• Thu, 25 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بہار اُردو ڈائرکٹوریٹ اور ادبا وشعراء کی خدمات کا اعتراف!

Updated: December 25, 2025, 3:43 PM IST | Dr. Mushtaq Ahmed | Mumbai

بہار ایک ایسی ریاست ہے جہاں تقریباً ۴۵؍ سال قبل اردو زبان کو دوسری زبان کا سرکاری درجہ دیا گیا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این
 ہندوستان میں ریاست بہار ایک ایسی ریاست ہے جہاں تقریباً ۴۵؍ سال قبل اردو زبان کو دوسری زبان کا سرکاری درجہ دیا گیا اوراس کی ترقی کے لئے ریاستی حکومت کی جانب سے کئی سرکاری احکامات جاری کئے گئے اور عملی اقدامات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ واضح ہو کہ اس سے پہلے صرف جموں وکشمیر ایسی ریاست تھی جہاں اردو زبان کو سرکاری سطح پر آئینی حقوق حاصل تھے اور سرکاری مراعات حاصل تھیں۔ اس کے بعد ریاست بہار میں بھی اردو آبادی کے دیرینہ مطالبوں کی روشنی میں اس وقت کی کانگریس حکومت اور وزیر اعلیٰ جگن ناتھ مشرا نے ۱۹۸۰ء میں اردو زبان کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ عطا کیا پھر اس کے بعد مسلسل اردو زبان کی تعلیم اور ادب کے فروغ کیلئے کئی طرح کے ادارے قائم ہوئے ۔ان سرکاری اداروں میں بالخصوص اردو ڈائرکٹوریٹ کا قیام تو نوّے کی دہائی میں ہوا لیکن اس کے ذریعہ حالیہ برسوں میں جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں وہ نہ صرف ریاست کی دوسری زبان اردو کی ترقی کا راستہ ہموار کر رہا ہے بلکہ اردو ادب کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ گزشتہ ایک دہائی سے بہار اردو اکیڈمی تعطل کی شکار ہے کہ اس کی تشکیل نو نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے وہاں کی سرگرمیاں ماند پڑگئی ہیں۔لیکن اس کمی کو اردو ڈائرکٹوریٹ جو محکمہ راج بھاشا ، حکومت بہار کے ما تحت ہے وہ نہ صرف فعال ہے بلکہ اس کے عملی نتائج بھی اظہر من الشمس ہیں۔واضح ہو کہ حکومت بہار نے اردو ڈائرکٹوریٹ کے ما تحت ریاست کی تمام کمشنریوں ، اضلاع ، بلاک سب ڈویژنوں اور بلاکوں کے ساتھ ساتھ سکریٹریٹ کے دفاتر میں بحال اردو مترجم ، نائب مترجم اور اردو ٹائپسٹوں کور کھا ہے اور ان کی کارکردگیوں کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل کو حکومت تک پہنچانے کی ذمہ داری دی ہے۔مگر افسوس ہے کہ اردو آبادی کی طرف سے نہ صرف تساہلی ہے بلکہ ایک طرح کی سرد مہری ہے کہ وہ سرکاری دفاتر میں اردو زبان میں تحریر شدہ درخواستیں نہیں دیتے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ سرکاری مترجم دفاتر میں دیگر کاموں میں مجبوراً مصروف ہوگئے ہیں ۔ 
ڈائرکٹوریٹ کے ذریعہ ایک سہ ماہی مجلّہ ’’راج بھاشا ‘‘ بھی پابندی سے شائع ہو رہا ہے جس میں ریاست کے ادیب وشاعر کی خدمات پر مضامین ومقالات کی اشاعت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ دراصل ڈائرکٹوریٹ نے گزشتہ کئی سال پہلے یہ فیصلہ لیا تھا کہ ریاست بہار کے نامور مرحومین شعراء وادبا کی تاریخ پیدائش یا وفات پر ادبی تقریب کا انعقاد کرے گی ۔ اسی فیصلے کے تحت اس وقت ریاست بہار کے ۲۲؍ نامور مرحومین ادبا وشعراء کی یاد میں ان کی حیات وخدمات پرہر مہینے اجلاس منعقد کئے جا رہے ہیں ۔ ان میں پروفیسر کلیم عاجز ؔ(۱۱؍اکتوبر۱۹۲۴ء ۱۵؍ فروری ۲۰۱۵ء ) ، پروفیسر کلیم الدین احمد(۱۵؍ستمبر ۱۹۰۸ء۔۲۱؍ دسمبر۱۹۸۳ء)، پروفیسر اختر اورینوی(۱۹؍ اگست ۱۹۱۰ء۔ ۳۰؍ مارچ ۱۹۷۷ء ) ، پروفیسر جمیل مظہری(۱۵؍ جولائی ۱۹۱۱ء ۲۹؍ نومبر ۱۹۷۹ء )، سہیل عظیم آبادی(۱۵؍جولائی ۱۹۱۱ء۔۲۹؍نومبر ۱۹۷۹ء ) ، شکیلہ اختر(۱۶؍اگست ۱۹۱۶ء ۔۱۰؍ فروری ۱۹۹۴ء)، پروفیسر عبدالمغنی (۴؍ جنوری ۱۹۳۶ء۔۵؍ستمبر ۲۰۰۶ء) ، شین مظفرپوری(۱۵؍ جولائی ۱۹۲۰ء ۔۱۴؍ اگست ۱۹۹۶ء)، امداد امام اثر (۱۷؍ اگست ۱۸۴۹ء ۔۱۷؍ اکتوبر ۱۹۳۴ء)، شوق نیموی (۱۸۶۰ء۔۲۵؍ نومبر۱۹۰۴ء)، انجم مانپوری (۱۸۸۱ء۔۱۷؍اگست ۱۹۵۸ء)، پروفیسر عطا کاکوی (۱۷؍ستمبر۱۹۰۴ء ۔۱۸؍مارچ ۱۹۹۸ء)، رضا نقوی واہی(۹؍جنوری ۱۹۱۴ء۔۵؍ جنوری ۲۰۰۲ء)، واقف عظیم آبادی(۱۸؍ مارچ ۱۹۱۶ء۰۶؍ستمبر ۱۹۹۳ء)، پروفیسروہاب اشرفی (۲؍جون ۱۹۳۶ء ۔۱۵؍جولائی ۲۰۱۲ء) کیف عظیم آبادی(۸؍ جون ۱۹۳۷ء ۔۲۴؍ جنوری ۱۹۹۴ء ) ، شاد عظیم آبادی( ۸؍ جنوری ۱۸۴۶ء ۷؍ جنوری ۱۹۲۷ء) ، کلام حیدری (۳؍ اپریل ۱۹۳۰ء۔۲؍ فروری ۱۹۹۴ء)، رمز عظیم آبادی(جون۱۹۱۶ء ۔۱۵؍ جنوری ۱۹۹۷ء)،قاضی عبدالودود (۸؍ مئی ۱۸۹۶ء ۔۲۵؍جنوری ۱۹۸۴ء)، پرویز شاہدی (۲۱؍ستمبر ۱۹۱۰ء ۔ ۵؍ مئی ۱۹۶۸ء)اور مظہر امام(۱۲؍ مارچ ۱۹۲۸ء۔ ۳۰؍ جنوری ۲۰۱۲ء) شامل ہیں۔
مذکورہ تمام ادبا اور شعراء کی یومِ پیدائش یا یومِ وفات پر ڈائرکٹوریٹ اپنی سہولت کے مطابق ادبی اجلاس منعقد کرتا ہے اور اس میں نہ صرف ریاستی بلکہ بیرونِ ریاست سے بھی اردو کے اسکالروں کو مدعو کرتے ہیں اور متعلقہ شخصیات کی حیات اور ان کے فکر وفن پر مقالہ خوانی کا اہتمام کرتے ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ محفلِ سخن بھی آراستہ کی جاتی ہے جس میں ریاست کے مختلف حصوں سے اردو اور ہندی کے جدید وقدیم شعرا کو مدعو کیا جاتاہے ۔ حال ہی میں پرویز شاہدی پر جو اجلاس منعقد ہوا تھا اس میں راقم الحروف نے بھی شرکت کی تو یہ اندازہ ہوا کہ واقعی اردو ڈائرکٹوریٹ کا یہ قدم اردو زبان وادب کے فروغ میں تاریخی کردار ادا کر رہاہے ۔ڈائرکٹوریٹ کے موجودہ ڈائرکٹر جناب ایس ایم پرویز کی ذاتی دلچسپی کا یہ نتیجہ ہے کہ سرکاری سطح کا یہ ادبی پروگرام صرف کاغذو ں تک محدود نہیں رہتا ہے بلکہ زمینی سطح پر بھی دکھائی بھی دے رہاہے اوراپنا گہرا نقش بھی چھوڑ رہاہے ۔ اس سے پہلے سابق ڈائرکٹر امتیاز احمد کریمی اور جناب احمد محمود نے بھی اس ادبی پروگرام کو عام کرنے میں جواہم کردار ادا کیا ہے اس کی بھی پزیرائی لازم ہے۔ مگر راج بھاشا کے ذریعہ ہندی کے ادبا اور شعراء کو سالانہ ادبی ایوارڈ سے نوازا جا رہاہے لیکن اردو کے ادبا اور شعراء کو یہ ایوارڈ نہیں دیا جا رہاہے ، اسکی وجہ کیا ہے یہ تو حکومت ہی بتا سکتی ہے۔
بہر کیف! میرے خیال میں اردوآبادی جس جوش وخروش سے اس ادبی اجلاس میں شامل ہوتی ہے انہیں ریاست کے سرکاری دفاتر میں ارد و رسم الخط میں درخواست دینے کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے تاکہ کل حکومت کو یہ کہنے کا موقع نہیں مل سکے کہ حکومت نے تو سرکاری دفاتر میں ہزارسے زائد مترجم ، نائب مترجم اور ٹائپسٹ بحال کر رکھا ہے لیکن جب اردو آبادی ہی اس سے کام نہیں لے رہی ہے تو کل اس کی تقرری پر بھی سوال کھڑا ہوگا اور مستقبل میں شاید اس کے وجود پر بھی خطرہ لاحق ہو جائے ، اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت ملک میں جس طرح لسانی تعصبات وتحفظات کی فضا پروان چڑھ رہی ہے اس سے اردو بھی محفوظ نہیں ہے جس کا مظاہرہ ہم دن رات دیکھ رہے ہیں کہ اردو کے مسائل پر عدالت عظمیٰ کو بھی مداخلت کرنی پڑ رہی ہے اور ہندوستانی تہذیب وتمدن کی پیداوار اردو کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور کر رہی ہے۔یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے جس پر بھی اردو آبادی کو غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK