• Fri, 17 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

۱۰۰؍ سال پر آر ایس ایس کو کس طرح سمجھیں؟

Updated: September 21, 2025, 1:46 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

یہ تنظیم ہمیشہ سے متنازع رہی ہے۔ اس کی فکر اور فلسفے سے اختلاف کیا جاتا رہا ہے۔ آج بھی، جبکہ اس کے قیام کو ایک صدی مکمل ہوگئی ہے، اس کے نظریات بہتوں کیلئے اُلجھن کا سبب ہیں جس سے انکا رممکن نہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

آر ایس ایس اپنے قیام کے سو (۱۰۰) سال منا رہا ہے جس میں  اس کی سماجی، ثقافتی اور سیاسی کامیابیوں  کو شمار کیا جا رہا ہے۔ اس  تنظیم سے واقفیت رکھنے والے ایسے قارئین اس کالم سے مستفید ہوسکتے ہیں  جو اس کے نظریۂ ہندوتوا سے تو واقف ہیں  مگر یہ نہیں  جانتے کہ اس کی فکر اور فلسفہ کیا ہے۔
  سب سے طویل عرصے تک اپنی خدمات انجام دینے والے آر ایس ایس کے دوسرے سر سنگھ چالک  ایم ایس گولوالکر تھے جو  ۱۹۴۰ء تا ۱۹۷۳ء تک اس تنظیم کے سربراہ رہے۔ ان سے دو کتابیں  منسوب ہیں  جن میں  سے ایک ’’وی اینڈ اَور نیشن ڈیفائنڈ‘‘ (ہم اور ہمارے ملک کی توضـیح) ہے جبکہ دوسری ’’بنچ آف تھاٹس‘‘ (مٹھی بھر خیالات) ہے۔ اس کالم میں  ہم یہی جائزہ لیں  گے کہ اس کتاب میں  کن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ کتاب کسی تصنیفی عمل سے نہیں  گزری بلکہ موقع بہ موقع کی گئی گولوالکر کی تقریروں ، انٹرویوز اور ان کے اقتباسات کا مجموعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں  موضوع کے اعتبار سے تسلسل نہیں  ہے تب بھی اس کا مطالعہ کرنا یا جائزہ لینا کہ اس میں  کیا ہے اہمیت کا حامل ہے بالخصوص اُس وقت جب ہم کسی تنظیم کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہوں ۔ 
 گولوالکر کے بقول آر ایس ایس نے خود کو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نام دیا، ہندو سویم سیوک سنگھ نہیں  دیا۔ اس کا سبب یہ تھاکہ ’’راشٹر‘‘ کا معنی ہندو ہی ہوتا ہے اس لئے اسے مزید ہندو کہنا بےمعنی تھا۔ اس کیلئے اُنہوں  نے اولین سربراہ کیشو ہیڈگیوار کی رائے کا حوالہ دیا جس میں  کہا گیا تھا: ’’اگر ہم لفظ ہندو کا استعمال کریں  تو اس کا معنی خود کو اِس سرزمین پر آباد متعدد طبقات میں  سے ایک قرار دینا ہوگااور تب ہم اس ملک کے شہری کی حیثیت سے اپنی فطری حیثیت کو مستحکم نہیں  کرسکیں  گے۔‘‘ ساورکر کی ہندو مہا سبھا نے اُس وقت غلطی کی تھی جب اس نے یہ قرارداد منظور کی کہ کانگریس کو مسلم لیگ سے مذاکرات کرکے نیشنلسٹ کی اپنی حیثیت کو ترک نہیں  کرنا چاہئے، اس سے بہتر ہوگا کہ وہ ہندو مہا سبھا سے ایسا کرنے کو کہے۔ 
 بقول گولوالکر وفاقیت (جس کے تحت ریاستوں  کی اپنی حیثیت تسلیم کی جاتی ہے) مسئلہ تھی اور اس سے بچنے کا واحد طریقہ جرأتمندی کے ساتھ یہ اعلان کرنے میں  تھا کہ ہم آئین میں  ترمیم کے ذریعہ یک رُخی حکومت کا نظام قائم کریں  ۔ یہ بات وہ اس لئے کہتے تھے کہ اُن کا خیال تھا کہ ملک ایک ہے، عوام ایک ہیں  اس لئے ملک کی ایک ہی حکومت اور قانون سازی کیلئے بھی ایک ادارہ (لیجلسیچر) ہونا چاہئے جس کیلئے ضروری ہے کہ ہم ریاستوں  کی علت ہی نہ رکھیں ۔ جمہوریت کو قائم رکھنے کیلئے ملک میں  ایک مرکزی ادارۂ قانون سازی کافی ہوگا۔گولوالکر کا خیال تھا کہ پوری دُنیا میں  ہندوستان اس لئے خاص ہے کیونکہ اس نے وہ چیز پیش کی جو کوئی اور نہیں  کر سکتا تھا اور وہ ہندو ہونے کا نظریہ یا ’’ہندو فکر‘‘ ہے۔

یہ بھی پڑھئے : ’’اِس دیوار میں ایک دریچہ کافی ہے

 اُن کے خیال میں  یہ فکر روح کی نوعیت کے ادراک سے وابستہ ہے اور یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ صرف ہندوستان میں  ہی ایسا تھا کہ قدیم زمانے سے ہی لوگ انسانی فطرت کے اسرار یعنی `’’روح کی سائنس‘‘ تک پہنچنے کیلئے اٹھے تھے۔ گولوالکر کے بقول اہل ِ مغرب، مادے کی سائنس کو کتنا ہی سمجھتے ہوں ، روح کی سائنس سے ناواقف رہیں  گے۔ اُن کے مطابق یہ بصیرت ہندوستان کیلئے خاص تھی (مگر جب محسوس کیا گیا کہ) ہندو اپنی قدیم حکمت اور بصیرت سے عاری ہورہے ہیں  تو یہ آر ایس ایس کی ذمہ داری تھی کہ ہندو فکر کا احیاء اور ہندو سماج کو منظم کرے۔ گولوالکر کا نظریہ یہ بھی تھا کہ فرد کو اپنے آپ کو بڑی قوم میں  شامل کرنا چاہئے ورنہ سماجی تانے بانے تباہ ہو جائینگے۔ یہی وہ چیز تھی جسے ہندو فلسفہ نے فروغ دیا ۔
 گولوالکر کے مطابق حکمت و بصیرت پر مبنی علوم تمام ہندوؤں  کے پاس نہیں  بلکہ کچھ ہی ہیں  جو اس کے حامل ہیں  لہٰذا عام لوگوں  کو صحیح طریقے سے تعلیم دینے اور اُن کی فکر کو جِلا بخشنے کی فکر کرنی چاہئے۔ اگر اُنہیں  عام ڈھرے کی تعلیم تک محدود رکھا گیا تو اس کا فائدہ نہیں  ہوگا اور وہ اس خاص علم سے محروم رہیں  گے۔ اُن کے خیال میں  جمہوریت ناقص نظریہ ہے کیونکہ اس میں  الگ الگ مکاتب فکر کے دانشوروں  کو شامل نہیں  کیا جاتا، صرف سیاستدانوں  کو شامل کیا جاتا ہے۔ پنچایتیں  تبھی خوش عملی کا مظاہرہ کرتی ہیں  جب ان کا انتظام و انصرام طبقاتی نظام کے تحت ہوتا ہے۔ الیکشن کو مقابلہ جاتی انداز کا نہیں  ہونا چاہئے بلکہ اتفاق رائے سے لوگوں  کو منتخب کیا جانا چاہئے۔ [یہاں  اگر آپ نے محسوس کیا کہ یہ باتیں  الگ الگ موضوعات ہیں  تو یاد کیجئے مَیں  اس کی صراحت کرچکا ہوں  کہ یہ ’’مٹھی بھر خیالات‘‘ (بنچ آف تھاٹس) ہیں  جو اس نام کی کتاب میں  یکجا کئے گئے]۔
 آگے بھی آپ گولوالکر ہی کے خیالات کا مطالعہ کرینگے، مثلاً: ہندوستان سمندروں  سے لے کر ہمالیہ تک ایک قوم ہے۔ نہ صرف پہاڑوں  کے کنارے بلکہ ان سے آگے بھی، یہی وجہ ہے کہ قدیم لوگوں  کے پاس شمالی جانب یاترا کے مقامات (کیلاش مانسروور) ہیں ، جو ان خطوں  کو `ہماری زندہ سرحد بناتے ہیں ۔ تبت دیوتاؤں  کا مسکن ہے اور ہندوئیت کی مقدس کتابوں  میں  افغانستان، برما، ایران اور لنکا کا قبضہ بھی ملتا ہے۔ بھارت ماتا نے ہزاروں  سال پہلے ایران سے سنگاپور تک اور سری لنکا کو اپنے مقدس قدموں  میں  کمل کی پنکھڑی کے طور پر وجود بخشا اور اپنے بازوؤں  کو دو سمندروں  میں  ڈبو دیا تھا۔ بھومی پوجن اس لئے کیا گیا کہ پوری زمین مقدس تھی، لیکن بھارت ماتا سب سے مقدس تھی۔ اسے پوری لگن کی ضرورت تھی، نہ کہ عقل کے ذریعے مشغولیت کی۔ 
 تقسیم ناقابل قبول تھی کیونکہ یہ بھائیوں  کے درمیان جائیداد کی تقسیم نہیں  تھی۔ ہندو راشٹر کا تصور محض سیاسی اور معاشی حقوق کا مجموعہ نہیں ، یہ ثقافتی ہے نہ کہ سیاسی یا قانونی۔ عوام ہی خدا ہیں ، یہ پیغام ہمیں  اگلی نسلوں  سے ملا ہےمگر اُنہوں  نے تمام عوام کو اپنے لوگ نہیں  کہا۔ رام کرشن پرم ہنس اور وویکانند نے کہا کہ `انسان کی خدمت کرو، اُن کے نزدیک انسان کا معنی ہندو عوام ہے (ایسا گولوالکر نے کہا)۔ قدماء نے لفظ `ہندو استعمال نہیں  کیا بلکہ رگ وید میں  کہا گیا کہ سورج اور چاند اس کی آنکھیں  ہیں ، ستارے اور آسمان اس کی ناف سے پیدا ہوئے اور برہمن سر، ہاتھ بادشاہ، ویشیہ اور شودر پاؤں  ہیں ۔ ذات پات کے اس نظریہ کی پاسداری خدا کی خدمت ہے۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK