Inquilab Logo Happiest Places to Work

نیو یارک میں ممدانی میجک چل گیا

Updated: July 02, 2025, 1:30 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

ظہران نے محض چھ ماہ کی مدت میں نیو یارکرز کے دلوں میں اپنا مقام بنالیا۔وہ جوان دلوں کی دھڑکن بن گئے۔ ان کی باتوں میں لوگوں کو روایتی سیاستدانوں کی ریاکاری نہیں بلکہ ایک سچے اور ہمدرددوست کا خلوص نظر آیا۔ قلیل عرصے میں انہوں نے لوگوں کا دل ہی نہیں اعتماد بھی جیت لیا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 نیو یارک کے میئر کے عہدے کیلئے ظہران ممدانی کے ڈیموکریٹک پارٹی کا امیدوار منتخب ہونے سے امریکہ کی سیاست میں  بھونچال آگیا ہے۔ صرف حریف ریپلیکن پارٹی ہی نہیں  ڈیموکرٹک پارٹی کے بھی متعدد لیڈران ظہران کی فیصلہ کن فتح سے ناخوش ہیں ۔ ممدانی نے پرائمری الیکشن میں  انڈریو کومو جیسے بھاری بھرکم ڈیموکریٹ لیڈر اور نیویارک اسٹیٹ کے سابق گورنر کو شکست دے کر تاریخ رقم کی ہے۔   اگر نومبر میں  ہونے والا مئیر کا انتخاب ۳۳؍ سالہ ظہران جیت جاتے ہیں  تو وہ امریکہ کے سب سے بڑے شہر کے پہلے جنوب ایشیائی اور پہلے مسلم مئیر ہوں  گے اور ہاں  انہیں  سو سال میں  نیویارک کے سب سے کم عمر میئر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوگا۔  
ظہران نے  امریکی سیاست کے تمام مروجہ اصولوں  کو منہدم کرکے یہ کامیابی حاصل کی۔خواہ صدارتی انتخاب ہو یابلدیاتی امریکہ میں  اسرائیل کی حمایت اور اطاعت کا اقرار کئے بغیر کسی امیدوار کا الیکشن جیتنا ناممکن ہے۔ اسرائیل پر غزہ میں  نسل کشی کا الزام عائد کرنے اور یہ وارننگ دینے کے باوجود کہ’’ جنگی مجرم‘‘ بنجامن نیتن یاہو اگر نیویارک میں  قدم رکھیں  گے تو انہیں  گرفتار کرلیا جائے گا، اگر کوئی شخص ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی جیت لیتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ شخص کراماتی صلاحیتوں  کا مالک ہے۔ ظہران میں  کچھ تو غیر معمولی ہے ورنہ ایسے باغیانہ تیور والے شخص کو اس شہرنے سر آنکھوں  پر نہیں  بٹھایا ہوتا جہاں  تل ابیب کے بعد دنیا کے سب سے زیادہ یہودی بستے ہیں ۔لیکن ممدانی نہ مسلمان ہونے کی وجہ سے جیتے اور نہ ہی فلسطینیوں  کے انسانی حقوق کی وکالت کی وجہ سے ۔ان کی فتح کا راز یہ ہے کہ انہوں  نے نیویارک کے لوگوں  کی زندگی میں  آسانیاں  فراہم کرنے کیلئے ایک واضح اور مثبت روڈ میپ پیش کیا۔ 
ظہران نے کئی مہینوں  تک شہر میں  گھوم گھوم کر اورعام لوگوں  سے رابطہ قائم کرکے ان کے حقیقی مسائل کو پہلے سمجھا اور پھر انہیں  حل کرنے کا وعدہ کیا۔ گھروں  کے کرائے کم کرنے،مفت بس سروس شروع کرنے، چھ سال تک کی عمرتک مفت چائلڈ کیئر فراہم کرنے اور ایسے سرکاری سپرمارکیٹ کھولنے جہاں  کم قیمت پر راشن دستیاب ہوگا کے وعدوں  نے نیویارک کے مصائب کا شکار لوگوں  کے دلوں  میں  امید کی جوت جلائی۔ ممدانی نے ایک اور بہت بڑا خواب عوام کو دکھایا: اجرت ۱۶؍ ڈالر فی گھنٹہ سے بڑھاکر ۳۰؍ ڈالر فی گھنٹہ کرنے کا خواب۔
کومو  ڈیموکریٹک اسٹیبلشمنٹ کے نمائندہ تھے جنہیں  ارب پتی ساہوکاروں  اورنیو یارک ٹائمز اور  سی این این جیسے میڈیا   گھرانوں  کی سرپرستی حاصل تھی۔ تارکین وطن والدین کے چشم و چراغ ظہران کو خود اپنی پارٹی کی مکمل حمایت حاصل نہیں  تھی، ان کے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی بارسوخ کارپوریٹ ہاؤس یا ذرائع ابلاغ نہیں  تھا۔ انہوں  نے پھر بھی ہمت نہیں  ہاری۔ سوشل میڈیا پر جس انوکھے ڈھنگ سے انتخابی پرچار کیا اس کی مثال امریکہ کی سیاسی تاریخ میں  نہیں  ملتی ۔ ظہران اردو، ہندی، بنگلہ بھی روانی سے بولتے ہیں  اور انگریزی اور ہسپانوی بھی۔ ظہران کے پاس انتخابی مہم کیلئے پیسے نہیں  تھے۔ انہوں  نے کسی کارپوریٹ گھرانے کے سامنے ہاتھ نہیں  پھیلا یا بلکہ عام نیو یارکر سے چندے کی اپیل کی۔ چند دنوں  کے اندر اتنی رقم جمع ہوگئی کہ انہیں  لوگوں  سے مزید چندہ نہ دینے کی اپیل کرنی پڑی۔
 ظہران نے محض چھ ماہ کی مدت میں  نیو یارکرز  کے دلوں  میں  اپنا مقام بنالیا۔وہ جوان دلوں  کی دھڑکن بن گئے۔ ان کی باتوں  میں  لوگوں  کو روایتی سیاستدانوں  کی ریاکاری نہیں  بلکہ ایک سچے اور ہمدرددوست کا خلوص نظر آیا۔ قلیل عرصے میں  انہوں  نے لوگوں  کا دل ہی نہیں  اعتماد بھی جیت لیا۔ اسی لئے جب انہوں  نے وعدہ کیا کہ وہ نیویارکرز کے مصارف زندگی  کم کرنے پر اپنا پورا زورلگادینگے تولوگوں  نے اس پر یقین کیاجبکہ سیاسی اشرافیہ، کارپوریٹ گھرانے اور میڈیا ظہران کے منصوبوں  کو غیر حقیقی اور اور شیخ چلی کا خواب قرار دیتا رہا۔
ظہران کی جیت کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ وہ عمدہ مقرر ہیں ۔ نیویارک کے لئے اپنے منصوبوں  اور وژن کو وہ موثر اور دلنشیں  انداز میں  لوگوں  تک پہنچانے میں  کامیاب رہے۔نیو یارک سٹی پانچ حلقوں  (Boroughs) پر مشتمل ہے۔ ظہران کو ان میں  سے Manhattan اور Queens اورBrooklynجیسے بورو میں  اکثریت ملنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کو معاشرے کے تمام مذہب و نسل اور زبان بولنے والے لوگوں  کی حمایت ملی۔ جو بات امریکہ کے دائیں  بازو کے سیاسی لیڈروں  کے ساتھ ساتھ اسرائیل نواز ڈیموکریٹ لیڈروں  کو بھی بے حد ناگوار گزری وہ یہ ہے کہ فلسطین کی حمایت اور نیتن یاہو کی سخت تنقید کرنے کے باوجود نیو یارک کے یہودیوں  کے ایک طبقے نے بھی انہیں  ووٹ دیا۔
اپنی مسلم شناخت کے باوجود ظہران ایک ترقی پسند، روشن خیال، سیکولر، سوشلسٹ جمہوریت پسند نوجوان کا امیج تعمیر کرنے میں  بہت حد تک کامیاب رہے۔ یہ ایک مشکل کام تھا جسے Brad Lander نے آسان بنادیا۔ لینڈر بھی میئر کی امیدواری کے لئے الیکشن لڑ رہے تھے اور تیسرے نمبر پر آئے۔ لیکن انہوں  نے بدکردار اور بدعنوان کومو کو ہرانے کیلئے ظہران سے ہاتھ ملالیا اور جگہ جگہ انتخابی مہم میں  ان کی حمایت میں  تقریر کرتے تھے۔ لینڈراس وقت نیو یارک شہر کے اعلیٰ ترین منتخب یہودی عہدیدار ہیں ۔ انکی حمایت نے بہت سے یہودی ووٹروں  کی بدگمانی دور کرنے میں  اہم رول ادا کیا۔

یہ بھی پڑھئے : چین دریائے برہم پترکا پانی نہیں روک سکتا

 محنت کش طبقے کی زندگی سنوارنے اور ارپ پتیوں  پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کے عزم کا اظہار کرکے ظہران نے امریکی سرمایہ داروں ، دائیں  بازو کی طاقتوں  اور ریپبلیکن پارٹی کی نیندیں  اڑادی ہیں ۔ ٹرمپ نیو یارک میں  سماجی اور معاشی  مساوات قائم کرنے کے  ظہران کے منصوبوں  سے اس قدر چراغ پا ہوگئے کہ انہیں  ’’پاگل کمیونسٹ‘‘ قرار د ے دیا ہے۔ ظہران کو جان سے مارنے کی دھمکیاں  بھی دی جارہی ہیں  اور ان کی شہریت کینسل کرکے انہیں  ملک بدر کرنے کی سازشیں  بھی ہورہی ہیں ۔ ظہران نے ابھی صرف ڈیمو کریٹ پارٹی کی امیدواری پکی کی ہے ان کا اصل امتحان نومبر میں  ہوگا جب الیکشن ہوگا۔ حتمی نتیجہ جو بھی ہو ظہران کی ابھی تک کی کامیابی بھی یقیناً غیر معمولی کہی جائے گی۔ ذرا تصور کیجئے ایک نوجوان جو یوگانڈا میں  پیدا ہوا، جس کی رگوں  میں  ہندوستانی خون دوڑ رہا ہو،جو مسلم ہو اور اسرائیل کی علی الاعلان مخالفت کرتا ہواور سب سے اہم بات یہ کہ جس نے محض چھ سات سال قبل امریکی شہریت حاصل کی ہو اگر وہ شخص دنیا کے امیر ترین شہر نیو یارک کے میئرکے منصب کی دہلیز تک پہنچ گیاہو تو کیا میں  یہ غلط کہتا ہوں  کہ امریکہ وہ ملک ہے جہاں  سپنے سچ ہوتے ہیں ؟

new york Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK