• Sun, 09 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

دوسرے مرحلہ میں بھی بمپر پولنگ کی امید

Updated: November 09, 2025, 8:15 AM IST | Patna

پہلے مرحلے میںبہار کی تاریخ کی ریکارڈ توڑ پولنگ سے اپوزیشن پارٹیاں پُرجوش۔ تجزیہ کاریہ کہہ رہے ہیں کہ ماضی میں بہت کم ایسا ہوا ہے کہ پولنگ زیادہ ہونے کے باوجود حکومت برقرار رہی ہے ،دوسرے مرحلے میں بھی جوش و خروش سےووٹ ڈالنےکی اپیلیں

Polling officers depositing EVMs in the strong room after the first phase of polling. (PTI)
پہلے مرحلے کی پولنگ کے بعد ای وی ایم اسٹرانگ روم میں جمع کرواتے ہوئے پولنگ افسران ۔(پی ٹی آئی )

بہار اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ریکارڈ ووٹنگ کے بعد مہاگٹھ بندھن اور این ڈی اے دونوں خیموں کے لیڈروںمیں جوش و خروش بڑھ گیا ہے۔ وہ اب دوسرے مرحلے کے انتخابات کے لیے اپنی پوری طاقت جھونک رہے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں ۱۱؍ نومبر کو وٹ ڈالے جائیں گے ۔ دونوں ہی خیموں کو امید ہے کہ اس مرتبہ بھی بمپر پولنگ ہو گی۔  امید یہی کی جارہی ہے کہ دوسرے مرحلے میں بھی پہلے مرحلے جیسی پولنگ کا رجحان برقرار رہے گا۔ دریں اثناءپہلے مرحلے کی ووٹنگ کے نتائج اور رجحانات سے کہیں نہ کہیں یہ واضح ہو رہا ہے کہ بہار کے عوام تبدیلی چاہتے ہیں۔ یہ رجحان اس بات کا اشارہ ہے کہ عوام اس بار فرقہ وارانہ اور منفی سیاست سے اوپر اٹھ کر ترقی، روزگار اور تعلیم جیسے مسائل پر ووٹ دیں گے۔
  واضح رہے کہ بہار اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے کی ووٹنگ  میں ۶؍ نومبر کو ہونے والی پولنگ  ۶۵ء۰۸؍ فیصد رہی ۔ یہ بہار کی تاریخ کی سب سے زیادہ پولنگ ہے۔ووٹر ٹرن آؤٹ۲۰۲۰ء کے مقابلے میں تقریباً ۸؍فیصد زیادہ ہے ۔ بہار کی تاریخ میں پہلے مرحلے میں یہ سب سے زیادہ ووٹنگ ہے۔۲۰۲۰ء میں پہلے مرحلے میں۵۶ء۱؍ فیصد ووٹ ڈالے گئے تھے جبکہ ۲۰۱۵ء میں ۵۵ء۹؍ فیصد تھی اور ۲۰۱۰ء میں ۵۲ء۱؍ فیصدپولنگ ہوئی تھی  ۔اس بار پہلے مرحلے میں ۳۶؍ لاکھ زائدووٹرس نے اپنے حق رائے دہی کااستعمال کیا ہے۔۲۰۲۰ء میں  پہلے مرحلے میں کل۳ء۷۰؍ کروڑ ووٹرس تھے، جن میں سے۲ء۰۶؍کروڑ نے ووٹ دیا تھا لیکن اس بار پہلے مرحلے میں کل۳ء۷۵؍ کروڑ ووٹرس تھے اور۲ء۴۲؍ کروڑ  لوگوں نے اپنے حق رائے دہی استعمال کیا ۔
 اب سیاسی حلقے اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ آیا یہ زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے یا عوام نتیش کمار کی جیت کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ درحقیقت، ہندوستانی انتخابی تاریخ میں، عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جب ووٹر ٹرن آؤٹ زیادہ ہوتا ہے تو عوام تبدیلی کی خواہش کرتے ہیں ۔ تاہم ایسا ہمیشہ نہیں ہوا ہے۔ بعض اوقات، زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ بھی حکومت کی حمایت کی علامت ہوتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ ووٹر کی یہ سرگرمی کس سمت لے جائے گی اس کا اندازہ  بہت جلد ہو جائے گا کیوں کہ ۱۴؍ نومبر کو نتائج کا اعلان ہو گا۔ 
 پہلے مرحلے میں بہار کے نو ڈویژن میں سے چھ میں ووٹنگ ہوئی جن میں دربھنگہ، ترہوت، کوسی، سارن، مونگیر اور بھاگلپور شامل ہیں۔ اس بار پرشانت کشور کی جن سوراج پارٹی کے داخلہ سے مقابلہ سہ رخی ضرور ہوا ہے لیکن اس کا کتنا اثر ہوگا یہ کہنا مشکل ہے۔ ووٹر ٹرن آؤٹ میں اضافے نے دونوں کیمپوں کو ہوشیار کردیا ہے۔ این ڈی اے کا دعویٰ ہے کہ یہ عوامی اعتماد کی علامت ہے، جبکہ مہا گٹھ بندھن  اسے تبدیلی کی علامت کے طور پر دیکھتا ہے۔بہار کی سیاست میں، زیادہ ووٹروں کے ٹرن آؤٹ کے اکثر دو معنی ہوتے ہیں: پہلا، یہ عوامی عدم اطمینان کی نشاندہی کرتا ہے، اور دوسرا، یہ ایک خاص طبقے کے متحد ووٹ کی نشاندہی کرتا ہے

bihar Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK