Inquilab Logo

نیپال ہندو راشٹر سے جمہوری ہوا، ہم کیوں روش بدلیں؟

Updated: April 21, 2024, 1:41 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

ہر ملک کو عالمی تاریخ سے سیکھنا چاہئے اور بہتری کے طریقوں کو اولیت دینا چاہئے۔ اہم سوال یہ ہے کہ ہم ہندو راشٹر بن کر کیا کرنا چاہتے ہیں؟

Photo: INN
تصویر:آئی این این

بنگلور میں  سول سوسائٹی کی ایک میٹنگ میں ، جو اس ہفتے منعقد ہوئی، یہ سوال پوچھا گیا کہ اگر بی جے پی کو تیسری مرتبہ اقتدار حاصل ہوگیا تو کیا ملک ہندو راشٹر بن جائے گا؟ اِس سوال پر غور کرنے سے پہلے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہندو راشٹر کا معنی کیا ہے اور اگر اُس کی تشکیل ہوگئی تو وہ موجودہ راشٹر سے کتنا مختلف ہوگا۔
 ۲۰۰۸ء تک، نیپال ہندو راشٹر تھا (بعد میں  ہم جیسا جمہوریہ ہوگیا)۔ پوری دُنیا میں  اپنی نوعیت کا اکیلا ہندو راشٹر۔ آپ جاننا چاہیں  گے کہ اُسے ہندو راشٹر بننے کی ضرورت کیوں  محسوس ہوئی تھی؟ اس لئے کہ منو اسمرتی کے مطابق انتظامی اختیارات ایک چھتریہ (شیتری، چھتری) راجہ کی جانب سے منتقل ہوتے تھے۔ نیپال نے ۱۹۵۹ء کے اپنے آئین میں  سربراہِ مملکت کی تعریف اس طرح بیان کی تھی کہ وہ شخص جو آریائی تہذیب اور ہندو مذہب کا پیروکار اور اس کا محافظ ہو لیکن ۱۹۶۲ء کے آئین نے نیپال کی تعریف ’’آزاد، غیر منقسم اور ہندو راشٹر‘‘ بیان کی تھی، اس کے ساتھ ہی سربراہ مملکت (بادشاہ) کو آریائی اور ہندو کلچر کا محافظ بتایا تھا۔ وہاں  کی راجیہ سبھا (گورننگ کونسل) میں  اس کا سربراہ برہمن (بڑا گروجیو) اور ذمہ دار پجاری (مو‘ل پروہت) بھی شامل تھے۔ اس کے بعد ۱۹۹۰ء کا آئین مرتب ہوا جس میں  ملک کو ’’کثیر نسلی، کثیر لسانی، جمہوری، آزاد، غیر منقسم اور خود مختار ہندو اور آئینی بادشاہی سلطنت‘‘ قرار دیا گیا۔ اس میں  بھی بادشاہ کو آریائی اور ہندو مذہب و تہذیب کا محافظ بتایا گیا۔ اِس آئین میں  راجیہ سبھا کا نام بدل کر راجیہ پریشد کردیا گیا اور مو‘ل پروہت کو ہٹا دیا گیا جبکہ بڑا گروجیو برقرار رکھا گیا۔
 یاد رہے کہ نیپال کے ۱۹۵۹ء کے آئین میں  مذہبی آزادی کو کچھ خاص اہمیت حاصل نہیں  تھی چنانچہ کسی کو یہ اختیار نہیں  تھا کہ وہ کسی دوسرے شہری کا مذہب تبدیل کروائے۔ ہر شہری کو اُسی مذہب پر کاربند رہنے کی اجازت تھی جس پر اُس کے آباء و اجداد کاربند تھے۔ اس کا معنی تھا کہ کوئی بھی شخص اپنے مذہب کی تبلیغ نہیں  کرسکتا تھا۔ نیپال میں  آج بھی یہی ہوتا ہے۔ تبدیلیٔ مذہب کے تعلق سے کوئی غلط فہمی نہ رہے اس مقصد کے تحت بعد کے آئین میں  یہ وضاحت کی گئی کہ ’’کوئی بھی شہری کسی دوسرے شہری کا مذہب تبدیل کروانے کا مجاز نہیں  ہوگا۔‘‘ مختصر یہ کہ نیپال اگر ہندو راشٹر تھا تو محض تین بنیادوں  پر: (۱) ذات پات کو زیادہ اہمیت حاصل تھی کیونکہ جو شتریہ ہے اُسی کو اختیارات حاصل ہونگے (۲) بادشاہ کے دربار میں  ذات پات کی بنیاد پر ہی مشیروں  کا انتخاب کیا جاتا تھا (۳) کسی کو مذہبی آزادی حاصل نہیں  تھی لہٰذا کہا جاسکتا ہےکہ ر مذہب کا پرچار ممنوع تھا۔ 
 آپ محسوس کرینگے کہ نیپال، ہندوستان سے زیادہ ایماندار تھا۔ ہمارے آئین کی دفعہ ۲۵؍ مذہب کی آزادی کو بنیادی حق قرار دیتی ہے لیکن ملک کی مختلف ریاستو ں میں  ایسے قوانین موجود ہیں  جن کے ذریعہ مذہب کے پرچار کو مجرمانہ فعل قرار دے دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذہب کی آزادی کا حق صرف کاغذ پر باقی ہے۔
 نیپال اسی حد تک ہندو راشٹر تھا۔ ذات پات کی بنیاد پر بالادستی اور زیر دستی، اس بنیاد پر عصبیت اور امتیاز عملاً نہیں  تھا اور شاید ہو بھی نہیں  سکتا تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ ملک حقوق انسانی کے تمام اعلامیوں  اور دور جدید کے ہر قانون اور طور طریقے کے منافی ہوتا جو شہریوں  کو آزادی اور مساوات عطا کرتے ہیں ۔ 
 اس تناظر میں  آپ محسوس کرینگے کہ اگر ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی کوشش کی گئی تو یہ ممکن نہیں  ہوگا۔ ہمارے یہاں  وہ موروثی بادشاہت نہیں  ہے جو نیپال میں  ہے۔ اس کے باوجود اگر نیپال نے طے کیا کہ اُسے ہندو راشٹر سے جمہوری ملک میں  تبدیل ہونا چاہئے اور پھر اس نے ایسا کردکھایا تو کس بنیاد پر آر ایس ایس اور بی جے پی یہ تاثر دیتے ہیں  کہ ہندوستان کو ہندو راشٹر ہونا چاہئے؟ اس سوال کا ہمارے پاس جواب نہیں  ہے کیونکہ نہ تو آر ایس ایس نے نہ ہی بی جے پی نے کبھی اس کی وضاحت کی۔ انہوں  نے کوئی مسودہ یا چارٹر یا دستور جو ہندو راشٹر سے متعلق ہو کبھی منظر عام پر لانے کی ضرورت محسوس نہیں  کی تاکہ عوام یہ جان سکیں  کہ ہندو راشٹر کیسا ہوگا اور موجودہ راشٹر سے کتنا مختلف ہوگا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان کی توجہ کا مرکز کوئی اور نہیں  صرف اقلیتیں  ہیں ۔
 اگر ان کی جانب سے کوئی وضاحت ہو کہ ہندو راشٹر ایسا ہوگا تو ممکن ہے یہ بتایا جائے کہ اس میں  کوئی غیر ہندو وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ نہیں  بن سکتا، ان عہدوں  پر صرف ہندوؤں  کا اختیار ہوگا۔ اس نکتے پر بھی غور کیجئے تو محسوس ہوگا کہ ہمارے ملک میں  ایسا کوئی قانون تو ہے نہیں  مگر اس کی ضرورت بھی نہیں  ہے۔ ملک میں  کوئی وزیر اعلیٰ ایسا نہیں  جو مسلمان ہو، کشمیر کے علاوہ کسی ریاست میں  مسلمان وزیر اعلیٰ بنا بھی تو پورے پانچ سال عہدہ پر قائم نہیں  رہا۔ رہی بات وزیر اعظم بننے کی تو آج تک کسی بھی مسلم شہری کو یہ اعزاز نہیں  ملا۔
 آر ایس ایس اور بی جے پی کے ذہن میں  جو ہندو راشٹر ہے اس میں  امتیازات کی بنیاد پر چند اور باتیں  ہوسکتی ہیں  جو یقینی طور پر اقلیتوں  کے خلاف ہوں  گی۔ ۱۹۳۰ء کے جرمنی میں  ایسے قوانین منظور کئے گئے تھے جن میں  الگ الگ برادریوں  میں  شادی ممنوع تھی۔ ہندوستان میں  ۲۰۱۸ء کے بعد بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں  نے ہندو اور مسلم لڑکے لڑکیوں  کے درمیان شادی کی ممانعت والے قوانین منظور کئے ہیں ۔ جرمنی کے قانون میں  یہودی شہریوں  کو شہریت حاصل نہیں  تھی اور ہندوستان میں  سی اے اے کا قانون منظور کیا جاچکا ہے جس میں  مسلمانوں  کو شامل نہیں  کیا گیا۔
 جو ہندو راشٹر میں  ہوسکتا تھا وہ آئین کو تبدیل کئے بغیر جمہوری ہندوستان میں  ہوچکا ہے وہ نماز (دہلی کے قریب این سی آر میں ، ۲۰۲۱ء)، حجاب (کرناٹک، ۲۰۲۱ء میں )، بڑے کا گوشت (۲۰۱۵ء سے)، بلڈوزر (پورے ملک میں ، اب بھی جاری)، تین طلاق (۲۰۱۹ء) اور ایسے ہی دیگر قوانین اور پالیسیاں  ہیں ۔ یہ قوانین یا پالیسیاں  ہندو راشٹر میں  نافذ کئے جاسکتے تھے مگر جمہوری ہندوستان میں  نافذ کئے جاچکے ہیں ۔
 ایسے میں  سوال اُٹھتا ہے کہ جو ہندو راشٹر میں  ہوسکتا تھا وہ پہلے ہی ہوچکا ہے تو ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK