اُردو میں دلت ادب مراٹھی یا ہندی سے ترجمہ کیا گیا مگر ہماری صفوں میں ایک ایسا شاعر ہے جو اُردو ہی میں اپنے احساسات و جذبات نظم کرتا ہے۔ وہ ہیں جینت پرمار جو سماج کی تلخ سچائیوں کو آئینہ دکھاتے ہیں۔
جب مجھے چیف جسٹس آف انڈیا پر جوتا اُچھالے جانے کی اطلاع ملی، میرے ہوش اُڑ گئے جو کافی دیر تک بحال نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ صرف جوتا اُچھالنے کا واقعہ نہیں تھا۔ اس کی وجہ وہ طویل پس منظر تھا جس سے آگاہی رکھنے والا شخص ہر تازہ واقعہ کے پس پشت ماضی کے ہزاروں واقعات کو چشم زدن میں دیکھ لیتا ہے۔ اگر وہ شخص ادب کا قاری بھی ہے اور دلت ادب کا مطالعہ کرچکا ہے تو اُس کے ذہن میں درجنوں افسانوں اور ناولوں کے پلاٹ اُبھرنے لگتے ہیں۔ مَیں سوچ رہا تھا کہ کیا محنت سے پڑھ لکھ کر اپنا مقام بنانے اور قومی عدلیہ کی سربراہی جیسے جلیل القدر مرتبہ تک پہنچ کر ملک و قوم کی شاندار خدمت انجام دینے کی کوئی اہمیت نہیں؟ اہمیت صرف ذات کی ہے؟ جسٹس بی آر گوئی کی ذات دیکھی گئی اور اسی حساب سے طے کیا گیا کہ اُن کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے۔ جب بھی ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے یا جب مَیں کسی دلت ادیب کی کہانی یا ناول پڑھتا ہوں تو خود کو اُس کی جگہ رکھ کر دیکھتا ہوں یا یہ سوچتا ہوں کہ اِس وقت میرا فلاں دلت دوست کیا سوچ رہا ہوگا۔ چیف جسٹس پر حملے کے بعد جب مَیں اپنے اوسان بحال کرنے میں کامیاب ہوا تو میرے ذہن میں سوال آیا کہ اِس وقت میرے بزرگ دوست، نہایت عمدہ شاعر، بے پناہ مصور، مایہ ناز خطاط اور اُردو نواز جینت پرمار (دیکھئے تصویر اور اُن ہی کا بنایا ہوا خود کا پورٹریٹ) کیا سوچ رہے ہونگے۔ جی میں آیا فون کروں مگر ہمت نہیں ہوئی۔ اسی دوران اُن کی ایک نظم یاد آئی، مَیں نے اُن کا مجموعہ نکالا اور اُس نظم کی ایک ایک سطر پڑھنے لگا:
’’مَیں اگر جنت میں داخل ہوگیا بھی/ تم وہاں بھی مجھے پہچان لو گے
خوف کی چمگادڑیں ہر پل ستاتی ہیں مجھے/ تم نے جلتے کوئلے سے
میری پیشانی پہ لکھا ہے اچھوت‘‘
ایک اور مختصر نظم ہے جس کا عنوان ہی ’’اچھوت‘‘ ہے۔ کہتے ہیں:
’’تم مجھے چھوتی ہو جانم/ تن پہ گنگا جل چھڑک کر/ خود پوتر ہوگئی لیکن/ نہیں دُنیا میں ایسی چیز کوئی/ جو پوتر کرسکے مجھ کو / مَیں تو پیدا ہی ہوا ہوں اَپوتر/ عمر بھر مَیں اَپوتر ہی رہوں گا/ اور مر جاؤں گا اَپوتر‘‘
یہ اور ایسی کئی نظموں میں جینت (پرمار) نے درد کے اتھاہ سمندر کو محض چند مصرعوں کے کوزہ میں عمدگی کے ساتھ سمویا ہے۔ ایک اور نظم ’’کالا سورج‘‘ بھی اسی درد کو قاری تک پہنچانے کی خوبصورت کاوش ہے، اوپر تلے اس کے چند مصرعے نقل کرتا ہوں:
’’مکائی کی روٹی اور مرچ / رہ تکتی ہے باپو کا/ ٹوٹی پھوٹی چرپائی پر باپو کو/ بستی کے کچھ لوگ اُٹھا لے آتے ہیں / اونچی ذات کے لوگوں نے بے رحمی سے/ ان کو مارا ہے/ اُن کے محلے ّ پر غصے میں / پتھر پھینکتا ہوں/ شام کی چڑیا/ خون میں لت پت/ آنگن میں بے ہوش پڑی ہے‘‘
اسی نظم میں آگے لکھتے ہیں: ’’جاگ رہا ہوں، نئی نظم کے انتظار میں/ اور اچانک دروازے کو لات مار کر/ پولیس گھر میں گھستی ہے/ قلم چھین کر ہاتھوں میں پہناتی ہے / لوہے کی ہتھکڑیاں/ گھر کی چھت پر جھانک رہا ہے کالا سورج‘‘۔
جینت پرمار میرے پسندیدہ شاعروں میں سے ایک ہیں۔ اُردو اُن کی مادری زبان نہیں ہے، مادری زبان گجراتی ہے مگر اُردو اُن کے مزاج سے ہم آہنگ ہے اس لئے اُنہو ںنے اُردو سیکھی اور اسی زبان کو اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی کا وسیلہ بنایا۔ اُن کے تعارف میں ایک اور دوست شفاعت قادری نے ’’نیا ورق‘‘ میں لکھا ہے: ’’ جینت پرمار اِن دِنوں شہر کے نواحی علاقے واڈج (احمد آباد) میں قیام پزیر ہے جہاں اُس کا خوبصورت مکان ہے لیکن اِس سے قبل وہ اندرون قلعہ شاہ پور سرکی واڈ کے محلے میں رہتا تھا۔ یہ وہ محلہ ہے جہاں غریب اور نچلے طبقے کے مسلمانوں کی اکثریت ہے اور جہاں غریب اور نچلے طبقے کے دلت آباد ہیں۔ اسی محلے میں نیم کے درخت کے سائے تلے جینت کا معمولی اور چھوٹا سا آبائی مکان تھا۔ گھر میں ادبی ماحول نہیں تھا۔ گھر والوں کی زبان گجراتی تھی۔ ماں اَن پڑھ تھیں۔ والد مل مزدور تھے۔ جب اُس کے گھر کے قریب واقع برقعہ پوش کی مسجد سے موذن صبح کی اذان دیتا اور اس کی آواز جینت کے کانوں میں گونجتی تو اس پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ محلے میں نعت اور قوالی کے پروگرام ہوتے تھے۔ عیدپر محلے میں رات بھر محفلیں ہوا کرتی تھیں۔ ان محفلوں میں جے پور سے ایک غزل سنگر آتا تھا۔ اس کی خوبصورت آواز اور دھنیں جینت کے ذہن میں محفوظ ہو جاتی تھیں۔ جمعہ کی رات کو جینت کی گلی سے چمٹا بجاتے اور میر کی غزل ’’فقیرانہ آئے صدا کرچلے‘‘ گاتے ہوئے ایک فقیر گزر تا تھا۔ ان سارے واقعات نے اُسے متاثر کیا‘‘۔
جینت پرمار سے اس موضوع پر کبھی گفتگو کا اتفاق نہیں ہوا مگر محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح جسٹس بی آر گوئی کو چیف جسٹس آف انڈیا بننے کے باوجود محض اپنی ذات کی وجہ سے ہدف بنایا گیا، بالکل اُسی طرح جینت کو بھی اپنی عملی زندگی میں بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔شفاعت قادری کے مضمون میں اس کی ایک جھلک ملتی ہے۔ لکھا ہے کہ ’’پندرہ سال کی عمر میں جینت کو احساس ہوگیا تھا کہ اُسے گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ خود ہی اُٹھانا پڑیگا اس لئے اتنی کم عمری میں ہی اُس نے پورٹریٹ بنا کر بیچنا شروع کردیا تھا۔ ایک فریم میکر کے کہنے پر اُس کیلئے منی ایچر پینٹنگ بنانا تھا لیکن یہاں بھی آباء و اجداد کی میراث (دلت اور اچھوت ہونا) ساتھ رہی چنانچہ اس کیلئے اسٹوڈیو میں پانی کا مٹکہ اور گلاس الگ رکھا گیا، اس توہین آمیز سلوک کے پیش نظر جینت نے اگلے دن سے اسٹوڈیو جانا بند کردیا۔‘‘
جیسا کہ عرض کرچکا ہوں، جینت سچے جذبوں کے شاعر ہیں۔ اُن کی نظمیں پڑھتے ہوئے کہیں سے محسوس نہیں ہوتا کہ اُردو اُن کی مادری زبان نہیں ہے یا مادری زبان نہ ہونے کی وجہ سے اُردو میں اپنے فن کو برتتے ہوئے اُنہیں کوئی دُشواری ہورہی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اُردو اُن کیلئے جتنا بڑا تحفہ ہے اُس سے کہیں زیادہ بڑا تحفہ اُن جیسا شاعر، مصور اور خطاط ہے جو اُردو زبان کو میسر آیا۔
اتفاق سے آج جینت کا ۷۱؍ واں جنم دن بھی ہے۔