Inquilab Logo Happiest Places to Work

بہار میں راشٹریہ جنتا دل تنظیمی تشکیل ِ نو کا پیغام!

Updated: July 31, 2025, 4:24 PM IST | Dr. Mushtaq Ahmed | Mumbai

بہار میں انتخابی کمیشن نے ووٹر نظر ثانی مہم کے تحت ہر ایک اسمبلی حلقہ میں پانچ سے دس ہزار ووٹوں کی تخفیف کردی ہے ۔ انتخابی کمیشن اس کا جواز یہ پیش کر رہی ہے کہ اب تک فوت ہوئے رائے دہندگان کا نام بھی ووٹر لسٹ میں شامل تھا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

 بہار میں اسمبلی انتخاب کا اعلان کسی بھی دن ہو سکتا ہے اس لئے تمام سیاسی جماعتیں اپنے تنظیمی ڈھانچوں کو مستحکم کرنے میں لگی ہوئی ہیں کیوں کہ یہ حقیقت جگ ظاہر ہے کہ اس بار بہار اسمبلی انتخاب میں ایک طرف قومی جمہوری اتحاد اور دوسری طرف عظیم اتحاد آمنے سامنے ہوگی۔البتہ کئی نئی علاقائی سیاسی جماعتیں اپنی طاقت آزمائے گی اور اس سے نتیجہ بھی کچھ نہ کچھ متاثر ضرور ہوگا۔جہاں تک سوال راشٹریہ جنتا دل کا ہے تو گزشتہ ۲۰۲۰ءاسمبلی انتخاب میں ۷۵؍سیٹیں حاصل کرنے کے باوجود وہ حکومت سازی میں ناکام رہی کیوں کہ ان کی دیگر اتحادی جماعتوں کو بھی اتنی سیٹیں نہیں تھیں وہ حکومت سازی کا دعویٰ کر سکیں۔لیکن اس بار انتخابی کمیشن نے ووٹر نظر ثانی مہم کے تحت ہر ایک اسمبلی حلقہ میں پانچ سے دس ہزار ووٹوں کی تخفیف کردی ہے ۔ انتخابی کمیشن اس کا جواز یہ پیش کر رہی ہے کہ اب تک فوت ہوئے رائے دہندگان کا نام بھی ووٹر لسٹ میں شامل تھا اور ایسے ووٹروں کا نام بھی درج تھا جو ریاست کو چھوڑ کر دوسری ریاستوں میں چلے گئے ہیں ۔لیکن تلخ سچائی یہ ہے کہ انتخابی کمیشن نے جس عجلت میں ووٹر نظر ثانی کا کام مکمل کیا ہے اس میں لاکھوں ووٹر اپنا نام در ج کرانے سے محروم رہ گئے ہیں۔ بالخصوص مزدورطبقہ جو دیگر ریاستوں میں روزی روٹی کے لئے گئے ہیں وہ وقت پر نہیں آسکے ہیںاس لئے نہ صرف بہار بلکہ قومی سطح پر بھی انتخابی کمیشن کی اس مہم کو مشتبہ قرار دیا جا رہاہے اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے ذریعہ مخالفت بھی ہو رہی ہے ۔
 بہر کیف!راشٹریہ جنتا دل نے اسمبلی انتخاب کے مدنظر اپنے تنظیمی ڈھانچوں کو مستحکم کرنے کے لئے اس کی تشکیلِ نو کی ہے۔ جنتا دل سے الگ ہو کر ۱۹۹۷ء میں راشٹریہ جنتا دل کی شکل میں یہ پارٹی وجود میں آئی اور مسلسل ۲۰۰۴ء تک اقتدار میں رہی لیکن ۲۰۰۵ء میں اقتدار سے بے دخل ہوئی اور آج تک حکومت سازی میں ناکام ہے۔اس لئے اس بار پارٹی اپنے اتحادیوں یعنی کانگریس،بایاں محاذ کے ساتھ مل کر قومی جمہوری اتحاد کو شکست دینے کی ہر ممکن کوشش میں لگی ہوئی ہے ۔اگر حالیہ دو دہائی میں راشٹریہ جنتا دل کے ووٹ فیصد پر سرسری نگاہ دوڑائیں تو اس کے ووٹ فیصد میں دنوں دن کمی ہوتی گئی ہے۔ ۲۰۰۰ء میں راجد کو ۲۸ء۳۹؍ فیصد ووٹ ملا تھا۔ ۲۰۰۵ء میں ۲۵ء۰۷؍ ۲۰۱۰ء میں ۱۸ء۸۴؍ ۲۰۱۵ء میں ۱۸ء۴؍ اور ۲۰۲۰ء میں ۲۳ء۱۱؍فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔اگر سیٹوں پر نگاہ دوڑائیں تو ۲۰۰۰ء میں ۱۲۴؍ سیٹیں ، ۲۰۰۵ء میں ۷۵؍ سیٹیں ، ۲۰۱۰ء میں ۲۲؍ سیٹیں، ۲۰۱۵ء میں ۸۰؍ سیٹیں اور ۲۰۲۰ء میں ۷۵؍سیٹیں ملی تھیں۔گزشتہ دو دہائی سے نتیش کمار بر سراقتدار ہیں اورنتیش کی مدت کار میں دو بار راشٹریہ جنتا دل بھی سال دوسال کے لئے اقتدار میں رہی ہے ۔ لیکن اب نتیش کمار نے اعلانیہ طورپر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ ہی اسمبلی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیاہے۔اگر ۱۹۹۷ء سے اب تک راشٹریہ جنتا دل کے سیاسی سفر پر نگاہ دوڑائیں تو پارٹی کبھی بھی اپنے بل بوتے اقتدار میں نہیں رہی ہے بلکہ کبھی کانگریس تو کبھی بایاں محاذ کے سہارے ہی اقتدار میں رہی ہے۔اس لئے اس اسمبلی انتخاب میں بھی راشٹریہ جنتا دل کی یہ مجبوری ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ ہی میدان میں اترے۔پارٹی سپریمو لالو پرساد یادوکی سیاسی فعالیت برائے نام رہ گئی ہے البتہ ان کے صاحبزادہ تیجسوی پرساد یادو جو نتیش کمار کی قیادت والی حکومت میں دو بار نائب وزیر اعلیٰ بھی رہے ہیں وہ پارٹی کو از سر نو زمینی سطح پر مستحکم کرنے کیلئے جی توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن ایک تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ لالو یادو کی طرح تیجسوی کا جادو نہیں چل پا رہا ہے۔ حال کے دنوں میں کئی علاقائی نئی سیاسی جماعتوں کی فعالیت کی وجہ سے بھی راشٹریہ جنتا دل کے روایتی ووٹروں میں کمی ہوئی ہے۔بالخصوص جب سے راجیہ سبھا میں منوج کمار جھا اور سنجے یادو کو بھیجا گیاہے اس کے بعد اس طرح کے سوال زیادہ ہو رہے ہیں۔ایک طرف مسلم طبقے میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ جب ریاست میں برہمن طبقے کا ایک بھی ووٹ راشٹریہ جنتا دل کو نہیں ملتا ہے تو پھر منوج جھا کو راجیہ سبھا کیوں کر بھیجا جا رہاہے ۔ دوسری طرف یادو طبقے میں بھی یہ سوال گردش کر رہاہے کہ سنجے یادو کا تعلق ہریانہ سے ہے اگر یادو طبقے سے ہی راجیہ سبھا میں بہار کے کسی یادو کو بھیجا جاتا تو پارٹی کے مفاد میں ہوتا۔بلا شبہ منوج جھا پارٹی کے موقف کو قومی سطح پر رکھنے کیلئے مفید ضرور ہیں لیکن ان کی وجہ سے ریاست میں ووٹ فیصد میں اضافہ ہو اور بالخصوص جس طبقے سے ان کا تعلق ہے اس طبقہ کو وہ  آر جے ڈی کی طرف مائل کر سکیں وہ قوت ان کے اندر نہیں ہے ۔ 
 پارٹی کے ایک قد آور لیڈر عبدالباری صدیقی کو قومی چیف جنرل سکریٹری بنایا گیاہے اور سابق مرکزی وزیرِ مملکت علی اشرف فاطمی کو اقلیتی سیل کا قومی صد بنایا گیا ہے اور دیگر جو نام شامل ہے وہ کوئی بڑا پر کشش مسلم چہرہ نہیں ہے۔حالیہ تنظیمی ڈھانچوں پر نظر دوڑائیں تو لالو یادو کو قومی صدر کے عہدہ پر برقرار رکھا گیاہے اور نائب صدور کے طورپر رابڑی دیوی، ادئے نرائن چودھری، جگدانند سنگھ، محبوب علی قیصر شامل ہیں۔جنرل سکریٹری کی فہرست میں جئے پرکاش نرائن یادو، بھولا یادو، رینو کشواہا، دینو یادو،للت کمار یادو ، سید فیصل علی ، ابھئے سنگھ، سکھدیو پاسوان، سوشیلا موریہ اور نیلا روہت داس کے نام شامل ہیں۔ سکریٹری کے طورپر یدوونش کمار یادو، بھارت بھوشن منڈل، وجے ورما، سنتوش کمار جیسوال،سریندر رام اور سویٹی سیما ہیمبرن کو جگہ دی گئی ہے ۔راجد خواتین سیل کی کمان کانتی سنگھ کو اور یوتھ راجد کی ذمہ داری ابھے کشواہا کو دی گئی ہے۔ حال ہی میں ریاستی صدر کے طورپر منگنی لال منڈل کو منتخب کیا گیاہے ۔ اگر اس فہرست پر سنجیدگی سے غور کریں تو پارٹی نے یہ کوشش ضرور کی ہے کہ تنظیمی ڈھانچوں کو مستحکم کرنے میں مختلف طبقے کی نمائندگی بھی یقینی ہو۔ ظاہر ہے کہ بہار میں ذات پات کی سیاست کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اور اس کا خیال ہر ایک سیاسی جماعت رکھتی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ اسمبلی انتخاب تک عظیم اتحاد میں شامل کانگریس اور بایاں محاذ کے درمیان سیٹوں کی تقسیم کے بعد کس طرح کی صف بندی بر قرار رہتی ہے کہ اس اسمبلی انتخاب میں نتائج کا دارومدار اتحادی پارٹیوں کے درمیان سیٹوں کی تقسیم اور ایماندارانہ طورپر ایک دوسرے کیلئے معاون ثابت ہونے پر ہی ہے۔

bihar Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK