اس میں کوئی شک نہیں کہ مختلف سرکاری اسکیموں کی رقم استفادہ کرنے والوں کے بینک کھاتوں میں بھیجی جا رہی ہے اور اس کا خاطر خواہ فائدہ بھی دیکھنے کو مل رہاہے ۔ مگر جہاں تک غربت میں کمی واقع ہونے کا سوال ہے تو زمینی حقیقت کچھ اور ہی بیان کرتی ہے کہ ملک میں بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے۔
ہمارے قومی ذرائع ابلاغ میں اکثر وبیشترعوامی مسائل اورشعبۂ حیات کے متعلق مختلف طرح کے قومی اور بین الاقوامی ڈیٹا کے حوالے سے خبریں آتی رہتی ہیں ۔ بالخصوص موجودہ مرکزی حکومت کی کارکردگی کو قدرے زیادہ ہی نمایاں طورپر جگہ دی جاتی ہے۔ البتہ جب کبھی ملک کی صحیح تصویر پیش کرنے کا موقع آتا ہے تو نہ صرف اس تصویر کو مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ قومی اور بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹوں کو تعصبانہ قرار دیا جاتاہے اور ملک کے عوام سے حقیقت کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بہر کیف! حال ہی میں خطِ افلاس کے نیچے زندگی گزارنے والوں کے حالات میں بہتری کے سلسلے میں رپورٹ شائع ہوئی ہے اور اس میں یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ ہندوستان کی معاشیات مستحکم ہوئی ہے اور جاپان کو ایک پائیدان پیچھے کرتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی چوتھی معاشی طاقت بن گیا ہے۔ اسی طرح عالمی بینک کے حالیہ ڈیٹا میں یہ بتایا جا رہاہے کہ انسدادِ غربت کے معاملے میں بھی ہندوستان کو بڑی کامیابی ملی ہے۔ اس ڈیٹا کو دیکھ کر ماہرین کا خیال ہے کہ گزشتہ ایک صدی میں تقریباً ۲۷؍ کروڑ ہندوستانی عوام خطِ افلاس سے اوپر اٹھ کر معاشی اعتبار سے مستحکم ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ۱۲۔ ۲۰۱۱ء میں ۳۴ء۴؍ کروڑ افراد خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے جب کہ ۲۳۔ ۲۰۲۲ء میں صرف ۷ء۵؍ کروڑ لو گ ایسے ہیں جو خطِ افلاس سے نیچے کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ غرض کہ موجودہ نریندر مودی کی دس سالہ حکومت میں تقریباً ۲۷؍کروڑ لوگوں کو راحت ملی ہے اور وہ غربت کے دلدل سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک دہائی میں غربت کو کم کرنے میں بر سر اقتدار حکومت نے ایک بڑا انقلاب پیدا کیا ہے۔ لیکن تلخ سچائی یہ ہے کہ بر سر اقتدار حکومت ہی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ملک کے ۸۰؍ کروڑ افراد کو مفت میں راشن دیا جا رہا ہے۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ اگر ۲۷؍کروڑ ہندوستانی خطِ افلاس سے اوپر اٹھ گئے ہیں تو پھر ۸۰؍ کروڑ مفت راشن لینے والوں کی تعداد میں کمی کیوں نہیں ہو رہی ہے؟راقم الحروف کا تعلق شمالی بہار کے دربھنگہ سے ہے اور یہاں دیہی علاقے سے یومیہ مزدوروں کی ہجرت میں اضافہ ہو رہاہے اور اس کا بیّن ثبوت یہ ہے کہ شمالی بہار سے جتنی بھی ٹرینیں دہلی، پنجاب، راجستھان، ممبئی، کولکاتا اور ملک کے دیگر ترقی یافتہ شہروں کی طرف جاتی ہیں ان میں بہار کے مزدوروں کی ہجرت دیکھی جا سکتی ہے اور اس ہجرت کی وجہ صرف اور صرف غربت ہے۔
یہ بھی پڑھئے:کیا ڈومس ڈے کلاک کسی کو متنبہ کررہی ہے؟
واضح ہو کہ ورلڈ بینک نے ۱۲۔ ۲۰۱۱ء میں جو رپورٹ جاری کی تھی اس میں اس حقیقت کو اجاگر کیا تھا کہ ہندوستان میں اتر پردیش، بہار، مغربی بنگال، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر میں زیادہ غربت ہے اور ہندوستان کے ۶۵؍ فیصد غریب افراد ان ہی ریاستوں میں آباد ہیں۔ مگر حالیہ رپورٹ میں یہ بتایا جا رہاہے کہ ان سبھی پانچ ریاستوں میں برق رفتاری سے غربت میں کمی آئی ہے اور جس کی وجہ سے ہندوستان میں خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کے ڈیٹا میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی دکھایا گیاہے کہ ہندوستان میں مختلف سرکاری فلاحی اسکیموں کی وجہ سے بھی غربت میں کمی آئی ہے۔ مثلاً وزیر اعظم رہائشی اسکیم، وزیر اعظم اجولا اسکیم، جن دھن اسکیم اور طبی سہولیات کے لئے آیوشمان بھارت۔ رپورٹ میں موجودہ بر سراقتدار حکومت کی مختلف اسکیموں کا بھی ذکر ہے جس میں بینکنگ سروس اور بنیادی ڈھانچوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ غریب طبقے کے بینک کھاتوں میں مختلف اسکیموں کی رقم براہِ راست بھیجنے کی وجہ سے غریب طبقے کو بڑی راحت ملی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مختلف سرکاری اسکیموں کی رقم استفادہ کرنے والوں کے بینک کھاتوں میں بھیجی جا رہی ہے اور اس کا خاطر خواہ فائدہ بھی دیکھنے کو مل رہاہے۔ مگر جہاں تک غربت میں کمی واقع ہونے کا سوال ہے تو زمینی حقیقت کچھ اور ہی بیان کرتی ہے کہ ملک میں بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے، مزدوروں کی ہجرت میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے۔ حال ہی میں یہ خبر آئی تھی کہ راجستھان حکومت نے تقریباً ۵۳۷۴۹؍ چوتھے درجے کے ملازمین کیلئے اسامیاں مشتہر کی تھیں اور ان عہدوں کیلئے تقریباً ۲۵؍ لاکھ درخواستیں موصول ہوئی تھیں جن میں ایم اے، ایم بی اے، ایل ایل بی اور پی ایچ ڈی ڈگری رکھنے والے بیروزگاروں کی تعداد بھی لاکھوں میں تھی۔
مختصر یہ کہ ذرائع ابلاغ میں جس طرح کسی بھی سرکاری ڈیٹا کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتاہے اور ملک کی زمینی حقیقت کودانستہ پوشیدہ رکھا جا رہا ہے وہ نہ عوام کے مفاد میں ہے اور نہ ملک کے لئے بہتر ہے۔ کیو ں کہ حقیقت سے آشنا ہو کر ہی مسائل کے حل کے لئے ٹھوس اقدام کیا جانا ملک وقوم کے مفاد میں ہوتا ہے۔ دنیا کے تمام تر ترقی یافتہ ممالک کبھی بھی اپنے شہری کو اندھیرے میں نہیں رکھتے اور وہاں کی میڈیا بھی حکومت کے تئیں وفادار ہونے سے زیادہ عوامی مسائل کے تئیں سنجیدہ رہتی ہے۔ حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ کے کئی فیصلے کو عوام نے اس لئے قبول نہیں کیا کیوں کہ وہاں کی میڈیا نے اس کی حقیقت سے انہیں آشنا کیا۔ ٹرمپ کے فیصلے ایک کے بعد ایک متنازع فیہ ہوتے جا رہے ہیں اور وہاں کی عدلیہ اسے رد بھی کر رہی ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک وقوم کے مفاد میں ہماری قومی میڈیا اپنے پیشہ وارانہ فرائض کو ایماندارانہ طورپر انجام دے اور ملک کے شہری کے دلوں میں اپنے لئے جگہ بنائے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو ہمارے ملک میں دن بہ دن اضطرابی کیفیت میں اضافہ ہوگا اور بیروزگار و ں اور مزدوروں کی مشکلیں جیسے جیسے بڑھیں گی ہمارے معاشرے کیلئے طرح طرح کی پریشانیاں پیدا ہوں گی اور ملک کی سا لمیت کیلئے بھی خطرہ لاحق ہوگا۔ اس لئے ملکی یا غیر ملکی تنظیموں کو بھی اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت میں عوام کو بہت دنوں تک گمراہ کن نعروں سے بہلایا نہیں جا سکتا اور جذباتی سیاست کے ذریعہ حقیقت کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ اب جبکہ عوام میں قومی ذرائع ابلاغ کے تعلق سے یہ بات عام ہوگئی ہے کہ ہماری قومی میڈیا عوامی مسائل کو نظر انداز کرتی ہے اور پروپیگنڈے کو فروغ دے رہی ہے ایسے میں انسدادِ غربت کے ڈیٹا پر بھی سوالیہ نشان لازم ہے۔