھے معلم پیشہ ٔتدریس سے وابستہ تھے۔ آج کے نظام ِ تعلیم پر تو گوناگوں  خرابیوں  کے داغ ہیں  مگر جب ایسا نہیں  تھا تب بھی روایتی تعلیم حقیقی تعلیم کا نعم البدل نہیں  تھی۔ 
 یہ بات جتنی مارک ٹوین کے دور میں  قابل غور تھی اُس سے زیادہ اب ہے مگر مشکل یہ ہے کہ اب روایتی تعلیم ہی کو حقیقی تعلیم سمجھ لیا گیا ہے اور امتحان، سرٹیفکیٹ، سند اور ڈگریاں  ہی کسی شخص کے تعلیم یافتہ ہونے کے ثبوت کے طور پیش اور قبول کی جانے لگی ہیں ، اس رجحان کا نتیجہ ہے کہ ’’تعلیم یافتہ‘‘ اور ’’علم یافتہ‘‘ کا فرق کم یا ختم ہوگیا ہے۔ نظام تعلیم، محدود تعلیم ہی کی ضمانت دیتا ہے اور محدود تعلیم لامحدود علم کے تقاضے کا بار نہیں  اُٹھا سکتی۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی حصول علم کی راہ کے سنگ میل تو ہیں ، منزل نہیں  ہیں  کیونکہ طالب علم زندگی بھر طالب علم رہتا ہے، معلم بن جائے تب بھی طالب علم رہتاہے۔ زندگی کے کسی موڑ پر اگر اُس نے سمجھ لیا کہ وہ طالب علم نہیں  رہ گیا ہے تو اپنے ہاتھوں  سے علم کے دروازے  بند کرلیتا ہے، پھر اگر وہ معلم ہے تو شاگردوں  سے انصاف نہیں  کرپاتا، طبیب ہے تو مریضوں  کا بھلا نہیں  کرپاتا، صاحب ِ اولاد ہے تو اچھا باپ (یا ماں ) نہیں  بن پاتا اور اگر سماج کے اہم فرد کی حیثیت سے لوگوں  سے ملتا جلتا ہے تو اپنے ملاقاتیوں  کے دلوں  کو گرما نہیں  سکتا، اُن میں  کوئی جوت نہیں  جگا سکتا۔
  آپ دیکھتے ہیں  کہ حکومتیں  نظام تعلیم کو بدلتی رہتی ہیں ۔ کیوں  بدلتی ہیں ؟ اس لئے کہ کئی کئی سال بعد اُنہیں  محسوس ہوتا ہے کہ اسکول اور کالج سے جیسے فارغین برآمد ہونے چاہئیں  ویسے نہیں  ہورہے ہیں ۔ چند برس بعد اُنہیں  پھر یہی احساس ہوتا ہے، وہ پھرحرکت میں  آتے ہیں  اور پھر تعلیمی پالیسی بدلی جاتی ہے۔ بار بار کی تبدیلیوں  کے باوجود نظام ِ تعلیم، مقصد تعلیم کی تکمیل میں  ناکام ہے۔ اس کی وجہ مقصد تعلیم کو نہ سمجھنا یا سمجھنے میں  غلطی کرنا ہے۔ نظام ِ تعلیم، مقصد ِ تعلیم سے ہم آہنگ ہو تو اس کے بدلنے کی ضرورت ہی کیوں  پیش آئے!
 مارک ٹوین نے یقیناً روایتی تعلیم کے نقائص پر غور کیا ہوگا، اس کی محدودیت کو پیش نظر رکھا ہوگا، ماورائے نصاب سیکھنے اور سکھانے کے فقدان کو محسوس کیا ہوگا اور نظام ِ تعلیم میں  غو ر وفکر کو لازم نہ کرنے کے طریقہ کو ناپسندیدہ نگاہوں  سے دیکھا ہوگا۔ تبھی اپنے قول کے ذریعہ یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ لوگ روایتی تعلیم کو حقیقی تعلیم نہ سمجھ بیٹھیں ۔ روایتی تعلیم رُک جاتی ہے، ختم ہوجاتی ہے یا مکمل ہوجاتی ہے مگر حقیقی تعلیم جاری رہتی ہے، جاری رہنا ہی اُس کی خصوصیت ہے۔یہ اُس دریا کی مانند ہے جو بہتا رہتا ہے، بہتا ہی چلا جاتا ہے۔ 
 روایتی تعلیم مقصد ِ تعلیم سے علاحدہ نہ ہوئی ہوتی تو اسکول اور کالج کے فارغین میں  مطالعہ سے جی چرانے کا رجحان نہ پیدا ہوتا۔ طالب علم اسکول جاتا ہے تو اُس کے ہاتھوں  میں  کتاب تھمائی جاتی ہے۔ طالب علم ایک بار کتاب تھام لے تو پھر کتاب سے دور ہونے کا تصور بھی اُس میں  نہیں  ہونا چاہئے مگر اچھے اچھے ڈگری یافتگان کو دیکھ لیجئے کہ نہ تو اُن کے ہاتھو ں میں  کبھی کوئی کتاب دکھائی دیتی ہے نہ ہی اُن کی گفتگو میں  مطالعہ بولتا ہے۔ اسی لئے ہمارے یہاں  ’’وہاٹس ایپ یونیورسٹی‘‘ کی ’’اصطلاح ‘‘ رائج ہوئی۔ اِس یونیورسٹی کا جواب نہیں ۔ دیگر لوگوں  کی طرح اِس سے طالب علم بھی وابستہ رہتے ہیں  مگر یہ وہ طالب علم ہیں  جن میں  طلب ِعلم کا جذبہ نہیں  ہے۔ کیا ایسا شخص  جس میں  طلب ِ علم کا جذبہ نہ ہو، طالب علم کہلا سکتا ہے؟وہاٹس ایپ یونیورسٹی میں  داخلہ لینا کتاب اور مطالعہ سے برأت کا اعلان کرنا ہے۔ سوشل میڈیا کا صارف بن کر اس میں  مبتلا ہوجانا بھی کتاب اور مطالعہ کو خیرباد کہہ دینے کے مترادف ہے۔ غیر ملکوں  میں  تو اب بھی کتاب پڑھنے کا شوق اور جذبہ ہے مگر ہمارے ملک میں  اس کا قحط پڑا ہوا ہے۔ یہاں  ہر ایک کے ہاتھ میں  موبائل ہے، کسی کے ہاتھ میں  کتاب نہیں  ہے۔ جس سماج اور معاشرہ میں  کتاب ہی دکھائی نہ دیتی ہو وہاں  ’’کتاب خواں ‘‘ کہاں  ملے گا اور جب کتاب خواں  ہی نہ ملے گا تو کیسے اُمید کی جاسکتی ہے کہ کوئی ایسا بھی ہوگا جسے ’’صاحب ِکتاب‘‘ کہا جائے؟ گزرے ہوئے کل کا شکوہ تھا کہ کتاب خواں  تو بہت ہیں ، صاحب ِکتاب کوئی نہیں  ہے۔ آج کا شکوہ یہ ہے کہ کتاب خواں  بھی مشکل سے ملتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے : کیا حکمرانوں کی لکھی ہوئی تاریخیں ہی پڑھائی جائینگی؟

 مارک ٹوین نے بین السطور یہ بھی کہا ہے کہ اسکولنگ ختم ہوسکتی ہے بلکہ ہوجاتی ہے،  ایجوکیشن کا سلسلہ کبھی ختم نہیں  ہوتا۔ اسی لئے بالائی سطور میں  کہا گیا کہ انسان اپنے آخری دم تک طالب علم رہتا ہے مگر وہی شخص آخری دم تک طالب علم رہے گا جس میں  طلب ِ علم کا ذوق ہو۔ یہ ایسا ذوق ہے جو علم کی اعلیٰ منازل تک لے جاتا ہے، مسرتوں  سے ہمکنار کرتا ہے، حیات و کائنات کے رموز آشکار کرسکتا ہے، خود کو اور خدا کو سمجھنے میں  مددگار ہوتا ہے اور زندگی کو قیمتی بنا دیتا ہے۔

education Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK