ایسا کیا ہے غالب میں کہ اس کے انتقال کو ڈیڑھ سو سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود اُس کی شاعری پہلے سے زیادہ مشہور ہے اور غیر ملکوں میں اُس کے نئے نئے مداح پیدا ہورہے ہیں، وہ کتابیں لکھ رہے ہیں اور تفہیم غالب کی راہیں ہموار کررہے ہیں۔
آج غالب کا ۲۲۸؍ واں یوم ولادت ہے۔ اس جہانِ فانی میں ۷۱؍ سالہ قیام کے بعد وہ ۱۵؍ فروری ۱۸۶۹ء کو راہی ٔ ملک عدم ہوگئے تھے۔ ۱۵۶؍ سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے مگر سوچئے کہ غالب میں ایسا کیا ہے کہ اس کی شہرت کا دائرہ وقت کے ساتھ تنگ ہونے کے بجائے وسیع ہوتا چلا گیا، اس کا نام آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں گونجتا ہے اور اس کے اشعار، جن پر مشکل ہونے کا لیبل چسپاں ہے، ذوق و شوق سے سنے اور سنائے جاتے ہیں ؟
’’غالب میں ایسا کیا ہے؟‘‘ پر غور کرتے ہوئے یہ بھی سوچئے کہ غالب مشکل تھا تو آسانیوں کے دور میں اُس کے اشعار کی مانگ کم کیوں نہیں ہوئی؟ اُس کی سہل پسندی میں بھی مشکل پسندی کا عنصر تھا تو ا س کی شاعری قصۂ پارینہ ہوجانی چاہئے تھی مگر یہ کیا کہ اس کی شہرت اور مقبولیت روز افزوں ہے؟ اب تو اہل مغرب بھی اُس کا تعاقب کررہے ہیں ۔ اُس کے اشعار کا انگریزی ترجمہ تلاش کررہے ہیں جبکہ ترجمہ میں اصل کا لطف یا تو نہیں ہوتا یا کم کم ہوتا ہے اس کے باوجود کیا سبب ہے کہ نئے نئے لوگ منظر عام پر آرہے ہیں اور اشعار ِ غالب کے مترجم کی حیثیت سے اپنی پہچان بنا رہے ہیں ؟
غالب میں ایسا کیا ہے پر غور کرتے ہوئے یہ سوال بھی ذہن میں لائیے کہ بیرونی ملکوں سے جو سیاح ہندوستان آتے ہیں اُن میں کافی تعداد اُن کی ہوتی ہے جو مزار ِ غالب پر حاضری کے خواہشمند ہوتے ہیں ۔ خود ہندوستان میں ایسے لوگ کم نہیں جو دہلی جاتے ہیں تو غالب کے حضور پہنچنا ضروری سمجھتے ہیں ۔کوئی تو وجہ ہے کہ جو بھی اُس کا نام سنتا ہے وہ اُس کے اشعار کو سمجھنا چاہتا ہے، جاننا چاہتا ہے کہ غالب اتنا بڑا نام کیوں ہے۔ غور کیجئے یہ کیسا شاعر ہے جو ہر شعبے کے افراد کو مستفید کرتا ہے، ہر شعبے کے لوگ اس کے اشعار میں اپنے لئے رہنمائی تلاش کرتے ہیں اور گوہر مقصود پاکر خوش ہوتے ہیں !
غالب میں ایسا کیا ہے کہ غیر اُردو داں حضرات اُس کیلئے اُردو سیکھتے ہیں اور پھر کسی معلم کی مدد سے مفاہیم ِغالب تک رسائی کیلئے بے چین رہتے ہیں ؟ اس اخبار کی ۳؍ ستمبر ۲۰۱۸ء کی اشاعت میں رُکن انقلاب مبشر اکبر کا ایک فیچر شائع ہوا تھا جس میں غالب کے ایسے مداحوں کا تعارف کرایا گیا تھا جنہوں نے اُس کے اشعار سمجھنے کیلئے اُردو سیکھی اور مفہوم کی گہرائی تک رسائی کیلئے اپنے اُستاذ ڈاکٹر یونس اگاسکر کی مدد لی۔ ان میں ڈاکٹر راجندر سامنت، نیرجا ٹھاکر، سروج دیشپانڈے اور ستیہ نارائن ہیگڈے نے بتایا تھا کہ وہ غالب تک کیوں اور کیسے پہنچے۔ یہ کون لوگ ہیں ؟ ڈاکٹر سامنت نے کیمیکل ٹیکنالوجی میں ڈاکٹریٹ کیا ہے، سروج کاؤنسلر، گلوکارہ اور سماجی کارکن ہیں ، نیرجا یوگا ٹیچر ہیں اور ستیہ نارائن ہیگڈے وکیل۔ انہیں کیا ضرورت تھی غالب کو سمجھنے کی؟ اگر یہ اُردو شاعری کے دلدادہ ہیں تو شاعروں کی طویل فہرست تھی، پھر انہوں نے غالب ہی کو کیوں منتخب کیا؟ معلوم ہوا کہ یہ صرف شاعری بالخصوص اُردو شاعری کا چسکہ نہیں تھا جو اُنہیں غالب کے دربار میں لے آیا۔ یہ غالب کے اشعار کی کشش تھی جس نے اُن کے ذوق کی آبیاری کی اور اُن میں مشکل الفاظ و اشعار کی معنوی گہرائی تک پہنچنے کی جستجو اور لگن پیدا کی۔
اس پر مجھے یاد آئے ناسک کے اُپلیکر مہاراج جن کا ذکر اس کالم میں پہلے بھی ہوا ہے۔ وہ غالب پر فریفتہ تھے۔ موقع بہ موقع غالب ہی کے اشعار سناتے تھے۔ اُردو سے ناواقف مگر غالب سے واقف۔ میں نے اُن سے پوچھا تھا کہ غالب آپ کو کیا دیتا ہے؟ جواب میں اُنہوں نے اپنی طالب علمی کا واقعہ سنایا کہ ایک دن ماسٹر صاحب نے مجھے ایک کام سونپا۔ کھیل کود میں مَیں وہ بھول گیا۔ رات کو بستر پر گیا تب یاد آیا مگر اُس وقت اُس کی انجام دہی ممکن نہیں تھی۔ مَیں گھبرا گیا اور پیچ و تاب کھاتا رہا کہ صبح ماسٹر صاحب کا سامنا کیسے کرونگا۔ بیقراری بڑھتی جارہی تھی، ایسے میں غالب کا مصرعہ ذہن میں گونجا کہ ’’ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا‘‘۔ غالب کے اس مشورہ سے میری ہمت بندھی ، بے کلی دور ہوگئی اور مَیں سو گیا۔
پھر آئیے اُسی سوال کی طرف کہ غالب میں ایسا کیا ہے؟ مشہور ویب سائٹ ’’اسکرول‘‘ پر منن کپور کا ایک مضمون ۱۵؍ فروری ۲۰۱۹ء کو شائع ہوا جس میں اُنہوں نے امریکہ میں غالب شناسی کی لہر کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا: ’’ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ مغرب میں غالب کا اثر بڑھتا ہی رہے گا کیونکہ اب تک کا تجربہ یہ ہے کہ رابرٹ بلی (Robert Bly) کی اشعارِ غالب کے ترجمہ پر مبنی کتاب ‘‘دی لائٹننگ شڈ ہیو فالن آن غالب‘‘ اور رالف رسل کی ’’اُردو اینڈ پرشین غزلس آف غالب‘‘ کی مقبولیت ثبوت ہے کہ اشعارِ غالب نے مغرب کی روایتی شاعری کو نیا جوش اور ولولہ عطا کیا ہے جس کے سبب امریکی ادب کے اجتماعی شعور میں غالب کی جگہ محفوظ ہوگئی ہے۔‘‘ایسا کیا ہے غالب میں کہ کیلی فورنیا کے وہٹیئر کالج کے ٹونی برن اسٹون اور کوینٹم انفارمیشن سائنس کے پی ایچ ڈی بلال شا (Shaw)نے اپنی کتاب ’’فیسیز ہِڈن اِن دی ڈسٹ‘‘میں غالب کی منتخب غزلوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا؟یہ اور ایسی مثالوں سے اصل سوال کا جواب نہیں ملتا کہ ایسا کیا ہے غالب میں ۔ سوچئے ایسا کیا ہے غالب میں !
کچھ تو ہے۔ کچھ تو ہے تبھی تو گوپی چند نارنگ نے کہا کہ’’ مَیں غالب سے ڈرتا ہوں ، ڈرتا ہی نہیں بلکہ اندر تک لرز جاتا ہوں ‘‘۔ کچھ تو ہے تبھی تو رشید احمد صدیقی نے لکھا کہ ’’مجھ سے اگر پوچھا جائے کہ ہندوستان کو مغلیہ سلطنت نے کیا دیا تو مَیں بے تکلف یہ تین نام لوں گا، غالب، اُردو اور تاج محل‘‘۔ کچھ تو ہے تبھی تو مجنوں گورکھپوری نے غالب پر لکھتے ہوئے انگریز نقاد جارج سینٹس بری کا قول نقل کیا کہ ’’کیٹس نے ٹینی سن کو پیدا کیا اور ٹینی سن نے باقی تمام شعراء کو‘‘ اور اس حوالے سے انہوں نے اپنی بات کہی کہ ’’ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ غالب نے اقبال کو پیدا کیا اور اقبال نے بعد کے تمام اُردو شعراء کو‘‘۔ کچھ تو ہے تبھی تو ڈیڑھ سو سال بعد بھی اُس غالب کا دبدبہ قائم ہے جس نے اپنے اشعار میں نظم کئے گئے الفاظ کو ’’گنجینۂ معنی کا طلسم‘‘ قرار دیا مگر کبھی کسی نے اس دعوے کو رد نہیں کیا۔ کچھ تو ہےتبھی تو سامعین اُن اشعار پر بھی جھومتے ہیں جو سمجھ میں نہیں آتے۔
کچھ تو ہے غالب میں ، مگر، کیا ہے؟ اس کا جواب تبھی ملے گا جب مطالعہ ٔ غالب و شرحِ غالب سے اس کا جواب پانے کی کوشش ہوگی، اس پر غوروخوض ہوگا اور غالب کی عظمت کا راز کھلے گا ورنہ غالب مداحوں سے محروم نہیں ہوگا، ہم اُس سے محروم ہوجائینگے ۔