اس مضمون میں جنگ بندی کے معاہدہ کا خیرمقدم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جنگ کا جاری رہنا مشکل تھا کیونکہ کم یا زیادہ دونوں ہی ممالک غیر معمولی دفاعی اخراجات کے متحمل نہیں ہیں۔
EPAPER
Updated: May 13, 2025, 4:28 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai
اس مضمون میں جنگ بندی کے معاہدہ کا خیرمقدم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جنگ کا جاری رہنا مشکل تھا کیونکہ کم یا زیادہ دونوں ہی ممالک غیر معمولی دفاعی اخراجات کے متحمل نہیں ہیں۔
اس ماہ کی تاریخ ۷؍ کی رات اور ۸؍کے دن میں جو کچھ ہوا اسے اگر جنگ کے علاوہ کچھ اور کہا جائے تو ہندوستان اور پاکستان کے میڈیا والوں کا دل دُکھے گا، اس لئے مان لیتے ہیں کہ جو ہوا وہ جنگ ہی رہا ہوگا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ اگر آپ ہندوستانی میڈیا کے متوالے ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پاکستان میں کراچی، لاہور، کوٹہ اور فیصل آباد میں دہشت گردی کے تمام مراکز ختم ہوچکے ہیں لیکن اگر آپ پاکستانی میڈیا کو بھی منہ لگاتے ہیں تو آپ کو علم ہوگا کہ پاکستان نے ہندوستان کی ہوائی فوج کو بالکل تباہ کردیا ہے۔ پاکستانی میڈیا تھوڑا سا اور آگے گیا۔ اس نے نہ صرف یہ کہا کہ اس نے ہندوستانی افواج کے دو جہاز گر ا ئے ہیں بلکہ رافیل جیسے جہاز کوبھی نقصان پہنچایا ہے۔ دیکھئے معاملہ یہ ہے کہ دورِحاضر میں اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک کو اپنے جہاز دیتا ہے تو اس کے (جہاز کے) ساتھ کیا ہوا، یہ بات سب سے پہلے اس کمپنی کے لوگوں کو معلوم ہوتی ہے جس نے یہ جہاز بنوائے تھے۔ یہی نہیں انشورنس کمپنی بھی اپنے کسی تباہ شدہ جہاز کی خبر فوراً دے دیتی ہے۔ چونکہ رافیل اور دیگر جہاز بنانے والی کمپنیوں نے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا اس لئے مان لیجئے کہ یہ خبر نہ صرف جھوٹ ہے بلکہ بالکل بکواس ہے۔ یہ کہنا کہ ہندوستان نے پاکستان کی ہوائی سرحدوں کی خلاف ورزی کی ہے یہ ایک طرح سے اعلان جنگ ہوتا ہے اور اس کا کرنے والا ملک جنگی مجرم کہلاتا ہے۔ بہرحال، ہندوستان اور پاکستان کی فوجیں اپنی جگہ ہیں اس لئے جو تھوڑی بہت لڑائی ہوئی وہ میڈیا میں کچھ زیادہ دکھائی دے رہی تھی۔
ایک اور بات جان لیجئے، پاکستان کا یہ الزام بھی بالکل غلط اور بکواس ہے کہ ہندوستانی فوج نے دریائے سندھ کے معاہدہ کی بابت اپنا مقام واپس لے لیا ہے حالانکہ ہندوستان کی سرکار نے اس کا کوئی اعلان نہیں کیا لیکن میڈیا کی خبروں کو غلط کیسے کہا جاسکتا ہے؟ مگر یہ جان لیجئے کہ دریائے سندھ کے معاملے میں ہندوستان اور پاکستان میں ۱۹۶۰ء میں ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت دریائے سندھ اور جہلم کو پاکستان کے حوالے کیا گیا تھا اور راوی، چناب، ستلج اور ویاس ہندوستان کے حصے میں آئے تھے،اس طرح پاکستان کو زیادہ پانی ملتا تھا۔ پاکستانی میڈیا نے یہ تو نہیں کہا کہ ہندوستان معاہدہ سے پھر گیا ہے لیکن میڈیا والوں نے اسے واپس ہی کردیا ہے۔
ہمیں پہلے ہی احساس تھا کہ ہند پاک لڑائی کچھ ہی دن چلے گی۔ جنگ بندی ہوئی اور جتنی جلد ہونا چاہئے تھی، اُتنا جلدہی ہوئی مگر کیا میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی رُک گئی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہند پاک کے میڈیا اپنی ہندوستانیت اور پاکستانیت کو بروئے کار ضرور لاتے رہیں گے۔ مگر اِن دو ملکوں میں مکمل جنگ ناممکن کی حد تک مشکل ہے ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں:
ہندوستان بھی اپنی معیشت کی وجہ سے کوئی لمبی چوڑی جنگ برداشت نہیں کرسکتا اور رہا پاکستان ،تو زمین پر اس کی معاشی حالت ایسی ہے کہ اس کے قدموں کے نیچے قبر ہی رہ جاتی ہے۔ چنانچہ اگر پاکستان نے مستقبل میں کوئی حماقت کی تو دو ہی دن میں اس کی معاشی حالت زندہ درگور ہوجائے گی۔ پاکستان تو یوں بھی دیوالیہ پن کی آخری منزل پر کھڑا ہوا ہے۔ کوئی بھی غیر ذمہ دارانہ کام اس کی حفاظت کا فاتحہ پڑھ دے گا۔ اب رہا یہ سوال کہ باقاعدہ جنگ کیوں نہیں ہوگی، اس کے نتیجے میں آپ سے صرف یہ عرض کرتا ہوں کہ ادھر ایک عرصہ سے دُنیا کی سیاست جن خطوط پر چل رہی تھی، اب وہ ان خطوط سے دائیں بائیں اور ادھر ادھر ہوگئی ہے ا س لئے کوئی بھی جنگ کسی بھی ملک کے لئے خسارے کا سامان ہوگا۔ دنیا اب جنگ سے تھک چکی ہے۔ آپ ڈونالڈ ٹرمپ کے اس دعوے کو جھوٹا نہ جانئے کہ جنگ نہیں ہوگی۔ ایک اورمثال یوکرین کی ہے۔ وہاں جو جنگ چل رہی تھی اب وہ تین سال پرانی ہوکر مفلوج ہوگئی ہے۔ روس اور یوکرین میں جتنے لوگ جنگ کے سبب ہلاک ہوئے ان کا مقابلہ دوسری جنگ عظیم سے تو نہیں کرسکتے لیکن یہ بات طے ہے کہ یوکرین کی جنگ یوروپ سے باہر کبھی نہیں نکلی تھی اور اب تو یوروپ نے بھی اس جنگ سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ یہ بھی یادرکھئے کہ امریکہ نے کبھی دنیا کی کسی جنگ میں خود حصہ نہیں لیا۔ عراق اور افغانستان کی جنگیں آپ کو یاد ہوں گی، ان میں بھی امریکہ اور یوروپ کی فوجی مداخلت بہت کم تھی۔
دوسرے، یہ بات بھی یاد رکھئے کہ عراق اور افغانستان کی فوجیں یوروپ میں نہیں لڑ رہی تھیں، وہ پوری طرح سے عراق اور افغانستان کے اندر ہی چھپی ہوئی تھیں۔ روس بمقابلہ یوکرین میں یوکرین کےعاقبت نا اندیش حکمرانوں نے یہ حماقت کی کہ وہ ناٹو کو جوائن کرنا چاہتے تھے جو اُن کیلئے ضروری نہیں تھا۔ روس نے بھی یوکرین کے لیڈروں کی حماقت کا ساتھ دیا اور اتنا تیز اور بہیمانہ حملہ کیاجو ایک تاریخی حقیقت بن چکا ہے لیکن اگر زمین پر نظر ڈالئے تو معلوم ہوگا کہ یوکرین کی جنگ نہ صرف ختم ہوئی بلکہ اس طرح ختم ہوئی ہے کہ اب اس کے دوبارہ ہونے کا کوئی سوال نہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ یوکرین کی جنگ آج کی تاریخ میں اس علاقے میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی لیکن اب تو پوتن، ڈونالڈ ٹرمپ اور زیلنسکی آپس میں سر جوڑے بیٹھے ہیں اور جنگ بندی کے سلسلے میں اپنی اپنی رائے دے رہے ہیں۔
رہی غزہ کی جنگ، تو اس کا تعلق فلسطین سے ہے اور قارئین جانتے ہیں کہ فلسطین کیلئے جنگ آج کی نہیں۔ گزشتہ ۷۰؍ سال سے فلسطینی عوام اپنی ریاست کے لئے شہادتیں پیش کررہے ہیں لیکن گزشتہ کم و بیش ڈیڑھ سال سے اس میں شدت آئی ہے۔ کہنے کو یہ جنگ اب بھی چل رہی ہے لیکن دنیا کا حال جاننے والے یہ جانتے ہیں کہ اس جنگ نے اسرائیل کو بے دست و پا کردیا ۔ کہنے والے یہ کہیں گے کہ اس سے کیا ہوتا ہے، نیتن یاہو تو اب بھی اسرائیل کے وزیر اعظم ہیں اور ایسا نہیں لگتا کہ دو چار دن میں ان کی یہ حیثیت ختم ہوجائیگی لیکن ہمارا خیال ہے کہ نیتن یاہو کا حال خرا ب ہے، وہ خود کو آج بھی اسرائیل کا طاقتور وزیر اعظم کہتے ہیں لیکن وہ جانتے ہیں کہ یہ وزارت عظمیٰ لولی لنگڑی ہے۔ اب تو خیر سے ہندوستانی میڈیابھی نیتن یاہو کی تنقید کرنے لگا ہے لیکن پوری خبریں اَب بھی سامنے نہیں آئی ہیں۔اس میں وقت لگ سکتا ہے، ہم مایوس نہیں ہیں۔