Inquilab Logo Happiest Places to Work

مودی حکومت کی تیسری مدت کے پہلے سال میں ۶۰۲؍نفرت انگیزجرائم، ۳۴۵؍ نفرت انگیز تقاریر کے واقعات: رپورٹ

Updated: June 23, 2025, 5:02 PM IST | New Delhi

نفرت انگیز تقاریر کے تحت ریکارڈ کئے گئے کل ۳۴۵ واقعات میں سے ۱۷۸ تقاریر کا تعلق بی جے پی سے منسلک افراد سے تھا، جن میں وزیراعظم نریندر مودی، کئی وزرائے اعلیٰ اور ایک گورنر کے علاوہ دو جج بھی شامل ہیں۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

ملک میں نفرت انگیز جرائم کا جائزہ لینے والی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کے تیسرے دورِ اقتدار کے پہلے سال کے دوران نفرت انگیزی کے تقریباً ۹۵۰ واقعات ریکارڈ کئے گئے ہیں جن میں مذہبی اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کو تشدد اور نفرت انگیز تقریر کا سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا۔ ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس اور کوئل فاؤنڈیشن کی جانب سے مشترکہ طور پر مرتب کردہ رپورٹ میں ۷ جون ۲۰۲۴ء سے ۷ جون ۲۰۲۵ء تک نفرت انگیزی سے متعلقہ ۹۴۷ واقعات ریکارڈ کئے گئے۔ ان میں ۶۰۲ نفرت انگیز جرائم اور نفرت انگیز تقاریر کے ۳۴۵ واقعات شامل ہیں جن میں بیشتر، ملک کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ممبران یا اس سے وابستہ افراد سے منسلک ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: سیاست پرطنزیہ پوسٹ والا ’’دی ساولا وڑا‘‘ کا انسٹاگرام اکاؤنٹ ہندوستان میں بلاک

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے واقعات کی بڑھتی شدت اور تعداد کے باوجود، نفرت انگیز جرائم کو ریکارڈ یا دستاویز کرنے کی کوئی ادارہ جاتی کوشش نہیں کی جاتی ہے۔ اگرچہ دلتوں کے خلاف مظالم کو ہندوستانی قانون کے تحت ٹریک کیا جاتا ہے، لیکن مذہبی اقلیتوں کیلئے کوئی ایسی مشینری موجود نہیں ہے۔ ان واقعات سے مسلمان سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور ۱۴۶۰ مسلمانوں کو ۴۱۹ مختلف واقعات میں نفرت انگیزی کا نشانہ بنایا گیا۔ عیسائیوں کے ساتھ واقعات کی تعداد کم تھی، لیکن ۸۵ حملوں میں ۱۵۰۴ عیسائی متاثرین تھے۔ ان واقعات کے نتیجے میں کم از کم ۲۶ مسلمان ہلاک ہوئے اور ۱۷۳ واقعات میں جسمانی تشدد شامل تھا۔ 

اس دوران نفرت انگیز تقاریر میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کے تحت ریکارڈ کئے گئے کل ۳۴۵ واقعات میں سے ۱۷۸ تقاریر کا تعلق بی جے پی سے منسلک افراد سے تھا، جن میں وزیراعظم مودی اور کئی وزرائے اعلیٰ بھی شامل ہیں۔ اس کے تحت، دو ججوں اور ایک گورنر کے اشتعال انگیز تبصرے بھی رپورٹ کئے گئے جس کے بعد نفرت کے ادارہ جاتی سطح پر عام ہونے کے متعلق تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: ’’ہندوستان امن اور انسانیت کے ساتھ ہے‘‘

نفرت انگیز واقعات میں گائے کے ذبیحہ کے الزامات پر ہجومی حملوں سے لے کر مذہبی تہواروں کے دوران حملوں اور بین المذاہب جوڑوں اور مسلم کاروباریوں کے خلاف مہمات شامل ہیں۔ مارچ ۲۰۲۵ء میں، گرجا گھروں اور دعائیہ اجتماعات پر حملوں کی لہر کے دوران ۲۶۷ عیسائی متاثر ہوئے۔ ان واقعات میں بچوں اور معمر افراد کو بھی نہیں بخشا گیا۔ رپورٹ میں نابالغوں کے خلاف ۳۲ نفرت انگیز جرائم اور بزرگ شہریوں کے خلاف ۱۰ واقعات، جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے، رپورٹ کئے گئے۔ 

نفرت انگیز جرائم کے واقعات سے سب سے زیادہ متاثرہ ریاستوں کی فہرست میں اتر پردیش پہلے مقام پر ہے۔ اس کے بعد بالترتیب مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کا نمبر آتا ہے جن میں سے بیشتر بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستیں ہیں۔ رپورٹ میں اشارہ کیا گیا کہ انتخابی سرگرمیوں اور نفرت انگیز واقعات میں اضافے کے درمیان تعلق پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران اشتعال انگیز تقاریر اور تشدد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ایران اور غزہ پر خاموشی نہ صرف آواز بلکہ اصولوں کی بھی خود سپردگی: سونیا گاندھی

رپورٹ کے مطابق، صرف ۱۳ فیصد نفرت انگیز جرائم کے خلاف رسمی پولیس شکایات (ایف آئی آر) درج ہوئیں جو احتساب اور انصاف میں واضح خلاء کو اجاگر کرتی ہے۔ مصنفین نے بتایا کہ یہ اعداد و شمار ہندوستانی مسلمانوں کے بدتر ہوتے حالات اور فوجداری انصاف کے نظام میں تاخیر کی نشاندہی کرتے ہیں۔ رپورٹ میں بے لگام نفرت کے دیرپا سماجی نتائج سے خبردار کیا گیا ہے اور ہدف شدہ تشدد سے نمٹنے اور اسے ٹریک کرنے کیلئے ادارہ جاتی میکانزم کا مطالبہ کیا۔ رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ نفرت انگیز جرائم اور نفرت انگیز تقریر کبھی تنہائی میں نہیں ہوتے۔ وہ خاندانوں، کمیونٹیوں اور قوم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK