جنگیں تباہ کن ہوتی ہیں مگر جنگوں کے خلاف عوامی مزاحمت بہت معمولی ہے، دکھائی اور سنائی نہیں دیتی۔ فنکار اپنے انداز میں شد و مد سے احتجاج کرتے ہیں مگر فن کو کتنی اہمیت دیتے ہیں؟
EPAPER
Updated: June 08, 2025, 2:02 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
جنگیں تباہ کن ہوتی ہیں مگر جنگوں کے خلاف عوامی مزاحمت بہت معمولی ہے، دکھائی اور سنائی نہیں دیتی۔ فنکار اپنے انداز میں شد و مد سے احتجاج کرتے ہیں مگر فن کو کتنی اہمیت دیتے ہیں؟
محمد علوی نہایت سادگی اور معصومیت کے ساتھ بڑی گہری باتیں کہنے والے شاعر ہیں جن کے انتقال کو آٹھ برس گزر چکے ہیں ۔ جتنی اچھی غزلیں کہتے تھے اُتنی ہی عمدہ نظمیں ۔ اس وقت اُن کی ایک چھوٹی سی، بہت مختصر چار مصرعوں کی نظم یاد آرہی ہے جو اُن کے اولین شعری مجموعہ ’’خالی مکان‘‘ میں شامل ہے۔ کہتے ہیں :
ایک زنگ آلودہ / توپ کے دہانے پر
ننھی منی چڑیا نے/ گھونسلہ بنایا ہے!
جیسا کہ ظاہر ہے، شاعر نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ انسان چاہے تو توپ بنائے اور چاہے تو میزائل یا بمبار طیارے، سلسلۂ تخلیق جاری رہتا ہے اور زندگی آگے بڑھتی رہتی ہے۔ مگر انہی مصرعوں میں ایک معصومانہ خواہش بھی چھپی ہوئی ہے جس کا تعلق امن سے ہے۔ توپ جنگ کیلئے ہے مگر چڑیا امن کا استعارہ ہے۔ شاعر اُمید کرتا ہے کہ دُنیا میں جتنی توپیں ہیں سب زنگ آلودہ ہوجائیں ، جنگ کیلئے قابل استعمال نہ رہیں تاکہ اُمید برقرار رہے، زندگی سلامت رہے، امن جاوداں ہو اور چڑیوں کے گھونسلے آباد رہیں ۔ شاعر بندوق چھین کر ہاتھوں میں پھول دینا چاہتا تھا۔
یہی خواہش ہر فنکار کی ہوتی ہے کیونکہ وہ محبتوں کا سفیر ہوتا ہے خواہ وہ ہندوستان میں ہو یا دُنیا کے کسی اور ملک میں ۔ فنون لطیفہ تخلیق کرنے والے ہمیشہ امن و محبت کی تمنا کرتے ہیں لہٰذا ہر فنکار کسی نہ کسی انداز میں جنگ کی مخالفت کرتا ہے اور اس ضمن میں سوجھ بوجھ رکھنے والوں کی خاموشی کیخلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے۔ اس کی مثال امریکی شاعر کارل سینڈبرگ کی نظم ’’گھاس‘‘ہے:
آسٹرلز ہو یا واٹر لو‘/ لاشوں کا اونچے سے اونچا ڈھیر ہو، دفنا دو،
اور مجھے اپنا کام کرنے دو؟ مَیں گھاس ہوں ،سب کو ڈھک لوں گی
جنگ کا میدان چھوٹا ہو یا بڑا/ جنگ نئی ہو یا پرانی
ڈھیر اونچے سے اونچا ہو/ تاکہ مجھے موقع ملتا رہے
دو برس، دس برس اور پھر..... اُدھر سے
گزرنے والی بس کے مسافر پوچھیں گے:
یہ کون سی جگہ ہے؟ ہم کہاں سے گزر رہے ہیں ؟
یہ گھاس کا میدان کیسا ہے؟
مَیں گھاس ہوں ، سب کو ڈھک لوں گی!
شاعر کی نظر میں جنگ کی تباہ کاریوں سے واقف اور اس کیلئے دل ہی دل میں کڑھنے مگر خاموش رہنے والے لوگ اُس گھاس کی مانند ہیں جو سب کچھ ڈھک لیتی ہے، ہر گناہ پر پردہ ڈال دیتی ہے اور قتل عام کو بھول کر جنگ کا ایک ایک نقش مٹا دیتی ہے جیسے گھاس اپنی فطرت پر ناز کرتی ہے کہ مَیں گھاس ہوں ، سب کو ڈھک لوں گی۔
اس وقت یہ نظمیں اس لئے یاد آرہی ہیں کہ حالیہ دنوں میں ایک جنگ چھڑی اور چند روز بعد رُک گئی۔ اچھا ہی ہوا کہ رُک گئی۔ نہ رُکتی تو کہنا مشکل ہوتا کہ اس سے کیا نتائج برآمد ہونگے اور کب تک ہوتے رہیں گے۔ جنگ شروع ہونے میں دیر نہیں لگتی مگر ختم ہونے ہونے تک اکثر اوقات بہت وقت نکل جاتا ہے، کبھی کبھی تو کئی برس ضائع ہوجاتے ہیں ۔ غزہ اور اسرائیل کے درمیان جاری بارودی کھینچا تانی ہی کو دیکھ لیجئے جسے ایک سال سات مہینے اور کم و بیش بیس دن گزر چکے ہیں ۔ اس سے ملتا جلتا حال یوکرین اور روس کی جنگ کا ہولناک قصہ ہے جسے تین سال اور تین ماہ گزر چکے ہیں مگر جنگ رُکی نہیں ہے بلکہ خدانخواستہ اس میں مزید شدت آسکتی ہے۔
صدرِ امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کم و بیش گیارہ مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ اُنہوں نے ہندوستان اور پاکستان کی جنگ رُکوائی۔ اگر اُن کا واقعی اتنا اثرورسوخ ہے تو یہی اثرورسوخ یوکرین روس اور غزہ اسرائیل جنگ رُکوانے کیلئے کیوں آزمایا نہیں گیا؟ ایک طرف وہ جنگ رُکواتے ہیں (اگر سچ مچ رُکوائی ہے تو) اور دوسری طرف جنگ روکنے کی قرارداد کو ویٹو کرتے ہیں ۔ اس سے یہی مفہوم اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جنگوں کے پس پشت ارادوں کا بڑا دخل ہے۔ ارادے جغرافیائی ترجیحات کے تحت بدلتے ہیں جس کے سبب کہیں تو جنگ کا جاری رہنا مفاد ات کے عین مطابق ہوتا ہے اور کہیں معاہدۂ جنگ بندی کے ذریعہ مفادات کی حفاظت کی جاتی ہے۔ مفادات کا یہ گورکھ دھندا اِنسانی جانوں کے بے دریغ اتلاف کی جانب سے آنکھیں بند کرلیتا ہے اور جو آنکھیں بند ہونے سے انکار کردیتی ہیں اُنہیں کہیں اور اُلجھا دیا جاتا ہے۔ ایک دور تھا جب جنگ کیلئے اسلحہ درکار ہوتا تھا، اب اسلحہ کو جنگ درکار ہوتی ہے اسلئے اسلحہ کی صلاحیت ِ تباہ کاری کو آزمانے کیلئے جنگ برپا کی جاتی ہے اور کارکردگی دِکھا کر دُنیا کو اسلحہ بیچا جاتا ہے اس آفر کے ساتھ کہ اگر آپ میں خریدنے کی طاقت نہیں ہے تو غم نہ کریں ، ہم سے قرض لیں اور شان سے اسلحہ خریدیں ۔ اسلحہ تیار کرنے، بیچنے، خریدنے اور جو خرید نہ سکتا ہو اُسے گھیرنے اور اُس سے ’’خریدوانے‘‘ کا یہ جنون اتنا بڑھ چکا ہے کہ فنکاروں کی سننے کیلئے کوئی تیار نہیں ہے، وہ جنگ کے خلاف چاہے جتنا لکھیں ، سول سوسائٹی چاہے جتنے مظاہرے کرے، اسلحہ کی دوڑ جاری رہتی ہے۔ مشہور برطانوی ادیب اور ناول نگار ایچ جی ویلز نے تو بہت پہلے متنبہ کیا تھا کہ ’’اگر ہم نے جنگیں ختم نہیں کیں تو جنگیں ہمیں ختم کردیں گی‘‘ مگر ’کون سنتا ہے فغان درویش‘ کے مصداق بازار اور کاروبارکے تقاضے آج بھی روز افزوں ہیں اور اسلحہ کا عالمی ٹرن اووَر کھربوں ڈالر کی انڈسٹری بن کر سرمایہ کاروں کی جنت بنا ہوا ہے۔
اس کے نتیجے میں وہ چاہے کوریا ہو یا جاپان، ویتنام ہو یا کیوبا، عراق ہو یا افغانستان، روانڈا ہو یا الجیریا، بوسنیا اور یوگوسلاویہ ہو یا میانمار، جنگوں اور خانہ جنگیوں کے قیامت خیز شور میں بچوں کیلئے ماؤں کی فریادیں اور ماؤں کیلئے بچوں کی آوازیں کچھ اس طرح دَب گئیں کہ کبھی سنائی دے سکی ہیں نہ ہی آئندہ کبھی سنائی دیں گی۔ ان جنگوں اور خانہ جنگیوں کے ملبے میں کتنی کہانیاں دفن ہیں کوئی نہیں جانتا۔ کس کو خبر نہیں کہ کتنی حسرتوں کا جنازہ نکلا اور کہاں کتنی آرزوئیں آنسوؤں میں ڈھل کر مٹی میں جذب ہوگئیں اور پھر آنسو بہانے والوں نے بھی مٹی اوڑھ لی۔ جنگوں نے آبادیوں کو ویرانوں میں اور مکانوں کو قبروں میں اور قبروں کو مسطح میدانوں میں تبدیل کیا جن پر کارل سینڈبرگ کے بقول گھاس اُگ آئی جو کہہ رہی ہے: مَیں گھاس ہوں ، سب کو ڈھک لوں گی۔