’’جنگ بندی‘‘ ضرور ہوئی مگر دونوں ملکوں میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ ہو بھی نہیں سکتا۔پہلگام میں جو ہوا وہ کبھی بھلایا نہیں جاسکے گا۔ بیرونی ملکوں میں کئی وفود اس وقت ہمارا موقف بیان کررہے ہیں، یہ اچھا قدم ہے۔
EPAPER
Updated: May 27, 2025, 3:00 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai
’’جنگ بندی‘‘ ضرور ہوئی مگر دونوں ملکوں میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ ہو بھی نہیں سکتا۔پہلگام میں جو ہوا وہ کبھی بھلایا نہیں جاسکے گا۔ بیرونی ملکوں میں کئی وفود اس وقت ہمارا موقف بیان کررہے ہیں، یہ اچھا قدم ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ابھی حال میں جو چھینا جھپٹی جیسی کیفیت ہوئی وہ جنگ تھی یا نہیں یہ ارباب حل و عقد جانیں، اپنی سہولت کیلئے ہم اسے جنگ مان لیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جنگ بندی کیلئے تقریباً چار روز لگے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کے شروع ہونے کے بعد کچھ ہی گھنٹوں میں فریقین یعنی دونوں ممالک کو اندازہ ہوگیا کہ ان کی فوجی طاقت کتنی ہے او رکتنی نہیں ہے۔ سابقہ مضمون میں ہم نے کہا تھا کہ اس جھڑپ میں فائدہ چین کا ہوا ہے۔
اس سلسلے میں یہ یاد رہے کہ پاکستان تو اس جنگ کو دو دن بھی نہیں جھیل سکتا تھا اور ہندوستان کی بھی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں تھی۔ اس بار پاکستان کے ذمہ داروں نے کچھ تدبر سے کام لیا حالانکہ پاکستانی ذمہ دار اور تدبر ایک دوسرے کی ضد ہے، لیکن اس بار یہ ہوا اور صاف نظر بھی آیا۔ پاکستان پہلے ہی دن سے یہ دعاء کررہا تھا کہ کوئی بیچ میں آئے اور جنگ روکنے کی بات کرے اس لئے جیسے ہی ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ بیان آیا کہ جنگ بند کی جائے تو پاکستان نے اسے چپ چاپ منظور کرلیا اور جنگ بندی کا اعلان کردیا لیکن جیسا کہ کہا گیاا س بار پاکستانی ذمہ دارو ں نے کچھ تدبر سے بھی کام لیا، انہوں نے یہ کہہ کر کہ پہلگام واقعہ کی بین الاقوامی تحقیق کرائی جائے اور حالات کو دنیا کے سامنے رکھا جائے، اپنا احساس جرم تھوڑا کم کرلیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان کے سیاست داں یہ کہہ رہے تھے کہ ہندوستان چُپ نہیں بیٹھے گا اور اسی طرح کوئی کارروائی کرے گا جس طرح ۲۰۱۹ء میں پلوامہ کے واقعہ کے بعد کیا تھا۔
اس واقعہ کے سلسلے میں یہ یاد رکھا جائے کہ پلوامہ کے واقعہ کے بعد نریندر مودی نے الیکشن تو ضرور جیت لیا تھا لیکن ان پر یہ دباؤ پڑ رہا تھا کہ اگر وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی دہشت گردی اس میں شریک تھی تو پاکستان کو اس کی سزا دی جائے، سزا دینے کے نام پرپلوامہ جیسے کسی واقعہ کی یاد دہرانا بہت مشکل نہیں ہوگا۔ پلوامہ کے واقعہ نے ہندوستان کو کچھ فتح کا احساس تو دلایا تھا لیکن وزیر اعظم مودی پر بہت دباؤ پڑ رہا تھا کہ اگر وہ کہتے ہیں کہ پاکستان ملوث تھا تو پاکستان کو اس کی سزا دی جائے، جس کے جواب میں نریندر مودی نے فوج کو پاکستان کے اندر گھس کر مارنے کا حکم دیا، اس کے بعد ہندوستانی جہاز اُڑے، انہوں نے پاکستان میں فائرنگ کی یہ الگ بات کہ اس میں کچھ نقصان ہمارا بھی ہوا اور اس کے ساتھ ہی ابھینندن کی گرفتاری عمل میں آئی جسے بعد ازاں پاکستان کو رِہا کرنا پڑا۔
اس بار بھی پاکستانیوں کو یہ معلوم تھا کہ ہندوستان کوئی نہ کوئی کارروائی ضرور کرے گا لیکن شاید یہ امید نہیں تھی کہ ہندوستان جنگ کا ہی اعلان کردے گا۔ اس اعلان کو پہلگام کے واقعہ کے بعد تقریباً ۲؍ ہفتے انتظار کرنا پڑا لیکن اس بار معاملہ تھوڑا سا مختلف اور تھوڑا سا کٹھن تھا۔ ہندوستان نے جن حملہ آوروں کے اسکیچ جاری کئے گئے انہیں ہنوز گرفتار نہیں کیا جاسکا ہے یہ افسوسناک ہے چنانچہ اب تک یہ سوال پوچھا جارہا ہے کہ جو کچھ ہوا، وہ سب کیا تھا، کیوں تھا اور اس کے ذمہ داروں کی گرفتاری کب ہوگی؟
نریندر مودی نے ایک اعلان ضرور کیا لیکن دلّی کے باہر بہار میں۔ نہ جانے انہیں بہار سے اتنی دلچسپی کیوں ہوئی؟ اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم نے یہ اعلان کیا کہ جنگ ابھی رکی نہیں ہے اور انہیں علم ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے مراکز کہاں کہاں واقع ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان کی حکومت کسی مغالطے میں نہ رہے، ہندوستان جب چاہے گا ان مراکز کو تباہ کرسکتا ہے۔
اس کے بعد ایک اچھا قدم یہ اُٹھایا گیا کہ دنیا کے تینتیس ممالک میں ہندوستانی وفود بھیجے جائیں اور انہیں بتائیں کہ ہندوستان کا موقف کیا ہے۔ ہر وفدمیں ایک مسلمان ممبر بھی شامل کیا گیا مگر اس لئے نہیں کہ بی جے پی کو سیکولرزم پر اعتبار ہوگیا ہے۔ لال کرشن اڈوانی کی رتھ یاترا کے بعد یہ طے ہوگیا تھا کہ ہندوستان میں سیکولرازم کا مطلب مسلمان دوستی ہے لیکن اُس وقت دنیا کا دباؤ بہت زیادہ تھا اس لئے وفود بھیجنے کا اعلان قابل حیرت ہونے کے باوجود ہندوستان میں سیکولرازم کا تصور موجود ہے او راب بھی ہے۔ مودی حکومت نے ایک اور اچھا کام یہ کیا کہ اس سلسلے کی تمام کارروائیوں کے اعلان کیلئے جن شخصیات کا انتخاب کیا گیا اُن میں کرنل صوفیہ قریشی جیسی مسلم خاتون افسر کو بھی شامل کیا گیا۔
سیکولرازم کے معاملے میں ہمیں خوشی ہوئی کہ عوام الناس کا ایک بہت بڑا طبقہ موجود ہے جو سیکولرازم پر یقین رکھتا ہے اور جمہوریت کے جذبے کو پہچانتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آگے کیا ہوگا۔ آپ کو یاد دلاتے چلیں کہ پاکستان میں جب عمران خان وزیر اعظم بنے تھے تو اپنی پہلی کانفرنس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کے معاملات میں بہت یگانگت ہے او رچند ہی ایسے واقعات ہیں جن میں دونوں میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن ایسے معاملات بھی بات چیت سے حل کئے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ جہاں تک کشمیر کا سوال ہے، پاکستان اس پر راضی ہے کہ اگر کشمیری مسلمان چاہیں تو وہ پاکستان کے ساتھ رہ سکتے ہیں او رچاہیں تو ہندوستان کے ساتھ لیکن اگر وہ یہ چاہیں کہ اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھیں تو انہیں اس کا بھی حق حاصل ہوگا۔ اس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا تھا لہٰذا ہندوستان نے اس کا جواب نہیں دیا۔ پاکستان تو شیخ عبداللہ کے اس خیال کو رو بہ عمل لانا چاہتا تھا اور اب بھی چاہتا ہے کہ کشمیر ہندوستان کا جنیوا بن جائے جس میں دونوں ممالک کی رسائی ہو، کشمیر کی کوئی فوج نہ ہو اور کشمیر کے دفاعی مسائل دونوں ملک مل کر طے کریں۔ شیخ عبداللہ نے اپنی کتاب ’ آتش چِنار‘ میں اس پر بہت کچھ لکھا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اسے پڑھ لیا جائے تو کشمیر کے بہت سے مسائل سمجھ میں آنے لگیں گے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ کہا کہ یہ جنگ بندی مستقل ہے اور کشمیر کا مسئلہ جو بقول ان کے ڈیڑھ ہزار سال پرانا ہے، اس پر دونوں ملکوں کو بات کرنا ہوگی تو مشکل یہ ہے کہ پاکستان تو اس پر راضی ہوجائے گا مگر کیا ہمارے لئے یہ آسان ہوگا؟ اس لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے ذمہ دار یہ جان لیں کہ بیان بازی بہت سہل ہے، اس کو بروئے کار لانا بہت مشکل ہے۔