امریکہ نے اسرائیل کی جا و بے جا ہر معاہدہ میں اس کا ساتھ دیا ہے اور یہ بھی کہ اسرائیل کے زیادہ تر اقدامات بے جا ہی رہے ہیں۔امریکہ اس بار بھی اسرائیل کے ساتھ ہی جاتا لیکن امریکہ کے حالات کچھ اس طرح پلٹے ہیں کہ خودامریکن بھی حیران ہیں ۔ ایسالگتا ہے جیسے تاریخ اپنا ورق پلٹ رہی ہو۔
ہمیں یہ تو امید تھی کہ چونکہ اسرائیل میں نیتن بنجامن یاہو کے خلاف بدعنوانی کے کچھ معاملات درج ہیں ، اس لئے ہو سکتا ہے کہ کسی دن وہ گرفتار بھی کر لئے جائیں لیکن ہمیں یہ قطعی امید نہیں تھی کہ ایک عالمی عدالت سے ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوں گے۔ اس معاملہ کو اس طرح سمجھئے ،دنیا میں دو عالمی عدالتیں ہیں ۔ ایک وہ جسے آئی سی جی کہتے ہیں یعنی انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس اور دوسری وہ جسے آئی سی سی جی یعنی انٹرنیشنل کورٹ آف کریمنل جسٹس کہا جاتا ہے۔ پہلی دفعہ آئی سی کی مداخلت ہے،جس میں دو قوموں یا ریاستوں میں قضیات ہوتے ہیں ، یعنی اگر کہیں معاملات میں خدشات ہوتے ہیں تو اس میں کسی فرد کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں ہوتا، لیکن اگر یہ عدالت یہ محسوس کرے کہ کہیں کوئی گڑبڑہے، اس کا مقصد کچھ بھی ہو ،جو انسانی حقوق کو پامال کرتے ہیں یا جس کے سبب یہ حقوق پامال کئے جاتے ہوں یا پامال ہو تےہوں تو یہ عدالت اس کے خلاف مجرمانہ شنوائی کر سکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق کا سب سے بڑا علم بردار امریکہ ان دونوں عدالتوں کا ممبر نہیں ہے اور جب امریکہ ان کا ممبرنہیں ہے تو اسرائیل جو اس وقت انسانیت کا سب سے مہیب دشمن ہے وہ اس کا ممبر کیوں ہو ؟
بہرحال ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ دنیا کے ۱۲۰؍ممالک اس کے ممبر ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بنجامن نیتن یاہو اگر ان ممبرممالک جس ملک میں پائے جاتے ہیں تو وہاں کی پولیس انہیں گرفتارکر لےگی۔ اس کامطلب یہ ہے کہ بنجامن نیتن یاہو جن کا عرف عام کا نام ’بی بی‘ ہے انہیں اس وارنٹ کے ہوتے ہوئے اسرائیل میں ہی رو پوش رہنا پڑے گا۔
اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ جب تک ’بی بی‘ اسرائیل کے سارے معاملات کے حاکم ہیں تب تک دنیا کاکوئی بھی ملک اسرائیل سے تجارت نہیںکرے گا،ہو سکتا ہے کہ اسرائیل کے موجودہ وزیر اعظم اپنی جگہ پر کسی اور کو لے آئیں جوا ن ہی کی طرح ہولیکن اس سے بھی فرق نہیں پڑتا جن معاملات کو ’بی بی‘ نہیں سنبھال پائے انہیں اسرائیل کا کوئی دوسرا لیڈر بھی نہیں سنبھال پائے گا۔
’بی بی ‘ نے اس کےلئے ایک اور حل سوچا ہے، وہ تاریخ کے بدترین سازش کار ہیں ، کہا جاتا ہے کہ انہوں نے حماس کے لیڈروں کو یہ تجویز بھیجی ہے کہ اس قضیہ کو حل کرنے کے لئے دو ممالک کی تجویز مان لی جائے، یعنی ایک طرف اسرائیل کی حکومت اور ایک طرف آزاد فکسطینی ریاست ہو جس میں غزہ بھی شامل ہو۔ رہا یروشلم کا حال تو اسے ایک بین الاقوامی شہربنادیاجا ئے جس کا انتظام یہودی اور مسلمان کریں لیکن کسی کا اس پر قبضہ نہ ہو۔ آپ کو یہ بتا دیں کہ یہ کوئی سرکاری تجویز نہیں ہے بلکہ یہ خبر افواہوں کی طرح گشت کرتی رہتی ہے اور یہ افواہ میں کسی قسم کی کوئی سچائی نہیں ہے۔کہا جاسکتا ہے کہ فلسطینی اور حماس کے مجاہدین بھی اس تجویز پر بہت زیادہ متفق نہیں ہیں ،اس تجویز کی وجہ سے ریاست اسرائیل کاوجود قائم رہے۔
اب یہ ظاہر ہے کہ سب کے دلوں میں یہ سوال اٹھے گا کہ ان سب معاملات میں امریکہ کا رویہ کیا ہوگا جو اس وقت اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کی جا و بے جا ہر معاہدہ میں اس کا ساتھ دیا ہے اور یہ بھی کہ اسرائیل کے زیادہ تر اقدامات بے جا ہی رہے ہیں ۔امریکہ اس بار بھی اسرائیل کے ساتھ ہی جاتا لیکن امریکہ کے حالات کچھ اس طرح پلٹے ہیں کہ خودامریکن بھی حیران ہیں ۔ ایسالگتا ہے جیسے تاریخ اپنا ورق پلٹ رہی ہو۔ غزہ پر اسرائیل کے دہشت ناک حملوں نے امریکیوں کا دماغ الٹ دیا ہے۔ اس وقت امریکہ میں وہی حالات ہیں جو ویت نام کی جنگ کے وقت تھے۔ تقریباًساری امریکن یونیورسٹیوں کے نوجوانوں نے حالات کو اپنے قبضہ میں کر لیا ہے، نوجوانوں کی اس بغاوت کا آغاز سب سے پہلے کولمبیا یونیورسٹی سے ہوا، اتفاق سے اس یونیورسٹی کی پریسیڈنٹ یعنی وائس چانسلر نعمت طلعت شفیق ہیں ، جب انہوں نے دھرنا دیا تو کیمپس میں پولیس بلا لی گئی ، یہ خاتون برطانوی ہیں ، پولیس نے آکر ان کو گرفتار کر لیا، جیسے ہی اس گرفتاری کی خبر عام ہوئی تو امریکہ کی تمام بڑی یونیورسٹیوں کے طلبہ نے ایک ساتھ بغاوت کر دی اور یہ بغاوت اسی طرح پھیل گئی جس طرح ویتنام کے وقت پھیلی تھی۔ یاد کیجئے، مشہور باکسر کیشئس کلے جنہوں نے ویتنام جانے سے انکا رکر دیا تھا، پھر وہ محمد علی ہوئے اور اسی نام کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے۔ اس وقت لاکھوں طلبہ نے ہڑتال کر رکھی ہے۔ سنا ہے کہ طلبہ نے اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کیا اور ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ امریکہ کی یونیورسٹیوں میں جن یہودی کمپنیوں نےسرمایہ لگا رکھا ہے وہ سرمایہ منتقل کیاجائے۔ یہ بھی ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ ان یونیورسٹیوں میں فلسطینی یا مسلمان طلبہ کی تعدادایک فیصد سے بھی کم ہے۔ گرفتارہونےوالے باغیوں میں ایک اچھی خاصی تعداد یہودیوں کی بھی ہے۔ چک شومر ایک ڈیموکریٹ لیڈر ہیں ۔ وہ خود بھی یہودی ہیں ۔ کولمبیا یونیورسٹی کے بعض طلبہ سے بہتر تعلقات ہیں ،چک شومر لیکچر بھی دیتے رہے ہیں ۔یہ بات شاید ان کو بری بھی لگے یہ حقیقت ہے کہ بہت سے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ غزہ کی جنگ یہودیت اوراسلام کے بیچ کی کوئی جنگ ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ بہت سے معروف یہودی پیشوا یا ربی بھی صیہونیت کے خلاف ہیں ،چک شومر نے بھی نیتن یاہو کے غزہ پر حملہ کےبعد اُن کی نکتہ چینی کی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ بنجامن اسرائیل کو نہ جا نے کہاں لے جا رہے ہیں ۔یہ سچ ہے کہ اسرائیل کی اکثریت یہودیوں کی ہے اور دوسری طرف مسلمان ہیں مگر آج تک حماس نے یہودی رہنما کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا، یہ انسانیت کے خلاف جنگ ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں بھی اسرائیل کے خلاف یہ نکتہ چینی ہے، ظاہر نہیں ہوتا ہےلیکن ہندوستان کی ایک بڑ ی تعداد اسرائیل کے سخت خلاف ہے۔نیتن یاہو کے زوال سے ہندوستان کے ایک لیڈر کو بہت قلق ہوگا ایک جگری دوست کےزوال سے دوسرے جگری دوست کو دکھ تو ہوتا ہوگا ہم ہندوستان کے اس لیڈر کا نام نہیں بتائیں گے کیونکہ آپ خود بہت سمجھدار ہیں ۔