منشی نولکشور نے اپنے ادارے سے جن کتابوں کو شائع کیا ان کی تعداد کم و بیش پانچ ہزار بتائی جاتی ہے۔ انہیں محفوظ رکھنے کی کوششیں جاری ہیں۔ آج کی یہ گفتگو منشی نولکشور کی ان یادوں سے مکالمہ ہے جو پرانے اور خستہ کاغذوں کی صورت میں ہمارے ساتھ ہیں۔
EPAPER
Updated: June 30, 2025, 5:36 PM IST | sarwarul-huda | Mumbai
منشی نولکشور نے اپنے ادارے سے جن کتابوں کو شائع کیا ان کی تعداد کم و بیش پانچ ہزار بتائی جاتی ہے۔ انہیں محفوظ رکھنے کی کوششیں جاری ہیں۔ آج کی یہ گفتگو منشی نولکشور کی ان یادوں سے مکالمہ ہے جو پرانے اور خستہ کاغذوں کی صورت میں ہمارے ساتھ ہیں۔
منشی نول کشور ۳؍ جنوری ۱۸۳۶ءکو پیدا ہوئے اور ۱۹؍فروری ۱۸۹۵ءکو ان کا انتقال ہوا۔ زندگی کا یہ عرصہ لمبی زندگی کے مقابلے میں مختصر معلوم ہو سکتا ہے لیکن مدت کے اعتبار سے جو زندگی لمبی، آسودہ اور اپنی ذات کی زندانی ہے، وہ اس مختصر زندگی کی طوالت اور ریاضت کا تصور نہیں کر سکتی۔ نولکشور کی تعلیم تسلسل کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکی لیکن انہیں اپنے زمانے کی سیاسی، سماجی اور تہذیبی صورتحال کا گہرا ادراک تھا۔ عزیز احمد کا خیال ہے کہ اگر سر سید تحریک نہ ہوتی اور نولکشور کا اشاعتی ادارہ نہ ہوتا تو اپنی علمی اور تہذیبی وراثت کو باقی رکھنا مشکل تھا۔ سر سید تحریک کے مقابلے میں نول کشور کا اشاعتی ادارہ ایک معنی میں محدود تھا، اس کی عملی کوشش میں خاموشی بہت تھی۔ عزیز احمد کے ذہن میں دونوں اداروں کی خدمات کی تاریخ بھی تھی اور تہذیب بھی۔
تحریر اساس معاشرہ بعض اوقات زبانی روایت کی پروا نہیں کرتا اور تحریری ثبوت مانگتا ہے۔ پرنٹ کلچر قصہ، کہانی کی روایت کے لئے روشن دور کا آغاز بھی تھا اور اس کی روح کے ساتھ بڑھتا ہوا فاصلہ بھی۔ علمی کتابوں کا تعلق زبانی روایت سے تو نہیں ہے، لیکن قصے کہانی اور حکایت کا مزاج حافظے سے وابستہ ہے۔ نول کشور نے نو آبادیاتی ہندوستان میں جس پرنٹ کلچر کو رائج کرنے کی تاریخی کوشش کی وہ نو آبادیاتی جدیدیت کے لیے ایک تازیانہ بھی تھا۔
نو آبادیاتی نقطہ نظر سے نول کشور کی اشاعتی خدمات کو ابھی ٹھیک سے دیکھا نہیں جا سکا ہے۔ کہیں کہیں اس کی طرف اشارے ضرور ملتے ہیں مگر یہ خیال بہت کم آتا ہے کہ پرنٹ کلچر سے کس طرح اور کیوں کر نئے کلچر کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ پرنٹ کلچر خود ہی نئے کلچر کی علامت تھی مگر نول کشور نے اس جدیدیت کو اپنی روایت کے تحفظ کے لیے استعمال کیا۔ یہ ایک ایسا شعور ہے جو کسی بھی تہذیبی معاشرے کو مخالف صورتحال میں روشنی دکھا سکتا ہے۔ نول کشور کو کیسٹون آف انڈیا بھی کہا جاتا ہے۔ ولیم کیسٹون ایک انگریزی قلم کار تھا جس نے پرنٹنگ پریس کو انگلینڈ میں روشناس کیا۔ انہیں Mirror of Urdu printing in British India بھی کہا جاتا ہے۔ نول کشور نے ۱۸۵۸ء میں مختصر وسائل کے ساتھ اشاعت کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ گرچہ واقعات اور حقائق پر مبنی تاریخ ہے لیکن اس سفر پر غور کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نو آبادیاتی ہندوستان میں ایک نئی کہانی کا آغاز ہو رہا ہے۔ ایک ایسی کہانی جسے تاریخ بھی بننا تھا اور تاریخ کی کہانی بھی۔ منشی نولکشور نے اپنے ادارے سے جن کتابوں کو شائع کیا ان کی تعداد کم و بیش پانچ ہزار ہے۔ انہیں محفوظ رکھنے کی کوششیں جاری ہیں ۔ آج کی یہ گفتگو منشی نولکشور کی ان یادوں سے مکالمہ ہے جو پرانے اور خستہ کاغذوں کی صورت میں ہمارے ساتھ ہیں ۔ ان کے الفاظ اپنی سیاہی کے ساتھ جس زندگی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں ، انہیں دیکھنا ایک نئے تجربے سے گزرنا ہے۔ نول کشور سے شائع ہونے والی کتابیں ڈیجیٹل کتابوں کی صورت میں پڑھی جا سکتی ہیں مگر اپنی انگلیوں سے انہیں چھونے اور پلٹنے کی جو سرشاری ہے اس کے حصول کی خواہش کبھی ختم نہیں ہو سکتی چنانچہ آج اپنے وطن کی لائبریری میں نول کشور کی ایک کتاب کے اوراق کو پلٹتے ہوئے محسوس ہوا کہ جیسے ہمارا وقت نول کشور کے وقت سے گلے مل رہا ہے۔
میں نے شعوری طور اپنے گھر کی لائبریری میں بھی نول کشور کی کتابوں کو رکھا ہے تاکہ نئی کتابوں کی چمک دمک کے درمیان قدیم پرنٹ کلچر کی زندگی کا روشن پہلو دیکھا جا سکے۔ ان کتابوں کی اشاعت کا وقت ہمارے زمانے کے وقت کے ساتھ اگر مل جائے تو صورتحال پڑھنے پڑھانے کی کچھ مختلف ہو سکتی ہے۔ موجودہ وقت میں چھپنے والی کتابیں جس پرنٹ کلچر کا پتا دیتی ہیں اس کا رشتہ نول کشور کے ادارے اور اس کے پرنٹ کلچر سے کتنا اور کیسا ہے، اس سوال پر غور کرتے ہوئے تاریخ کا خیال بھی رکھنا ضروری ہے اور حال کا بھی مگر نول کشور سے شائع ہونے والی کتابیں تاریخی اور تہذیبی وراثت کو محفوظ رکھنے کی کوشش کے طور پر دیکھی جاتی ہیں ۔ کہا جا سکتا ہے کہ ماضی کا ادارہ تہذیبی ادارے کی علامت بن جاتا ہے لہٰذا اس میں نول کشور کا اختصاص کیا ہے۔ ہر قدیم ادارہ اس معنی میں تہذیبی ادارہ نہیں ہو سکتا جس معنی میں نول کشور کو تہذیبی ادارہ کہا جاتا ہے۔ کوئی اشاعتی ادارہ کاروباری ذہن کے بغیر دیر تک قائم نہیں رہ سکتا لیکن کاروباری ذہن علمی اور ادبی مزاج اور معیار کے ساتھ بہت کم مفاہمت کرتا ہے۔ اب صورتحال بدل گئی ہے۔ پرنٹ کلچر پر مشکل وقت آن پڑا ہے لہٰذا سمجھا جاتا ہے کہ جتنی کتاب کی مانگ ہے اتنی ہی کتاب شائع کی جائے۔ پرنٹ کے صفحے پر کتاب کی تعداد زیادہ لکھی جائے اور کتاب کم شائع کی جائے۔ اس طرح کسی کتاب کا دوسرا اور تیسرا ایڈیشن بہت جلد منظر عام پر آجاتا ہے۔ مصنف خوش ہے اور پبلیشر بھی کہ کتاب کی کئی اشاعتیں عمل میں آ چکی ہیں ۔ ہمارے وقت کا پرنٹ کلچر نول کشور کے پرنٹ کلچر سے کیا مقابلہ کر سکتا ہے۔ پرنٹ کلچر اپنے وقت کے تقاضوں کی پیداوار بھی ہوتا ہے مگر شائع ہونے والی کتابیں جس کلچر کو فروغ دے رہی ہیں اس میں ذہن سازی کا کتنا جذبہ اور عمل ہے۔ ذہن سازی کا تعلق کتاب کے موضوع سے بھی ہے۔ موجودہ پرنٹ کلچر وقت کے ساتھ بہت تیز رفتار ہے۔ ابھی کتاب پڑھی بھی نہیں کہ دوسری کتاب چلی آتی ہے جس کے سبب نول کشور کی کتابیں موجودہ وقت میں اپنی پرنٹنگ کے ساتھ ٹھہری ہوئی معلوم ہوتی ہیں مگر اس ٹھہراؤ میں کتنی زندگی ہے۔ یہ چند سطریں نول کشور کی اشاعتی تہذیب سے ایک مکالمہ ہیں :
لکھنؤ میں پرنٹ کلچر/ اپنی تاریخ اور تہذیب کو محفوظ کرنے کی کوشش/ اپنی لسانی اور تہذیبی روح کو کالے نقوش میں منتقل کرنے کی کوشش/ کالے نقوش سے اجلے اور روشن نقوش کو آئینہ دکھانے کی کوشش/ طلسم ہوشربا کی جلدیں / مشرقی تخیل اور مغربی تعقل/ خوجی اور آزاد کے شہر میں / ایک شہر وہ بھی تھا جو مسمار ہوا جاتا تھا/ اس کی خبر کبھی دیر سے ملتی تھی/ اور کبھی نہیں مل پاتی/ فسانہ آزاد کی خوشگوار فضا میں آنسوؤں کا رکا ہوا سیل/ سرشار کی تہذیب سے نول کشور کی تہذیب کا رشتہ/ کوئی شخص ہے جس کی آنکھیں ہیں / اور وہ نم آنکھوں سے/ نول کشور کی اشاعتوں کو دیکھ رہا ہے/ نولکشور کی اشاعتیں / چندر شیکھر اور عبدالرشید کی نگاہیں کتنی دور تک گئیں / پرانے اور خستہ کاغذات کے ٹوٹنے اور بکھر جانے کا خوف/ یہ روشن وقت بھی دیکھنا تھا/ نول کشور کی خاموشیوں سے بھری ہوئی اشاعت کی تہذیب/ اشاعت کی تہذیب کا مطالعے کی تہذیب بن جانا/ تاریخ اور سیاست کے جبر سے نکلنے کی کوشش / تاریخ کی کتابوں سے نئی تاریخ کو سمجھنے کی کوشش/ استعمار کی چالاکی اور ہوشیاری/ پرنٹ کلچر کی جدیدیت رد استعماریت بنتی جا رہی تھی ۔