Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا ڈومس ڈے کلاک کسی کو متنبہ کررہی ہے؟

Updated: June 11, 2025, 1:30 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

اس گھڑی کے ذریعہ دنیا بھر کے ایٹمی سائنسداں خطروں کو دیکھتے ہوئے۱۹۴۷ء سے یہ بتا رہے ہیں کہ دنیا بڑی تباہی کے خطرہ سے کتنی دور ہے۔ مگر عالمی سیاستداں اس نشاندہی پر توجہ نہیں دیتے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

ڈومس  ڈے ایسی علامتی گھڑی (واچ، کلاک)  ہے جو عوام کو خبردار کرنے کیلئے بنائی گئی ہے کہ انسان خطرناک ٹیکنالوجیز سے دُنیا کی تباہی کے کتنا قریب ہے۔ ماہرین کی طرف سے گھڑی کا وقت اس بات کی عکاسی کیلئے مقرر کیا گیا ہے کہ ہم فنا (آدھی رات) سے کتنے دور ہیں ۔ اگر یہ اندازہ درست ہے تو سمجھ لیجئے کہ اس وقت ہم، اس مبینہ اور ممکنہ تباہی سے سب سے زیادہ قریب ہیں ۔
 یہ گھڑی ہندوستان کی آزادی کے سال ۱۹۴۷ء میں  تیار کی گئی  تھی جب دُنیا کو جوہری ہتھیاروں  کا بڑا خطرہ تھا کیونکہ اس سے صرف دو سال قبل ناگاساکی اور ہیروشیما پر بم گرائے گئے تھے اور سوویت یونین جوہری اسلحہ کی تیاری میں  مصروف (مبتلا) تھا۔ سوویت نے جوہری صلاحیت ۱۹۴۹ء میں  حاصل کی، اس کے بعد برطانیہ نے ۱۹۵۲ء میں ، فرانس نے ۱۹۶۰ء میں  اور پھر چین نے ۱۹۶۴ء میں ۔ ہندوستان نے نیوکلیائی تجربہ ۱۹۷۴ء میں  کیا اور ۱۹۹۰ء کی دہائی میں  پاکستان نے بھی اپنی صلاحیت کا اظہار کیا۔ اسرائیل اور شمالی کوریا کے پاس نیوکلیائی اسلحہ ہے اس کا شبہ سب کو ہے جبکہ ایران اس صلاحیت کے حصول کی شدومد سے کوشش کررہا ہے۔ 
 ۱۹۹۰ء کی دہائی میں ، جب میں  ریاستہائے متحدہ امریکہ میں  طالب علموں  میں  شامل تھا، تب ’’ اسٹریٹجک ڈیفنس انیشی ایٹو‘‘ موضوع بحث تھا جسے حرف عام میں ’’ اسٹار وار‘‘ کا نام دیا جاتا تھا۔ اس کے تحت رونالڈ ریگن انتظامیہ ایک ایسا نظام تیار کر رہی تھی جس کی مدد سے امریکہ اپنی جارحانہ صلاحیت کو برقرار رکھتے ہوئے آنے والے میزائلوں  کو مار گرائیگا۔ اس نے غالباً قیامت کی گھڑی کو آگے کر دیا۔مگر جب سوویت یونین منتشر ہوگیا اور اس کی بالادستی ختم ہوگئی تب ماہرین نے ڈومس ڈے کلاک کو ۱۷؍ منٹ پیچھے کردیا۔ یہ ۱۹۹۱ء کی بات ہے۔ غالباً یہ پہلا اور اب تک کا واحد موقع تھا جب اس گھڑی کو اتنا زیادہ پیچھے کیا گیا۔ پیچھے کرنے کا معنی یہ تھا کہ جوہری ہتھیاروں  کا خطرہ کافی حد تک ٹل گیا ہے۔ کم از کم متعلقہ خبروں  سے تو یہی تاثر ملا۔ اس وقت بہت سی رپورٹیں ، تجزیے، سول سوسائٹی گروپس (جیسے پگواش) تھے اور جوہری اسلحہ کے خطرات پر خاصے مباحثے ہورہے تھے۔ آج جبکہ اس پر زیادہ گفتگو ہونی چاہئے، اُتنی نہیں  ہے جتنی کہ اُس دور میں  تھی۔ 
 واضح رہے کہ اس کلاک کو سیٹ (وقت آگے پیچھے) کرنے پر ۱۸؍ افراد مامور ہیں  جن میں  سے تین کا تعلق جنوبی ایشیاء سے ہے ۔ ان میں  سے ایک دہلی آئی آئی کے پروفیسر ہیں ۔ 
 دو دہائی قبل، ڈومس ڈے کلاک میں  موسمی تبدیلی سمیت دیگر خطرات شامل ہونا شروع ہو گئے تھے اور اب اس میں  مصنوعی ذہانت کی طرح مزید نئے خطرات کو بھی شامل کیا جانا ہے۔ انسان اپنے آپ کو تباہ کرنے کیلئے ہر طرح کے نئے طریقے ایجاد کرتا جا رہا ہے اور کسی طور رُکنے کا نام نہیں  لیتا۔ اس سال کے آغاز میں ، ۲۸؍ جنوری کو اس نے یہ نتیجہ اخذ کرنے کیلئے درج ذیل جواز پوسٹ کیا کہ  ۲۰۲۵ء میں  ہم ۱۹۴۷ء کے مقابلے میں  تباہی یا فنا کے زیادہ قریب ہوچکے ہیں : ’’پہلے سے زیادہ قریب: اب آدھی رات سے ۸۹؍ سیکنڈ کا وقت ہے۔ ۲۰۲۴ء میں ، انسانیت تباہی کے بہت قریب پہنچ گئی ہے۔ سائنس اور سیکیورٹی بورڈ کو گہری تشویش میں  مبتلا کرنے والے رجحانات جاری رہے اور خطرے کی غیر واضح علامات کے باوجود، عالمی لیڈران اور ان کے ممالک وہ کام کرنے میں  ناکام رہے جو ازحد ضروری ہیں  تاکہ انسانیت کی حفاظت یقینی ہو۔ اسی لئے ہم اس گھڑی کو ۹۰؍ سیکنڈ سے ۸۹؍ سیکنڈ پر سیٹ کررہے ہیں ، اس سے پہلے یہ گھڑی کبھی ۸۹؍ سیکنڈ پر نہیں  رہی، یہ تباہی کے سب سے قریب ہے۔ ہم اُمید کرتے ہیں  کہ عالمی لیڈران دنیا کی وجودی حالت کو تسلیم کرینگے اور جوہری ہتھیاروں ، موسمی تبدیلیوں  اور حیاتیاتی سائنس کے ممکنہ غلط استعمال اور ٹیکنالوجی کے بڑھتے اثرات سے لاحق خطرات کو کم کرنے کیلئے جرات مندانہ اقدام کرینگے۔‘‘
 جنوری میں  اس دن کے بعد سے بہت کچھ ہو چکا ہے۔ روسی فضائی اڈوں  پر ڈرون حملہ، اس کے سب سے قیمتی فضائی اثاثوں  کا اتلاف جس نے یوکرین کی جنگ کو بڑھا دیا۔ غزہ میں  اسرائیلی نسل کشی جاری ہے۔ حکومت ِ اسرائیل نے فلسطینیوں  کو بھکمری کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے، لبنان اور یمن کے حالات کسی سے مخفی نہیں ،  امریکہ ایک لا اُبالی اور مضطرب مزاج لیڈر کی سرپرستی میں  آگیا ہے، اسی طرح تجارت سے لے کر تائیوان تک کے معاملات پر امریکہ نے چین کے خلاف جو تناؤ پیدا کیا ہے اس میں  اضافہ ہوا ہے۔ اور یقیناً چند ہفتے پہلے ہی ہندوستان ایک ایسے تنازعے میں  اُلجھا تھا جس کے بارے میں  امریکی صدر بار بار دعویٰ کرتے تھے کہ ایٹمی حملے کا خطرہ ہے۔ تکنالوجی کے خطرات کے ساتھ ساتھ ہمیں  موسمی تبدیلی اور مصنوعی ذہانت (یہ بھی تکنالوجی ہی کا حصہ ہے) کے اثرات کو ممکنہ اور زبردست خطرات میں  شامل کرنا چاہیے۔ یہ چیزیں  اتنی تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہیں  کہ خطرہ کتنا قریب ہے، یا خطرے کی نوعیت کیسی ہوگی، اس کا حقیقی اندازہ نہیں  ہے۔ ٹیکنالوجی کے قریب ترین لوگ سب سے زیادہ فکرمند او ر سب سے زیادہ خوفزدہ ہیں ۔

یہ بھی پڑھئے : دھڑکنیں سو گئیں، راہ خاموش ہے، شہر ویراں ہوئے

 یاد رکھنا چاہئے کہ الگ الگ ممالک جو نیوکلیائی تجربہ کرتے ہیں  یا اسلحہ بناتے یا بنانے کی تیاری کرتے ہیں  وہ وہاں  کی حکومت کے زیر اثر ہوتے ہیں ، یہاں  امریکہ اور چین کے کارپوریٹ سیکٹرز میں  ایک دوڑ لگی ہوئی ہے، اس پر قابو پانا ممکن نہیں  ہے۔ ہم جان لیں  گے کہ آخر نتیجہ تباہی ہے یا طوفان، دونوں  میں  سے کون سی مصیبت کب آئیگی یہ کہنا مشکل ہے مگر انسان دونوں  کا آنا یقینی بناتا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلانے میں  اور ڈرون جیسی فوجی ایپلی کیشنز میں  مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا کردار ہمیں  پہلے ہی یہ اشارے دیتا ہے کہ برائی کا امکان زیادہ ہے، اچھائی کا کم۔
 نوٹ کریں  کہ ہم نے ایک اور وباء کے پھیلنے کے امکان پر بات نہیں  کی ہے۔ وہ افراتفری اور ہنگامہ جو کہ مٹھی بھر کھرب پتیوں  اور اربوں  غریبوں  پر مشتمل دنیا میں  جلد ہی آئیگا ہم نے اس کی بھی بات نہیں  کی ہے کیونکہ یہ مسائل تو اپنی جگہ ہیں  ہی، دُنیا کی تباہی کا مسئلہ بالکل دوسرا ہے۔ کاش انسان کو عقل آجائے اور وہ باز رہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK