• Sat, 06 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’جو کچھ نہیں ہوا وہ کیوں نہیں ہوا؟‘‘

Updated: December 06, 2025, 2:34 PM IST | Shahid Latif | mumbai

سانحہ ٔ بابری مسجد کو تین دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ان ۳۳؍ برسوں میں ایک نسل جوان ہوگئی اور دوسری آگئی۔ ممکن ہے اس سانحہ کےبعد پیدا ہونے والوں میں بہت سے ایسے ہوں جنہیں بہت کم معلوم ہو کہ کیاہوا تھا۔ مگر اس سے قبل بھی کئی سوال ہیں جن کا جواب ضروری ہے ۔

Picture: INN
تصویر:آئی این این
عرفان صدیقی (۱۹۳۹ء تا ۲۰۰۴ء) وہ شاعر ہے جو اپنے نام سے یاد نہ آتا ہو تو اُس کا شعر یاد دِلا دیتا ہے کہ کون عرفان صدیقی۔ اُن کے درجنوں  اشعار بہت مشہور ہیں  بالخصوص یہ شعر:
اُٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کیلئے= کہ نیند شرط نہیں  خواب دیکھنے کیلئے
اس مضمون کی ابتداء ہی میں  عرفان صدیقی اس لئے یاد آگئے کہ جب بھی ۱۹۹۲ء یا ۲۰۰۲ء کے سانحات یاد آتے ہیں ، عرفان مرحوم کی غزل نما مناجات یا مناجات نما غزل کے اشعار ذہن میں  گونجتے اور دل کو تڑپاتے ہیں ۔ یہ غز ل اُنہوں  نے گجرات فساد (۲۰۰۲ء) کے پس منظر میں  کہی تھی مگر اسے ۱۹۹۲ء کے سانحے پر بھی منطبق کیا جاسکتا ہے۔ اس سے قبل کہ ذیل میں  آپ یہ اشعار پڑھیں ، گزارش ہے کہ انہیں  سرسری نہ پڑھا جائے بلکہ دورانِ قرأت اُس درد کو محسوس کیا جائے جو غزل کہتے وقت شاعر کے دل میں  تھا ۔ ان کالموں  میں  پوری غزل نہیں ، چند اشعار نقل کئے جاتے ہیں :
حق فتحیاب میرے خدا کیوں  نہیں  ہوا؟
تو نے کہا تھا، تیرا کہا کیوں  نہیں  ہوا؟
جب حشر اِس زمیں  پہ اُٹھائے گئے تو پھر
برپا یہیں  پہ روز جزا کیوں  نہیں  ہوا؟
وہ شمع بجھ گئی تھی تو کہرام تھا تمام
دل بجھ گئے تو شورِ عزا کیوں  نہیں  ہوا؟
واماندگاں  پہ تنگ ہوئی کیوں  تری زمیں 
دروازہ آسمان کا وا کیوں  نہیں  ہوا؟
کرتا رہا میں  تیرے لئے دوستوں  سے جنگ
تو میرے دشمنوں  سے خفا کیوں  نہیں  ہوا؟
جو کچھ ہوا وہ کیسے ہوا جانتا ہوں  میں 
جو کچھ نہیں  ہوا وہ بتا کیوں  نہیں  ہوا؟
غزل میں  شکوہ ہے، سوال ہے، پہلا سوال، دوسرا سوال اور پھر کئی سوال، ممکن تھا کہ عرفان صاحب اپنے اُٹھائے ہوئے ہر سوال کا جواب بھی مرحمت فرماتے جیسے اقبال نے شکوہ کے بعد جواب ِ شکوہ لکھا تھا مگر ایسا لگتا ہے کہ پھر صحت نے اجازت نہیں  دی اور اُنہیں  موقع نہیں  ملا کیونکہ ۲۰۰۴ء میں  آپ داعیٔ اجل کو لبیک کہہ چکے تھے، یا، ممکن ہے عرفان مرحوم نے سوچا ہو کہ سوال قائم کردینا کافی ہے، یہی شاعر کا کام ہے، جواب دینا ضروری نہیں ، وہ سامعین اور قارئین کی ذمہ داری ہے، وہ سوچیں  اور غور کریں  کہ حق فتح یاب کیوں  نہیں  ہوا؟ اور یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا کا وعدہ پورا نہ ہو؟ 
آج ۶؍ دسمبر ۲۰۲۵ء ہے اور ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کے سانحہ کو ۳۳ سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کا سانحہ اتنا بڑا تھا کہ آج بھی اس پر یقین نہیں  آتا کہ کیا وطن عزیز میں  ایسا ہوسکتا ہے؟ کیا ایسا ہوا ہے؟ اُس وطن عزیز میں  جہاں  مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کے مذاہب اور عبادت گاہوں  کے احترام کی روایت صدیوں  پرانی ہے؟ یقین آئے نہ آئے، سانحہ تو پیش آیا اور تاریخ میں  درج ہوگیا۔ اس کا غم صرف مسلمانوں  کو نہیں  ہوا، برادران وطن کو بھی ہوا۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس کا غم منانےوالوں  میں  جتنی تعداد مسلمانوں  کی ہے اُس سے کم برادران وطن کی نہیں  ہے۔ 
یاد آتا ہے اس سانحے کے بعد مشہور و ممتاز صحافی کلدیپ نیر سے پوچھا گیا تھا کہ آپ اس پر کیا سوچتے ہیں  تو اُن کا جواب تھا: ’’آئندہ نسلیں  مجھ سے اس کے بارے میں  پوچھیں  گی تو میرا سر شرم سے جھک جائے گا۔‘‘ ایسے کتنے لوگ رہے ہوں  گے جن کے احساسات بالکل ویسے ہی تھے جیسے کلدیپ نیر کے تھے۔ یاد آتے ہیں  ایودھیا ہی کے مشہور صحافی اور ’’جن مورچہ‘‘ کے مالک و مدیر شیتلا سنگھ جنہوں  نے ’’رام جنم بھومی، بابری مسجد کا سچ‘‘ نام سے ضخیم کتاب لکھی اور اس میں  اُن تمام واقعات کو پیش کردیا جو ۶؍ دسمبر کے سانحے پر منتج ہوئے۔ اس کا اُردو ترجمہ فاروس پبلی کیشنز نے شائع کیا تھا۔ کتاب کے بارے میں  یہ جاننا ضروری ہے کہ ’’جب پرسکون ایودھیا میں  کچھ فرقہ پرست طاقتیں  گنگا جمنی تہذیب کو آگ لگانے کی کوشش کرنے لگیں  تو ایسے حالات میں  شیتلا سنگھ نے ایودھیا سے لے کر دہلی تک، سیاسی لیڈروں  سے لے کر دھارمک حلقوں  کے شنکراچاریوں ، علماء اور پس منظر میں  بیٹھی ہوئی طاقتوں  سے ربط و ضبط قائم کرکے کافی حد تک مسئلے کا حل نکال لیا تھا، لیکن سیاسی مفادات اور ووٹوں  کی سیاست نے اس کوشش کو ثمر آور نہیں  ہونے دیا۔ یہ کتاب رام جنم بھومی، بابری مسجدمسئلےکو اس کوشش کے تناظرمیں  بیان کرتی ہے تاکہ نوجوان نسل مسئلے کو صرف مندرمسجد کی سیاست نہ سمجھ کر اس کی اصلیت سے واقف ہوسکے۔‘‘ 
 
غور فرمائیے کہ برادران وطن میں  خود کو شرمسار محسوس کرنے سے لے کر حقائق کی تفصیل منظر عام پر لانے بلکہ مسئلہ کے حل کی کوشش کرنے والوں  تک ایسی کئی شخصیات ہیں  جنہوں  نے ۶؍ دسمبر کے سانحے کو یہ سوچ کر پس پشت نہیں  ڈال دیا کہ اس سے اُن کا تعلق نہیں  ہے۔ وہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے غم میں  اس لئے برابر کے شریک رہے کہ جمہوری ملک کے شہری کے ناطے یہ اُن کا بھی غم تھا جسے وہ آج بھی محسوس کرتے ہیں ۔ 
یہی وجہ ہے کہ اُن میں  بڑی تعداد ایسے لوگوں  کی ہے جو تواتر کے ساتھ اقلیتی مسائل و معاملات کو موضوع بناتے ہیں  اور نہایت بے باکی سے اظہار خیال کرتے ہیں ۔ یہاں  نام گنانے کی ضرورت محسوس نہیں  ہوتی کیونکہ جتنی بے باکی کا مظاہرہ برادران وطن نے کیا اُتنی بے باکی مسلم دانشوروں  نے نہیں  دکھائی جس کی اپنی وجوہات ہیں ، تفصیل میں  جانے کا یہ موقع نہیں  ہے۔
اس حوالے سے کہنا یہ ہے کہ برادران وطن کی یہ ہمدردی اور بہی خواہی اس ملک کی اقلیتوں  بالخصوص بڑی اقلیت کی عظیم طاقت ہے۔ اس کو اپنے حق میں  مستحکم کرنا ضروری ہے، اس کیلئے اُن تک پہنچنا ضروری ہے، اُن سے ربط ضبط اور رسم و راہ رکھنا ضروری ہے، خود کو قومی اور عصری مسائل سے جوڑنا ضروری ہے تاکہ اُنہیں  یہ تاثر نہ ملے کہ اقلیتوں  کو اپنے ہی مسائل کی پڑی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اُن سوالوں  کا جواب (جو ایک ہی ہے) تلاش کرنے کی مخلصانہ کوشش بھی ہو جو مذکورہ اشعارکے ذریعہ اُٹھائے گئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK