اے آئی، اے آئی، اے آئی، ہر جگہ یہی موضوع ہے۔ الگ الگ زاویوں سے بحث ہورہی ہے۔ یہ بڑا غیر معمولی سائنسی کارنامہ ضرور ہے مگر اس کی وجہ سے ہم خود ہی کارنامہ نہ بن رہے ہوں؟
EPAPER
Updated: August 17, 2024, 1:58 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
اے آئی، اے آئی، اے آئی، ہر جگہ یہی موضوع ہے۔ الگ الگ زاویوں سے بحث ہورہی ہے۔ یہ بڑا غیر معمولی سائنسی کارنامہ ضرور ہے مگر اس کی وجہ سے ہم خود ہی کارنامہ نہ بن رہے ہوں؟
معاشیات میں ایک اصطلاح ہے ڈمینیشنگ مارجینل یوٹیلیٹی۔ اُردو میں اس کیلئے ’’قانون تقلیل افادہ‘‘ یا ’’قانون تقلیل حاصل‘‘ کا متبادل وضع کیا گیا ہے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ متعلقہ الفاظ اُردو میں آکر بھی اُتنے ہی ثقیل اور مشکل ہیں جتنے انگریزی میں تھے، اس کے مفہوم کی طرف آئیے۔ اس کا تعلق انسانی رویہ سے ہے۔ جب کوئی صارف کسی شے یا مصنوع کو استعمال کرتا ہے تو ابتداء میں اُسے جتنی خوشی یا اطمینان حاصل ہوگا، وہ مزید استعمال کے ساتھ کم سے کم تر ہوتا چلا جائیگا۔آپ جانتے ہیں جب انسان پہلی مرتبہ کار خریدتا ہے تو اُس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتا مگر دوسری اور تیسری اور چوتھی کار کے ساتھ اُس کی خوشی بتدریج کم ہونے لگتی ہے۔
مذکورہ اصطلاح ہے تو معاشی مگر جس انسانی رویہ کی عکاسی کرتی ہے اُس کا معاشیات کے علاوہ دیگر انسانی شعبوں میں بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ کسی نظارہ کو دیکھ کر، کسی شہر میں پہلی مرتبہ جاکر یا پہلی بار انعام پاکر جو خوشی حاصل ہوتی ہے وہ رفتہ رفتہ کم ہونے لگتی ہے۔ اس کا تعلق صرف خوشی، اطمینان، فائدہ (افادہ) یا حاصل سے نہیں ہے، مصائب و مسائل سے بھی ہے۔ مجھے یاد ہے، میرے آبائی شہر میں جب پہلی مرتبہ طوفانی بارش اور سیلاب کے سبب ایک عمارت منہدم ہوئی تھی تب پورا شہر دہل گیا تھا۔ ہر خاص و عام کی زبان پر اسی حادثہ کا ذکر تھا اور کئی برس رہا۔ جب سے شہروں میں عمارتوں کا گرنا عام ہوگیا، لوگوں کے دہل جانے کی کیفیت بدل گئی ہے۔ یاد کیجئے جب پہلی مرتبہ قتل کی کسی واردات کے بارے میں آپ نے سنا تھا تب آپ کا ردعمل کیا تھا؟ اس کے مقابلے میں آج آپ کا ردعمل کیا ہوتا ہے؟
یہ باتیں میرے ذہن میں اس احساس کے سبب گشت کررہی ہیں کہ غزہ اور یوکرین پر مسلط کی گئی جنگ کے خلاف ابتداء میں جو عوامی ردعمل تھا، اُس کا عشر عشیر بھی باقی نہیں رہ گیا ہے جبکہ کسی کا کوئی ردعمل ہو یا نہ ہو، ہر واقعہ، حادثہ، واردات، مصیبت اور پریشانی اپنے متاثرین کیلئے اُتنی ہی اندوہناک اور وحشت ناک ہوتی ہے جتنی کہ سابقہ واقعہ، حادثہ یا واردات تھی۔ ان پر قانون تقلیل حاصل کا اطلاق نہیں ہوتا۔ غزہ کا وہ حصہ جو کل تک بمباری سے محفوظ تھا،اگر آج بمباری کی زد میں ہے تو یہاں کے لوگ بھی اُتنے ہی دہشت زدہ ہوں گے جتنے پہلے حصے کی بمباری کے متاثرین تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ بمباری کے اولین متاثرین زیادہ متاثر ہوئے تھے اور بعد کے متاثرین کم متاثر ہوئے۔ مگر، بمباری کے خلاف غیر متاثرین کا ردعمل کم سے کم تر ہوجاتا ہے۔ اب اُن کیلئے بمباری کی خبر اُتنی بڑی خبر نہیں رہ جاتی جتنی کہ پہلے تھی۔ ابھی وائناڈ پر جو آفت آئی، اُس سے کتنے لوگ دہلے؟ کولکاتا میں ایک خاتون ڈاکٹر کے ساتھ جووحشیانہ سلوک کیا گیا اُس پر کتنوں کی عقل گم ہوئی؟
یہ سوالات کسی کو مورد الزام ٹھہرانے کی یا بے حس قرار دینے کی کوشش نہیں ہے بلکہ ان کے ذریعہ یہ مضمون نگار خود کو یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ موجودہ دور میں وقت انسان کو ایسے حالات سے دوچار کررہا ہے کہ ہر چیز روٹین بن گئی ہے۔حادثہ حادثہ نہیں رہا۔ واردات واردات نہیں رہی۔ دوسروں کا غم غم نہیں رہا۔ ہمدردی ناپنے کا کوئی آلہ ایجاد ہوجائے تو انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا کہ اُس کی ہمدردی کتنی شدت کی ہے۔ زیادہ گہری ہے یا کم گہری ہے یا معمولی؟ یہی حال خوشی کا ہے۔ نئی نسل کے افراد کسی بھی چیز سے زیادہ عرصہ تک مسرت حاصل نہیں کرپاتے۔ بہت جلد اُکتا جاتے ہیں ۔کوئی چیز اُنہیں فیڈ اَپ نہیں کرتی وہ خود فیڈ اَپ ہوجاتے ہیں ۔
چھوٹے بچوں کا معاملہ تو زیادہ ہی حیران کن ہے۔ بچے کل تک کھلونوں سے خوش ہوتے تھے۔ اب ایسے ایسے کھلونے آگئے ہیں کہ ان کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا، اس کے باوجود بچوں کی خوشی کی کیفیت پہلے جیسی نہیں ہے۔ اب وہ اپنے کھلونوں سے بہت جلد اوب جاتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی پُرکشش اور مہنگے ہوں ۔ بہت سے بچے روایتی کھلونے چھوڑ کر اُس نئے کھلونے سے محظوظ ہونے کو ترجیح دیتے ہیں جسے ہر کھلونے سے بڑا یا کھلونوں کا کھلونا یا کھلونوں کا بادشاہ کہنا چاہئے۔موبائل۔ چھوٹے چھوٹے بچے موبائل میں اس حد تک گم ہوجاتے ہیں کہ ماں کو ستانے کا ارادہ ترک کر دیتے ہیں ۔ اُنہیں بھوک پیاس کا احساس نہیں رہ جاتا۔ بھوک پیاس ہی کیا، ماں باپ کی بھی فکر نہیں رہ جاتی۔ یہ صورت حال افسوسناک ہے مگر شاید ڈریئے اُس وقت سے جس کی دستک ہوچکی ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب ہم موجودہ صورتِ حال کو بھی غنیمت قرار دیں گے اور کہیں گے کہ لاکھ بُرا سہی، وہ وقت بہتر تھا۔
اب یہ دُنیا مصنوعی ذہانت کے دور میں قدم رکھ رہی ہے۔ ہر طرف مصنوعی ذہانت کا چرچا ہے جسے اس کے انگریزی مخفف ’’اے آئی‘‘ سے پکارا جاتا ہے۔ سوچئے اس اے آئی کے عام ہوجانے کے بعد کیا ہوگا؟ بڑی کمپنیوں میں ایسے کاموں کیلئے جو انسانوں کیلئے بہت مشکل اور پیچیدہ تھے، اے آئی کی مدد لی جارہی ہے یا لی گئی تو ٹھیک ہے مگر اشارے اس بات کے مل رہے ہیں کہ ٹیکنالوجی کا یہ مظہر ایسے ہی شعبوں تک محدود نہیں رہے گا۔ ایک ٹی وی چینل پر اے آئی کی نیوز ریڈر خبریں سنانے لگی ہے۔ کل کو، خدانخواستہ، اے آئی اتنا رائج ہوسکتا ہے کہ جگہ جگہ اس کے مظاہر دکھائی دینے لگیں گے۔ ایسے روبوٹ ہمارے آپ کے درمیان پائے جاسکتے ہیں جو اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے ہم سے یا آپ سے کہیں کہ جناب عالی، زحمت نہ کیجئے یعنی آپ کی ضرورت نہیں ، یہ کام ہوجائے گا۔ جب سارے کام ہونے لگیں گے تو حضرت انسان کیا کریں گے؟
آج اگر عالم یہ ہے کہ حضرت انسان کیلئے ہر چیز روٹین بن گئی ہے اور نہ تو غم غم رہ گیا ہے نہ خوشی خوشی تو ہر جگہ روبوٹس کی موجودگی کے دور میں کیا ہوگا؟ کیا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مجھے کسی دوست کی عیادت کرنی ہو مگر وقت نہ مل رہا ہو تو مَیں اپنے روبوٹ کو روانہ کردوں کہ جاؤ، فلاں صاحب کی عیادت کرآؤ؟
بظاہر میرا یہ احساس لطیفہ معلوم ہوتا ہے مگر اس کا پس منظر ہے۔ موبائل کا استعمال بڑھ جانے اور اس میں نت نئے فیچرس کے متعارف ہونے کے بعد سے وہ لوگ بھی جو کل تک فون اُٹھا کر آپس میں گفتگو کرلیا کرتے تھے، اب اس کے بھی روادار نہیں ہیں بلکہ وہاٹس ایپ پر ’’وائس مسیج‘‘ بھیج رہے ہیں ۔ وائس مسیج کا جواب بھی وائس مسیج کے ذریعہ مل رہا ہے۔ تو کیا اے آئی کے ذریعہ عیادت نہیں ہوگی؟ ہوسکتی ہے اور عین ممکن ہے کہ ایسا ہو مگر سوچئے اُس صورت میں انسانی رشتوں کا کیا ہوگا؟ عیادت کا ثواب کس کو ملے گا؟