شاعری کے ساتھ ساتھ نثری ادب میںبھی اپنے قلم کا جادو جگانے والے راہی معصوم رضا کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اُن کا ناول ’’آدھا گاؤں‘‘ اُردو اور ہندی دونوں زبانوں میں کافی پسند کیا گیا۔ ان کی شہرت فلم اور مکالمہ نگار کی بھی ہے۔
راہی معصوم رضا کی زندگی میں شائع ہونے والا ’’غریب شہر‘‘ آخری شعری مجموعہ ہے۔ وہ ۱۵؍ مارچ ۱۹۹۲ء کو رخصت ہوئے اور اسی سال ’’غریب شہر‘‘ کی اشاعت عمل میں آئی۔ اس چوتھے شعری مجموعہ کی شاعری بمبئی کے قیام کے دوران وجود میں آئی۔ اس اعتبار سے ’’غریب شہر‘‘ کا بمبئی سے ایک گہرا رشتہ ہے۔ انہوں نے کتاب کو اپنی بیٹی مریم کے نام کرتے ہوئے یہ چند جملے درج کیے ہیں : ’’مریم بیٹی، تم بمبئی میں پیدا ہوئی تھیں اور یہ شاعری بھی میرے بمبئی آنے کے بعد کی ہے، اس لئے مجموعہ تمہارے نام کرتا ہوں ۔‘‘ اس کے ساتھ ہی اپنا یہ شعر درج کیا ہے:
ملے گر مفت بھی راہی تو مت لو =بہت مہنگا پڑے گا آدمی ہے
اس کتاب میں ایک غزل ایسی بھی ہے جس کی ردیف’’بمبئی شہر میں ‘‘ ہے۔ نظموں غزلوں پر مشتمل یہ مجموعہ ایک بڑے کاروباری شہر میں متکلم کی تنہائی کا نہیں ، مجموعی طور پر شہر کا بیانیہ ہے۔ شہر اور تنہائی جیسا عنوان پہلے کی طرح اب کشش نہیں رکھتا مگر راہی صاحب کی شاعری جس طرز زندگی کے ساتھ تنہائی کو سامنے لاتی ہے اس کا اپنا ایک تخلیقی جواز ہے۔ مجموعہ تو ۱۹۹۲ء میں شائع ہوا مگر شاعری ۱۹۷۰ء سے لے کر زندگی کے آخری ایام تک کو محیط ہے۔ آخر کوئی تو وجہ ہے کہ راہی صاحب نے نظم اور غزل کے نیچے تاریخ لکھی ہے۔ ہر تاریخ کے ساتھ بمبئی بھی ہے۔ تاریخ کے ساتھ شہر بمبئی کا لکھا جانا نظم کو ایک معنی میں بمبئی کی تاریخ سے وابستہ کر دیتا ہے۔ متکلم کی یہ خاموش تمنا بھی رہی ہوگی کہ اسے اسی شہر کے سیاق میں پڑھا اور دیکھا جائے۔ متکلم کی ذات شہر کے ساتھ مل کر ایک بڑی ذات میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ مجموعے کی داخلی فضا نیند، سڑک اور تنہائی سے تشکیل پاتی ہے۔ بمبئی کی زندگی کو راہی صاحب نے جس طرح دیکھا اور محسوس کیا تھا اس پر کم و بیش نصف صدی کا عرصہ بیتنے کو ہے۔ ممکن ہے اِس کتاب کا کلام آج کے بمبئی کو پہلے کی طرح آئینہ نہ دکھاتا ہو پھر بھی کوئی شہر کتنا بدل سکتا ہے،وہ بھی وقت کے ساتھ کچھ زیادہ تیز رفتار ہونے والا شہر!
نئی شاعری میں سڑک نیند اور رات ایک تخلیقی واردات کی طرح داخل ہوئی تھی۔ آوارگی نے اپنا مفہوم تبدیل کر لیا تھا اب ایک ایسی زندگی شہر کی پہچان بن رہی تھی جس میں راتوں کو بے مقصد پھرنا عام سا تجربہ تھا۔ بڑے شہروں کی راتیں ایک ہی طرح وارد ہوا کرتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ شہروں میں صبح بھی جس طرح داخل ہوتی ہے اس میں تھوڑی جلد بازی بھی ہے اور تاخیربھی۔ دونوں کا تعلق دراصل احساس سے ہے۔ راہی معصوم رضا نے بمبئی کے قیام کے دوران وہاں کی سڑکوں ، راتوں اور انسانوں کو ایک دوسرے سے الگ کر کے نہیں دیکھا ہے مگر متکلم کی ذات سڑکوں اور انسانوں کا بنیادی حوالہ ہے۔ باقر مہدی کے یہاں بھی شہر کچھ اسی طرح اپنی موجودگی کا اظہار کرتا ہے مگر باقر مہدی کے یہاں جو غصہ اور جھنجھلاہٹ ہے وہ راہی معصوم رضا کے یہاں نہیں ہے۔ پھر بھی تجربوں کی سطح پر ان دونوں کے یہاں اشتراک کے پہلو تلاش کیے جا سکتے ہیں ۔ راہی معصوم رضا نے رات اور نیند کو سڑک کے ساتھ نہ دیکھا ہوتا تو یہ شاعری اتنی دلچسپ نہیں ہو سکتی تھی۔ یوں بھی راہی کے یہاں سڑک پہلی مرتبہ کچھ اس طرح داخل ہوئی کہ جیسے وہ مسافر سے نہ صرف کچھ پوچھ رہی ہے بلکہ اس کی حیثیت ایک زندہ کردار کی ہے۔
مجموعے کی پہلی نظم مرثیہ کے نیچے ۲۲؍ مئی ۱۹۷۰ء درج ہے:
ایک چٹکی نیند کی ملتی نہیں / اپنے زخموں پر چھڑکنے کے لیے/ ہائے ہم کس شہر میں مارے گئے/ گھنٹیاں بجتی ہیں / زینہ پر قدم کی چاپ ہے/ پھر کوئی بے چہرہ ہوگا/ منہ میں ہوگی جس کے مکھن کی زباں / سینے میں ہوگا جس کے اک پتھر کا دل/
مسکرا کر میرے دل کا اک ورق لے جائے گا!
متکلم نیند کی ایک چٹکی کا آرزو مند ہے اور وہ بھی اسے میسر نہیں ۔ زخموں پر نیند کو کسی شے کی صورت چھڑکنا ایک نیا اور انوکھا شعری اظہار ہے۔ نیند اگر کوئی ٹھوس شے ہوتی تو اس کے چھڑکنے کی بات اتنی توجہ طلب نہ ہوتی۔ رات کا یہ مسافر کہاں سے آیا ہے اور ابھی سے یہ احساس پریشان کرتا ہے کہ شہر اسے مار ڈالے گا، جو زندگی بچی ہے وہ نیند کی ایک چٹکی کی تلاش اور طلب میں گزر جائیگی۔کتنا سفاک شہر کا ماحول ہے کہ کوئی پتھر دل مسکرا کر دل کا ورق لے جائیگا۔ نظم مرثیہ ہے مگر کس کا؟ شاعر نے اس کا فیصلہ قاری پر چھوڑ دیا ہے۔ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ مرثیہ متکلم ہی کا نہیں ، شہر کا بھی ہے۔
ایک نظم کا عنوان ہی ’’ ایک نظم‘‘ ہے جو کچھ اس طرح ہے:
رات کی کوئی غزل ہو تو وہی گاؤ/ کہ اس صبح کے پاس/ کوئی نغمہ/ کوئی آواز نہیں / افق دیدہ حیراں کے قریب/ خاک اڑاتی ہے صبا/ نہ ابھرا ہوا سورج ہے/ نہ ڈوبا ہوا چاند/
یہاں رات کے بعد جو صبح آئی ہے وہ شب گزیدہ بھی ہے مگر شاعر نے کچھ ایسا انداز اختیار کیا ہے کہ جیسے فیض کی نظم ’’صبح آزادی‘‘ کے اثر سے خود کو نکالنا چاہتا ہو۔ صبح یوں تو کسی نغمے اور آواز کے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کرتی ہے مگر یہاں صورتحال بالکل بدلی ہوئی ہے۔ نظم کی فضا ایک ایسی خاموشی کو راہ دیتی ہے جس کا احساس و ادراک نئی شاعری کے ساتھ مشروط ہے۔ شاعر نے جس صورتحال کو پیش کیا ہے وہ بظاہر ایک شہر یا شہری زندگی تک محدود معلوم ہوتی ہے لیکن اگر اس کی تہہ میں اترا جائے تو اس کے پیچھے تاریخ کا جبر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ صبح تو آ چکی ہے مگر وقت ہے کہ ٹھہرا ہوا سا ہے۔ شاعر پھر گویا ہوتا ہے:
سانس روکے ہوئے بیٹھی ہے ہراک راہ گزار/ کوئی آتا ہی نہیں لے کے تمنا کی صلیب/ حوصلے پست ہوئے/ ہم تہی دست ہوئے/ رات پھر جاگی ہوئی آنکھوں میں / صرف جلتے ہوئے لمحوں کی تپش/ ایک بے نام خلش/ جیسے پھر کھینچ رہا ہو کوئی مقتل کی طرف/
راہی معصوم رضا رات نیند اور سڑک کی تہہ میں وقت کی چاپ کو محسوس کرتے ہیں ۔ وقت جو گزر چکا ہے، جو گزر رہا ہے اور جسے ابھی گزرنا ہے، ان سب کو الگ الگ کر کے دیکھنا مشکل ہے۔ نظم ’’ہم تو ہیں کنگال‘‘ میں گزرتے وقت کو راہی صاحب نے اپنی ذات کے حوالے سے دیکھا اور اس میں اپنی بیٹی مریم کو بھی ایک وراثت کے طور پر پیش کیا: تیری یاد کی دیواروں پر/ پپا کی پرچھائیں تو کل میلی ہوگی/ لیکن دھوپ تیری آنکھوں کے اس آنگن میں پھیلی ہوگی/
غریب شہر کی نظمیں رات نیند اور سڑک کے ساتھ جس گھنے اور گہرے تجربے سے گزرتی ہیں ، ان کے بارے میں ٹھیک سے غور نہیں کیا گیا۔ دیکھتے دیکھتے یہ نظمیں رات اور صبح کو زندگی کے دو مختلف اور ایک جیسے تجربے سے گزرنے کا تاثر پیش کرتی ہیں ۔ نظم ’’ایک صبح کے انتظار میں ‘‘ اور’’ نیند کے گاؤں میں ‘‘ ایسی نظمیں ہیں جو نئی اردو شاعری کو فکر و احساس کی سطح پر معیار اور وقار عطا کرتی ہیں ۔