• Mon, 20 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

لاسلو کرسنا ہوراکائی اور نوبیل انعام

Updated: October 13, 2025, 1:29 PM IST | Professor Sarwar Al-Huda | mumbai

۲۰۲۵ءکا نوبیل انعام لاسلو کرسنا ہوراکائی کو ملا ہے۔سوئیڈش کمیٹی کے اعلانیہ میں کہا گیا کہ کرسنا ہوراکائی کا فن اس لیے اہم ہے کہ اس نے خوف اور دہشت کے ماحول میں فن کی طاقت کا اعتبار قائم کیا۔یہ ایک ایسا زاویہ ہے جس میں آج کی دنیا کیلئے پیغام بھی ہے اور احتساب کا وسیلہ بھی۔

آئی این این
آئی این این
ادب اور ادیب کا سب سے بڑا اعزاز اور انعام اس کے پڑھنے والے ہیں ۔پڑھنے والے ایک ہی ذوق اور ذہن کے نہیں  ہوتے۔لیکن پڑھنے والوں  کی تعداد جب مختلف ذہن اور ذوق کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے تو ادب اور ادیب کی عمر بھی لمبی ہوتی جاتی ہے۔ ادب کا ایک بازار ہے جو ادب اور ادیب دونوں  کو کسی نہ کسی طور پر کنٹرول کرتا ہے۔کبھی ادیب بازار کو ایک بڑی حقیقت کے طور پر نہ صرف قبول کر لیتا ہے بلکہ اپنے لکھنے کے انداز کو بھی بازار سے ہم آہنگ کرنا چاہتا ہے۔ان تمام چالاکیوں  کے باوجود پائیدار مقام نہیں  مل پاتا جو کسی بھی بڑے ادیب کی خواہش ہو سکتی ہے۔ اگر نوبیل انعام کی فہرست دیکھی جائے بات واضح ہو جائے گی۔ ہر سال ادب کا نوبیل انعام کسی ادیب کو ملتا ہے اور بہت جلد دنیا اسے بھول جاتی ہے۔ادھر تو کئی برسوں  سے یہی صورتحال ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ صورتحال کیوں  پیدا ہوئی۔اس سوال کا جواب لاسلو کرسنا ہوراکائی کی تحریروں  سے مل سکتا ہے۔
لاسلو کی تحریروں  کا مرکز بھی آ ج کی اور اپنی دنیا ہے مگر اس میں  کلاسیکی شان بھی ہے جو اسے تاریخ اور روایت سے وابستہ کرتی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا لاسلو کو بہت توجہ کے ساتھ دیکھ رہی ہے ۔اس توجہ کا بڑا سبب زندگی کی وہ تاریکی ہے جسے اوسلو نے گہرے طور پر دیکھا اور محسوس کیا ہے۔اوسلو کا تاریخی سیاق اپنی بستی اور اپنا علاقہ ہے ۔کئی ہفتوں  سے لوگوں  کی اس بات میں  دلچسپی تھی کہ اس بار کس کے حصے میں  یہ انعام آئےگا۔
۲۰۲۵ءکا نوبیل انعام لاسلو کرسنا ہوراکائی کو ملا ہے۔سوئیڈش کمیٹی کے اعلانیہ میں  کہا گیا کہ کرسنا ہوراکائی کا فن اس لیے اہم ہے کہ اس نے خوف اور دہشت کے ماحول میں  فن کی طاقت کا اعتبار قائم کیا۔یہ ایک ایسا زاویہ ہے جس میں  آج کی دنیا کے لیے پیغام بھی ہے اور احتساب کا وسیلہ بھی۔ اسی دوران ان کا یہ قول بھی سامنے آیا کہ ادب کو خطرہ آ لات سے نہیں  بلکہ ان لوگوں  سے ہے جو پڑھتے نہیں  ہیں ۔خوف کی ایک سے زیادہ صورتیں  ہیں ۔ایک جگہ کا خوف دوسری جگہ کے خوف سے کچھ اگر مماثل ہے تو بھی اس کی نفسیات الگ ہو سکتی ہے۔ جلتے ہوئے مکان اور بلکتے ہوئے انسان کا ایک ہی رنگ اور ایک ہی اسلوب ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ سوئیڈش کمیٹی کو انعام دینے کے لیے ایک ایسا جواز پیش کرنا پڑا جس کا رشتہ حال سے بہت گہرا ہے۔ ماضی کا خوف اگر عصر حاضر کا خوف معلوم ہوتا ہے تو اس کی وجہ خوف اور خوف پیدا کرنے والی صورتحال کی یکسانیت ہے۔یہ دنیا وقت کے ساتھ اگر خوشحال ہوئی ہے تو نفرت میں  بھی اضافہ ہوا ہے۔
کرسنا ہارکائی کی حمایت میں  ان کے فن کا حوالہ دیا۔یعنی ادیب کے ادب کو دیکھنا چاہئے اس کے سیاسی نظریے کو نہیں  ۔لیکن یہ دلیل اس لیے ناقابل قبول ہے کہ نوبیل انعام کے اعلانیہ میں  جس خوف کی فضا میں  فن کی طاقت کا حوالہ دیا گیا ہے اس کا تعلق سیاسی نظریے سے نہیں  لیکن سیاست کی اس خطرناک صورت سے ضرور ہے جو ایک ہی وقت میں  ظالم کی شناسا بھی ہے اور مظلوم کی بھی۔ کرسنا ہورا کائی کی اس لیے گرفت کی جا رہی ہے کہ انہوں  نے یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کی لیکن فلسطین پر اسرائیل کی بربریت پر خاموش رہے ۔یہ دلیل بھی پیش کی جاتی ہے کہ فن ہی سب کچھ ہے ،یہ کیا ضرور ی  ہےکہ ہر واقعے کے بارے میں  بطور مذمت کچھ لکھا جائے ۔ادیب کے سماجی رول کے بارے میں  کوئی بھی نظریہ سب کے لیے ممکن ہے قابل قبول نہ ہو لیکن ادیب کا تعصبات سے بلند ہونا ضروری ہے ۔
لاسلو کرسنا ہوراکائی کے نام سے دنیا واقف تھی۔ ۲۰۱۵ء  میں  انہیں  بوکر پرائز مل چکا ہے۔ایک بڑے رزمیہ نگار کے طور پر انہیں  دیکھا جاتا ہے ۔رزمیہ کا رشتہ تاریخ سے بہت گہرا ہے جو عام طور پر جنگ کی تاریخ بن جاتی ہے ۔کرسنا ہوراکائی نے ایک ایسا اسلوب اختیار کیا جس میں  پیراگراف کے لیے کم گنجائش ہے ۔لمبے اور پیچیدہ جملے جس تخلیقی ذہن اور عمل کا پتہ دیتے ہیں  خیال کا تسلسل ہی نہیں  بلکہ اس کا بہاؤ بھی ہے جو پیچیدگی سے گھبراتا نہیں ۔ ۱۹۸۵ء  میں  ان کا پہلا ناول ’’شیطان کا ٹینگو‘‘شائع ہوا۔اس ناول کا سیاق ہنگر ی کی وہ زندگی ہے جو پریشاں  حال ہے۔اس ناول نے لاسلو کرسنا ہوراکائی کو ایک درد مند تخلیق کار کی حیثیت سے اعتبار بخشا ۔اس اعتبار کا بڑا سبب وہ زندگی ہے جو کہیں  اور سے نہیں  آئی تھی۔اس ناول کو فلم کی صورت میں  پیش کیا جانا اسی مقامی اعتبار کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ناول’’مزاحمت کی اداسی‘‘کا رشتہ بھی ہنگری کے ایک چھوٹے سے گاؤں  سے ہے۔اس ناول کی کہانی کو واقعات کے سلسلے بلکہ زنجیر کے طور پر دیکھا گیا۔ ایک سرکس ہے جو وہیل مچھلی کے جسم کو دکھانے کا دعویٰ کرتا ہے۔گرمی کے موسم ہے اور افواہ پھیل جاتی ہےکہ سرکس کے لوگوں  کے مقصد میں  خرابی ہے۔اس ناول کو سیاسی تمثیل بھی کہا جاتا ہے۔ایک ایسی دنیا جو بیہودہ اور ذلیل ہے اس میں  زندگی کی معنویت کی تلاش کا عمل بہت ہی صبر آزما ہے۔ناامیدی تو ہے لیکن اپنی سی کوشش بھی ضروری ہے۔مزاحمت کی اداسی سے دو اقتباسات ملاحظہ کیجئے ۔
’’جیسے ہی اس نے اپنی گھڑی کی کمزور ٹک ٹک کی طرف دیکھا، اسے اچانک احساس ہوا کہ وہ ساری زندگی بھاگتا رہا ہے۔ یہ زندگی ایک مستقل فرار ہے بے معنی ہے۔‘‘’’اس نے اپنے تھکے ہوئے قدموں  کو زمین کھرچتے ہوئے سنا ۔اس نے آوارہ بلیوں  کو اپنے قدموں  میں  دیکھا ،جب وہ خاموشی سے بڑھتے ہوئے لوہے کے داغوں  کے آگے خوف کی وجہ سے بکھری ہوئی تھیں ۔لیکن اسے اپنے کاندھے پر ہاتھ کے علاوہ کچھ محسوس نہیں  ہوا جو اسے کھال کی ٹوپیوں  اور بھاری بوٹوں  کی فوج کے درمیان سے گزرنے کا احساس دلا رہا تھا ۔’’لاسلو کرسنا ہورا کائی کا یہ ناول زندگی کے مختلف مسائل کو ایک دوسرے سے وابستہ کر دیتا ہے۔ سیاست اور حکومت زندگی کی معنویت کی راہ میں  حائل ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK