Inquilab Logo Happiest Places to Work

بی جے پی،آر ایس ایس کا ’جھگڑا‘ کتنا ممکن کتنا نا ممکن

Updated: May 28, 2024, 1:45 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

یہ اعتراف کئے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ ایک مختصرسے حلقہ اب بھی مانتا ہے کہ برطانوی دور کے خاتمہ کے بعد ہندوستان پر ہندوؤں کا راج ہونا چاہئے تھا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

بی جے پی کے صدر جے پی نڈا کا یہ بیان کہ بی جے پی کو آر ایس ایس کی ضرورت نہیں  ہے، اس وقت آیا جب اسی سال آر ایس ایس کا صد سالہ یوم پیدائش منایا جانے والا ہے۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے۔ لیکن اگر آپ موقع کو کسی بھی طرح نظرا نداز کر دیں  تو کچھ تاریخی حقائق بھی ہیں ، جنہیں  کسی طرح آنکھوں  سے اوجھل نہیں  کیا جاسکتا ۔۱۹۲۵ ءمیں  جب آرا یس ایس کاجنم ہوا تھا تو یہ ایک فکری نظریہ تھا۔ اس وقت ہندوئوں  کی بڑی اکثریت کے ایک قلیل حصہ کو یہ اندازہ تھا کہ چند سال بعد برطانوی حکومت ہندوستان سے ختم ہونے والی ہے۔ ایک چھوٹے سے ہندو حلقہ کو، جو ظاہر ہے کہ اپر کاسٹ تھے، یہ خیال ستانے لگا کہ برطانوی دور کے خاتمہ کے بعد ہندوستان پر ہندوؤں  کا ہی راج ہونا چاہئے۔ جس ہندو حلقہ کو یہ احساس ہوا تھا اس کی ایک بڑی تعداد انگریزوں  کے ساتھ تھی، یہ صرف ذات پات کا معا ملہ نہیں  تھا، تاریخ پر نظر ڈالئےتو ملک میں  یہی طبقہ سب زیادہ تعلیم یافتہ بھی تھا، ہندو ستان کی باقی آبادی کچھ جائز بلکہ زیادہ تر ناجائز طریقوں  کی وجہ سے انگریزوں  او راُن کی باتوں  سے بھی متنفر تھی۔ ہندوستانی مسلمانوں  کو اس کا علم سر سیداحمد خان کی کوششوں  کی وجہ سے ہوا تھا۔ یہ سب تاریخی باتیں  ہیں ۔
 لیکن اسی دوران مہاتما گاندھی منظر عام پر آگئے۔ انہوں  نے یہ بھانپ لیا کہ اس ملک میں  ہندو اور مسلمانوں  کاساتھ سا تھ رہنا انگریزوں  کیلئے دشوار ترین معاملہ ہوگا جس نے اس اتحاد کو توڑنے کی بہت کوشش کی لیکن یہ نہیں ہوسکا۔اصل بات یہ تھی کہ مہاتما کی آواز پرلبیک کہنے والوں  کی بہت بڑی تعداد ہندوئوں  کی تھی، یہ ہندو ملک کی ہر سمت میں  موجود تھے۔ جنوب نے بھی مہاتما گاندھی کی  آواز سنی، کچھ د انشوروں  نے اس کو بھی نقل کیا ۔انہوں  نے الٹے سیدھے بلکہ زیاہ تر غلط حوالوں  سے یہ ثابت کر نا چاہا کہ ہندوئوں  کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ اس وقت تک ہندوتوا کا کہیں  دوردور تک پتہ نہیں  تھا۔ مہاتما گاندھی سے لے کر کانگریس کے لیڈروں  کو یہی لگنے لگا تھا کہ ان میں  ملک کے مسلمان بھی تھے ۔ مسلمان بھی اسی وجہ سےسب سے زیادہ متنفرتھا ، یہ وہ زمانہ تھا جب مولانا ابوالکلام جیسے مسلمان لیڈر دکھائی دیئے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آر ایس ایس اپنی ابتداء سے اِسی محدودطبقے کی ترجمانی کررہا ہے جو ملک کے عام ہندوؤں  سے الگ سوچ رکھتا ہے۔ مگر اس کی منو وادی سوچ ملک کے بہت بڑے طبقے کو منظور نہیں  ہے۔ بی جے پی اس کی سیاسی وِنگ ہے اور ہمیشہ اس کے ’’مارگ درشن‘‘ میں  آگے بڑھتی رہی ہے مگر نڈا کا یہ بیان بہت سوں  کو اُلجھا دے گا۔ ہماری رائے یہ ہے کہ بی جے پی آر ایس ایس سے اور آر ایس ایس بی جے پی سے الگ نہیں  ہوسکتا۔
 یہ مضمون جب آپ کے زیر نظر ہوگا تو ۲۰۲۴ ءکے عام انتخابات اپنے آخری مراحل میں  ہونگے۔ اب صرف چند سیٹوں  کا معاملہ رہ گیا ہے۔ نتائج کے منتظر افراد اپنی اپنی قیاس آرائیوں  میں  مصروف ہوں گے، ہم سمجھتے ہیں  کہ اس کے لئے صرف چند دنوں  کی بات رہ گئی ہے لیکن قیاس آرائی کرنے والوں  کے دل میں ا تنا ضبط کہاں ہوتا ہے۔ الیکشن خواہ وہ پنچایت کا ہو یا لوک سبھا کا،سب اپنی اپنی رائے رکھتے ہیں ۔ الیکشن میں  نبرد آزما ہر پارٹی خواہ کتنی ہی چھوٹی کیوں  نہ ہو اپنی ہار کا اعلان تو قطعی نہیں  کرتی۔ اس طرح آپ صرف پارٹی ہی نہیں  اپنی رائے پر اپنے امیدواروں  کی بھی ہار جیت پر قیاس آرائی کرسکتے ہیں لیکن کوئی باضابطہ رائے ۴ ؍ جون کے بعد ہی دے سکیں  گے، لیکن اس بار یہ معاملہ اتنا آسان نہیں  ہے۔ بی جے پی تو خیر سے ہر الیکشن میں  اپنی جیت ہی بتاتی رہتی ہے، ہر الیکشن میں  وہ اکثریت سے جیتنے کا دعویٰ کرتی ہے ، یہ اعلان کرنے والوں  میں  پہلا نمبر بی جے پی کے لیڈر امیت شاہ کا ہوتا ہے، اس بار بھی وہ اکثریت سے جیتنے کا اعلان کررہے تھے، شروع میں ان کا نعرہ شدت کا ہوتا تھا، لیکن پہلا مرحلہ پار کرتے ہی ان کے اس نعرے میں  زیادہ تیزی نہیں  رہ گئی ہے۔ اب یہ نعرہ لگاتے وقت ان کی آواز حلق میں  پھنسنے لگتی ہے، بی جے پی کے طرفداروں  میں  بھی اس گودی میڈیا کے علاوہ جس کے صفحات کے صفحات سرکاری اشتہاراور مودی کی تصاویر سے پُر  رہتے ہیں ،  آزاد میڈیا چاہے اس کی تعداد کتنی ہی کم کیوں  نہ ہو یہ نعرہ لگاتے وقت ان کاگلا کچھ زیادہ ہی رندھ جاتا ہے، ا س سے حقیقتوں  کا پتہ نہیں  چلتا۔ اس بار ’نڈا‘ کی آواز زیادہ جاندار اور دم والی لگتی ہے۔ کچھ لیڈر تو ایسے بھی ہیں  جو اپنی خوشی چھپا ہی نہیں  پاتے۔ مثال کے طور کیجریوال، انہوں  نے تو ضمانت پر جیل سے رہا ہوتے ہی بہ آوازِ بلند نعرہ لگایا کہ اس بار پانچویں  مرحلے کے بعد اس کے سیاسی محاذ کےپاس تین سو سے بھی زیادہ سیٹیں  ہوچکی ہیں ، یعنی معاملہ ڈیڑھ سو سیٹوں  کا رہ گیا ہے، اگر بی جے پی نہیں  جیت پاتی ہے تو اگلی بار بی جے پی نہیں  مودی جی اور صرف مودی جی وزیر اعظم نہیں  رہیں  گے۔ بالکل یہی نعرہ اکھلیش یادو اور ا ن سے بھی بڑھ کر ممتا بنرجی کا ہے، یہاں ایک بات یاد دلاتے چلیں  ،جب یہ انڈیا نہیں  بنا  تھا تو ان ہی دو لیڈروں  کے بارے میں  کہاجاتا تھا کہ یہ لوگ اس گٹھ بندھن میں  آئیں  گے بھی یا نہیں ۔نتیش کمار کی بات ذرا گول مول تھی۔ نتیش کمار تو باہر رہ گئے لیکن باقی دونوں  لیڈر اب پوری آب و تاب کے ساتھ ’انڈیا‘ کے ممبر ہیں ۔ یہی بات ظاہر ہے کہ کیجریوال کی ہے، یہ معلوم ہے کہ نریندر مودی انہیں  ذرا بھی پسند نہیں  کرتے ا ور کیجریوال تو ایک بار انہیں  ذہنی مریض بھی کہہ چکے ہیں ، کیجریوال نے دہلی سےسیاست شروع کی تھی پھر ریاستی چناؤ میں  انہوں  نے صحیح معنوں  میں  کانگریس کو دھول چٹادی تھی ۔بات یہ ہے کہ اس بار راہل گاندھی نے بھی کہا کہ مودی جی ۱۴۰ ؍سیٹوں  سے اوپر نہیں  جاپائیں  گے۔ راہل گاندھی جانتے ہیں  کہ ان کی کہی ہوئی کوئی بات سن کر ان کے وقار کو ٹھیس پہنچے گی۔ لیکن سب سے خوبصورت لائن کیجریوال نے کہی ، انہوں  نے کہا ہے کہ بی جے پی اوراس کی ساتھی پارٹیوں  کو نصف سیٹیں  بھی نہیں ملیں  گی۔ دیکھیں  کون سی بات صحیح ثابت ہوتی ہے۔ادھو ٹھاکرےبھی طنزیہ طو رپر حاضر ہوچکے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کی بس، ہسٹری شیٹروں  میں  گھری ہوئی ہے ، کچھ ہی دن کی بات ہے۔ ویسے بھی ہندوستان کے الیکشن بہت دلچسپ ہوتے ہیں  لیکن اس بار مودی دور کے دس سال راج کے دنوں  میں یہ الیکشن اور بھی دلچسپ ہوگئے ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK