Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہندوستان کا منتر ہو سوچا سمجھا ردِعمل

Updated: May 10, 2025, 4:01 PM IST | Syed Ata Hasnain | Mumbai

پہلگام حملے کے بعد ہندوستان نے ’’آپریشن سیندور‘‘ کے تحت پاکستان میں موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔ جواباً پاکستان نےکشیدگی کا انتخاب کیا۔ ایسے میں ہندوستان کا ہر قدم نپا تُلا ہونا چاہئے۔ ہندوستان کو اب ہر میدان میں پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈالنا ہوگا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

صنف اور مذہب کی بنیاد پر بے گناہوں کو قتل کرنے والے پہلگام حملے کے بعد یہ ظاہر ہوگیا کہ ہندوستان کی برداشت کی حد اب ختم ہوگئی ہے۔ حملے کے فوراً بعد حکومت ہند نے کابینہ کمیٹی برائے سیکوریٹی (سی سی ایس) کا اجلاس طلب کیا جس میں پاکستان کو سزا دینے کے سیاسی، سفارتی اور اقتصادی متبادلات پر غور کیا گیا۔ ۲۲؍  اپریل سے ۷؍ مئی تک کی مدت میں مسلح افواج نے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جن میں ضروری انٹیلی جنس حاصل کرنے، کارروائی کا آغاز اور جوابی کارروائی پر ردعمل قابل ذکر ہیں۔ فوجی کسی بھی کارروائی کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں لیکن کسی آپریشن کو انجام دینے کیلئے فوری طور پر ردعمل کا اظہار نہیں کیا جاسکتا، خاص طور پر جس میں انتقام ایک بڑا عنصر ہو۔ مشن انجام دینا وقت کا تقاضا تھا اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہندوستان ایک ذمہ دار ملک ہے اور اپنا دفاع آپ کرسکتا ہے۔ 
 آپریشن سیندور اس آپریشن کا موزوں ترین نام ہے جسے اس لئے ڈیزائن کیا گیا تھا کہ یہ بغیر کسی جنگ کے ہندوستان کے تسلط کو بڑھانے کی صلاحیت کو ظاہر کرے۔ اپنی ابھرتی ہوئی عالمی طاقت کے ساتھ ہندوستان نے اپنے دفاع کے ایک جائز عمل کے طور پر حملے کے بعد کے بیانیے کو تشکیل دینے کیلئے پیشگی عالمی سفارتی رسائی کو بھی یقینی بنایا۔ اس پورے آپریشن کو مختلف زاویوں سے دیکھنا ضروری ہے جو اَب تک اسٹریٹجک لحاظ سے اہم نہیں سمجھے جاتے تھے۔ آپریشن کا نام ’’سیندور‘‘ ہندوستانی ثقافت میں پیشانی پر ایک مقدس نشان کی علامت ہے، جو اکثر شہادت، عزم اور تقدس سے منسلک ہے۔ یہ ایک مقدس ’’سرخ لکیر‘‘ ہے، جس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ فیصلہ کن جوابی کارروائی کی دعوت دیتی ہے۔ 
 ۹؍ اہداف کے انتخاب اور ان کو نشانہ بنانے کے ذرائع پر توجہ مرکوز کرنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہندوستانی فوج اور ہندوستانی فضائیہ کی خواتین افسران کو سیکریٹری خارجہ کے پینل پر بیٹھنے اور آپریشن کی تفصیل سے وضاحت کرنے کیلئے کیوں منتخب کیا گیا تھا۔ ہندوستان کے بیشتر افراد کی ذہن سازی اسمارٹ فونز کی اسکرینوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ مگر آپریشن کی بریفنگ ہندوستان کی جدید، جامع اور قابل مسلح افواج پر مرکوز تھی۔ اس نے فوج میں مردوں کے تسلط کے بارے میں دقیانوسی تصورات کا مقابلہ کیا۔ قومی سلامتی کے کرداروں میں ’ناری شکتی‘ نظر آئی تاکہ اسے اس سانحہ سے بھی جوڑا جا سکے جو ان بدقسمت خواتین کے ساتھ پیش آیا جنہوں نے پہلگام حملے میں اپنے شوہروں کو کھو دیا تھا۔ یہ عورت کی طاقت کے ذریعہ انتقام کی علامت ہے۔ اس نے ہمارے مخالف کے ساتھ نظریاتی تضاد کو بھی اجاگر کیا، جو رجعت پسند اور بنیاد پرست صنفی کرداروں کو فروغ دیتا ہے۔ اس آپریشن نے ہندوستانی مسلح افواج کی اگلی نسل میں تبدیلی کا مظاہرہ کیا۔ ۲۰۱۶ء میں ہندوستان نے پاکستان کے خلاف جو سرجیکل اسٹرائیکس کیں وہ زمینی تھیں جن میں دہشت گردوں کے کیمپوں یا اڈوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ۲۰۱۹ء میں بالاکوٹ آپریشن، خیبرپختونخوا (کے پی کے) میں ایک ہی ہدف پر مرکوز تھا، لیکن اس نے پاکستانی فضائی مداخلت میں اضافہ کیا، جس کا ہمارے لئے منفی نتیجہ نکلا۔ 
 ان کے برعکس آپریشن سیندور میں ہماری نگاہ ۷۰۰؍ کلومیٹر پر مرکوز تھی جس میں بہاولپور، مریدکے اور سیالکوٹ میں دہشت گردی کے ہائی پروفائل مراکز شامل تھے۔ بہاولپور، جیش کا ہیڈکوارٹرز ہے۔ مسعود اظہر کے نیٹ ورک اور اسے پناہ دینے والی پاکستانی حکومت کو پیغام بھیجنا اہم تھا، پھر چاہے پہلگام حملے میں جیش کی شمولیت کے ثبوت ہوں یا نہ ہوں۔ اسی طرح مریدکے لشکر طیبہ کا ایک مشہور گڑھ ہے۔ یہ شہری علاقوں سے دور ہے اسلئے ہندوستان نے اسے نشانہ بنایا۔ یہ حافظ سعید کے نیٹ ورک کو کمزور کرتا ہے۔ 
 سیالکوٹ، جموں کی سرحد کے قریب ایک فوجی صنعتی شہر ہے۔ یہ پاکستانی اسٹرائیک فارمیشنز، سپلائی ڈپو اور فارورڈ کمانڈ ڈھانچے کا مرکز ہے۔ یہ جنوری ۲۰۱۶ء میں پٹھان کوٹ حملے کا لانچ پیڈ تھا۔ پاکستانی فوج کے مختلف فارمیشن ہیڈ کوارٹرز سے ان مراکز/مقاصد کی قربت ایک واضح پیغام دیتی ہے کہ اگر اشتعال انگیزی کی گئی تو ہندوستان ان کو بھی نشانہ بنائے گا۔ یہ مقامات پاکستان کے دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے میں نہ صرف نمایاں نشانیاں تھے بلکہ یہ پنجاب کے قلب میں بھی واقع تھے، جسے روایتی طور پر پاکستان کا مرکزِ ثقل اور ملک کا غلہ سمجھا جاتا ہے۔ 
 ۲۰۱۹ء ہی کی طرح پاکستان کی جانب سے اس بار بھی ردعمل کا مظاہرہ متوقع تھا۔ تاہم، پاکستان نے جموں کشمیر سے گجرات تک واقع ۱۵؍ ہندوستانی ہوائی اڈوں اور فوجی اڈوں کو نشانہ بنانے والے میزائل اور ڈرون حملے کے ساتھ پیش قدمی کا انتخاب کیا۔ ہندوستان کے کاؤنٹر یو اے ایس کے نیٹ ورک اور فضائی دفاعی وسائل بشمول ہائی پروفائل ایس ۴۰۰؍ ایئر ڈیفنس سسٹم سے پاکستان کے تمام فضائی حملوں کو روک لیا۔ ہندوستان نے لاہور اور راولپنڈی دونوں کے فضائی دفاعی ریڈار پر حملے کا جواب دیا اور شہریوں کے جانی نقصان کے بغیر ایک بار پھر اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کیلئے میزائل داغے۔ معروف چینی جدید ریڈار سسٹم کو بے اثر کرنے کے بعد، اب ان اہم شہروں کے فضائی دفاع میں بڑے سوراخ ہیں۔ 
 تیزی سے بدلتے ہوئے اور متحرک ماحول میں پاکستان نے ۸؍ اور ۹؍ مئی کی درمیانی رات کو شمالی اور مغربی ہندوستان کے منتخب ہوائی اڈوں اور دیگر علاقوں پر حملہ کرنے کا انتخاب کیا۔ ان کو ایک بار پھر بغیر کسی نقصان کے روک دیا گیا۔ گیند اب پاکستان کے کورٹ میں ہے، جو صورتحال کو مزید بگڑنے سے بچانے کا انتخاب کرسکتا ہے یا پھر حملوں کا نیا چکر شروع کرسکتا ہے۔ ان حملوں کا بحری اور بری آپریشنز میں تبدیل ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ ایسے میں صورتحال تیزی سے بگڑ سکتی ہے اور بین الاقوامی ثالثی کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ 
 ہمیں سب سے زیادہ ایل او سی کے ساتھ جموں میں بین الاقوامی سرحد کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت ہے۔ یہاں گولوں اور گولیوں کا تبادلہ خیالی یا معمول نہیں ہے۔ پاکستان شہری علاقوں کو نشانہ بنانے کا شیطانی کام کررہا ہے۔ ہندوستان یہ قبول نہیں کر سکتا۔ ہماری حکمت عملی میں شہری علاقوں کو نشانہ بنانا شامل نہیں ہے۔ ہمیں ایل او سی کی فائرنگ کو مناسب طریقے سے بے اثر کرنا ہو گا۔ اس مزاحمت کو برقرار رکھنے کیلئے پاکستان کے پاس توانائی کے دیرپا وسائل نہیں ہیں۔ یہ ایک ناکام کھیل ہے جو پاکستان کھیلتا رہتا ہے۔ فی الوقت، ہندوستان کو ہر میدان میں پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈالنا ہوگا تاکہ وہ اس خطرناک محاذ آرائی سے پیچھے ہٹ جائے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK