یہ پہلا موقع ہے کہ ’’ٹرمپ پمپ‘‘ میں اگرچہ بہت کچھ پوچھ رہا ہوں لیکن یہ اچھی بات ہے کہ مستقبل کی آزادانہ طور پر قیام کو مسترد نہیں کیا گیا۔ حکومت کے ۲۰؍ نکاتی امن رضاکار ترکی پر اردوان کے صدر نے کہا لیکن اس کو مفاہمت کی نئی کھڑکی بھی قرار دے دی۔
۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام کے ساتھ جو جنگ شروع ہوئی تھی وہ اب تک کئی بھیانک روپ لے چکی ہے۔ گزشتہ دو سال میں تو کم از کم ۶۷؍ ہزار فلسطینی یا غزہ کے باشندے مارے جا چکے ہیں ۔ اوسلو مفاہمت، انا پولیس کانفرنس، اقوام متحدہ کی تائید سے کی جانے والی جنگ بندی وغیرہ کے ذریعہ امن قائم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی لیکن ہر مرتبہ یہ کوشش کسی نہ کسی وجہ سے ناکام رہی۔ اہم وجہ یہ تھی کہ اسرائیل اپنے تحفظ کی بات کرتا تھا اور غزہ کے لوگ اپنی زمین پر اسرائیل کے تسلط کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے۔ ابرھم مفاہمت کے ذریعہ ٹرمپ انتظامیہ نے ۲۰۲۰ء میں ہی متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کو راضی کر لیا تھا کہ وہ اسرائیل سے اپنے تعلقات معمول پر لائیں ۔ معاہدے اور مفاہمت کے لئے جو بھی پیش قدمی کی گئی اس سے غزہ اور فلسطینیوں کو الگ بھی رکھا گیا اس لئے ان میں عدم اعتماد پیدا ہوتا رہا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ’ٹرمپ منصوبے‘ میں اگرچہ بہت کچھ وضاحت طلب ہے مگر اچھی بات یہ ہے کہ مستقبل کی آزاد فلسطینی مملکت کے قیام کو مسترد نہیں کیا گیا ہے۔ ٹرمپ کے ۲۰؍ نکاتی امن منصوبے پر ترکی (ترکیے) کے صدر اردوان یا اردگان نے اعتراض کیا ہے مگر اس کو مفاہمت کی نئی کھڑکی بھی قرار دیا ہے۔ حماس نے بھی اس مفاہمت کے منصوبے پر مشروط آمادگی ظاہر کی ہے۔ جرمنی، فرانس اور یورپی یونین نے امن منصوبے کا استقبال تو کیا ہے مگر یہ انتباہ بھی دیا ہے کہ مستقل امن اسی صورت میں قائم ہوگا جب ۱۹۶۷ء کی سرحدوں اور عالمی قوانین کا احترام کیا جائے۔ اسی طرح ٹرمپ کے امن منصوبے کے متعلق امید اور اندیشے دونوں ظاہر کئے جا رہے ہیں ۔
راقم الحروف امن اور مملکت فلسطین کے قیام سے ناامید تو نہیں ہے مگر اس کے ذہن میں سوال ہے کہ کیا ’حماس‘ جس کے میدان جنگ میں اترنے اور غاصبوں کی نیند حرام کرنے کے سبب اسرائیل غزہ سے اپنی فوجیں واپس بلانے پر رضامند ہوا، کو قطعی نظرانداز کرکے یا مملکت فلسطین کی حکومت سے دور رکھ کر غزہ اور فلسطین میں امن قائم کیا جاسکتا ہے؟ شاید نہیں ۔ عرب، یورپی ممالک اور امریکہ غزہ کے باشندوں کا نام لے رہے ہیں تو اس جنگ اور مزاحمت کے سبب جو ایران، چین، روس کی مدد سے حماس نے چھیڑی تھی اور اس جنگ کو تقویت اور غزہ کے عوام کو کسی حد تک راحت سعودی عرب کی دولت نے پہنچائی تھی۔ ’حماس‘ یا اس کی پشت پناہ طاقتوں کو ہی دودھ کی مکھی کی طرح نکال پھینکنے کا کیا مطلب ہے؟ کیا اس طرح فلسطین یا غزہ میں امن قائم کیا جاسکتا ہے؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصر میں جو گفتگو کی جا رہی ہے وہ اس لئے نہیں کہ غزہ کے باشندوں کو راحت پہنچانا اور ان کی دربدری یا بھکمری دور کرنا ہے بلکہ اس لئے ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے حکمرانوں کو دربدر یا معزول ہونے سے بچایا جاسکے۔ یہ تو اچھی بات ہے کہ غزہ میں جنگ بند ہو، غزہ کے باشندوں کا قتل عام ختم ہو مگر اس کے لئے اسرائیل کی فوجوں کی غزہ سے نامکمل واپسی کیوں ہو؟ اسرائیلی فوج کے آخری شخص کو بھی غزہ سے کیوں نہ بلایا جائے؟
دوسری بات یہ ہے کہ جب قیام مملکت فلسطین کی بات چل رہی ہے اور دنیا کے بیشتر ملکوں نے اس کو تسلیم بھی کر لیا ہے اور تسلیم کرنے والوں میں چین، روس، برطانیہ، فرانس.... بھی ہیں جنہیں ویٹو کرنے کا حق حاصل ہے تو غزہ کا انتظام ایک غیر مستقل حکومت کے ماتحت کیوں ہو جو خود Board of Peace کے ماتحت ہوگی اور اس بورڈ کو وہی طاقتیں سنبھالیں گی جنہوں نے غزہ میں قتل عام کرایا ہے یا مسئلۂ فلسطین کو الجھاتی رہی ہیں اس لئے محسوس تو یہ ہوتا ہے کہ سارا معاملہ ’’نیا جال لائے پرانے شکاری‘ جیسا ہے۔ امریکہ اگر مخلص ہوتا تو غزہ کے باشندوں کو غزہ کا قبضہ دلانے کے ساتھ مملکت ِ فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتا۔ اس وقت جبکہ غزہ کے باشندے اپنے گھروں کو واپس آرہے ہیں یہی نہیں کہ یہاں کچھ بھی بچا نہیں ہے یہاں کے ۹۶؍ فیصد خاندانوں کو پینے کے لئے پانی بھی میسر نہیں ہے۔ تین لاکھ مکانات ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے ہیں اور ان کے نیچے سے انسانی باقیات برآمد ہو رہی ہیں ۔ بارود بچھے ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ تباہ مکانات یا عمارتوں میں ۶۷۰؍ اسکول اور ۱۶۵؍ دیگر تعلیمی ادارے ہیں ۔ زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ ۷۰؍ ہزار یا اس سے بھی زیادہ ہے جن میں ہزاروں کو طویل طبی امداد یا دیر تک چلنے والے علاج کی ضرورت ہے۔ ۳۸؍ اسپتال اور درجنوں طبی مراکز بھی تباہ ہوکر اپنا وجود کھو چکے ہیں ۔ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں ۔ فرانس کے وزیر خارجہ جین نوئل بارو نے غزہ معاہدے کو بین الاقوامی تحفظ عطا کرنے اور اس کے نفاذ کی نگرانی کے لئے بین الاقوامی فورسیز کو شامل کرنے پر اصرار کیا ہے۔ فلسطین کی امدادی تنظیم کے سربراہ کا کہنا ہے کہ بے گھر فلسطینیوں کو عارضی طور پر ٹھہرانے کے لئے کم از کم تین لاکھ خیموں کے نصب کئے جانے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے برائے حق ِ رہائش کے نمائندہ بالا کرشنن راج گوپال نے تو بیان دیا ہے یا مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو غزہ میں عارضی رہائش کے لئے خیمے اور دیگر سامان بھیجنے کے لئے اجازت دینے کی ضرورت ہے۔ آسٹریلیا اور انڈونیشیا میں مظاہرے ہو رہے ہیں ۔ اچھا ہوتا کہ غزہ کے باشندوں کی باز آبادکاری کا کام مملکت ِ فلسطین کی نگرانی میں کیا جاتا۔
راقم الحروف کو خوشی ہے کہ غزہ کے باشندے اس زمین پر لوٹ رہے ہیں جہاں کبھی ان کا گھر تھا۔ فلسطین اور اسرائیل کے قیدیوں کی رہائی کی بھی خوشی ہے مگر یہ سوال بھی ہے کہ ’مروان‘ کو کیوں نہیں چھوڑا گیا جو حماس کے لیڈروں میں ہے اور اس وقت اسرائیل کی قید میں ہے۔ جب دنیا کے بیشتر ممالک کہہ رہے ہیں کہ ’’ہم فلسطین کو آزاد مملکت تسلیم کرتے ہیں یا کر لیں گے‘‘ تو شرم الشيخ (مصر) میں ۲۰؍ سے زائد سربراہان مملکت کے جمع ہونے کے منصوبے کو بھی سمجھنا پڑے گا۔ شاید ٹرمپ نے یہ قدم اس لئے اٹھایا ہے کہ نئی مملکت ِ فلسطین نہ قائم ہو اور غزہ کے باشندوں کو پُرامن باز آباد کاری کا جھانسہ دے کر اسرائیل کے ہی رحم و کرم پر رہنے پر مجبور کیا جائے۔ ٹرمپ منصوبے کے ناکام ہونے کے کئی اسباب ہیں :
(۱)قابض اسرائیلی افواج کے مسلح ڈرون اب بھی غزہ میں بمباری اور قتل عام کر رہے ہیں ۔
(۲)وہائٹ ہاؤس سے جاری اعلامیہ میں دو ریاستی حل کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
(۳)حماس نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا ہے۔
(۴)اسرائیل نے غزہ سے مکمل انخلاء کی ضمانت نہیں دی ہے۔