Inquilab Logo Happiest Places to Work

تاریکیوں میں نئی صبح کے آثار

Updated: May 23, 2025, 4:59 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

جمہوریت میں حکومت قانون کے مطابق کام کر رہی ہے یا نہیں اور پارلیمنٹ میں جو قانون بنائے جا رہے ہیں وہ دستور ہند کی روح کے منافی تو نہیں؟ یہ دیکھنا عدلیہ کا کام ہے۔ خوشی ہے کہ جسٹس کھنہ اور جسٹس گوئی نے اسی حقیقت کی نہ صرف نشاندہی کی ہے بلکہ جمہوریت کو دستور ہند کے مطابق بنانے کے عملی اقدامات بھی کئے ہیں۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

اندھیری رات میں جب کوئی چمکتی ہوئی لکیر دکھائی دے تو امید بندھتی ہے کہ اندھیرا دیر تک باقی نہیں رہے گا۔ اس وقت اندھیروں کو تقویت پہنچانے یا بڑھاوا دینے والی طاقتوں نے بھی اندھیر مچا رکھا ہے مگر ایسے واقعات یا نتائج بھی سامنے آئے ہیں جن سے امید بندھتی ہے کہ اندھیروں کو بڑھاوا دینے والی طاقتیں ناکام ہیں اور آئندہ بھی ناکام رہیں گی۔ یہاں صرف تین مثالوں پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔
 پہلی مثال یہ ہے کہ پہلگام میں سیاحوں کا جس طرح قتل کیا گیا اس کے پیچھے یہی مقصد رہا ہوگا کہ ملک میں فرقہ وارانہ افراتفری پھیل جائے مگر ہندوستان کے عوام نے جس میں ہر فرقے اور ہر مذہب کے ماننے والے شامل ہیں، جس اتحاد و اتفاق اور انسانیت دوستی کا مظاہرہ کیا اس نے دہشت گردوں کے عزائم یا امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ ہر سیاسی ذہن کے شخص نے دہشت گردوں کی مذمت کی۔ اس اتحاد و اتفاق کو ہندوستانیت کی فتح سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
 دوسری مثال یہ ہے کہ کرنل صوفیہ قریشی کے خلاف جب مدھیہ پردیش کے ایک وزیر نے غیر ذمہ دارانہ جملے کہے تو کرنل صوفیہ کے گھر سسرال یا ہم مذہب لوگوں سے پہلے ملک کے عام لوگوں نے مذمتی بیانات جاری کئے۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ اور مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے بھی اس وزیر کی خبر لی اور ایف آئی آر درج ہوئی۔ شنکر اچاریہ اوی مکتیشورانند نے بھی معقول بات کہی کہ جب فوج نے کرنل صوفیہ پر بھروسہ کرکے ایک ذمہ داری ان کو دی ہے تو کچھ سوچ کر ہی دی ہوگی۔
 تیسری مثال یہ ہے کہ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ نے تو یہ کہہ کر عدلیہ کے وقار میں اضافہ کیا ہی تھا کہ وہ سبکدوشی کے بعد کوئی عہدہ قبول نہیں کریں گے ہمارے نئے چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی نے بھی ایسا ہی اعلان کیا ہے۔ ان دونوں اعلانات کو جسٹس گگوئی کے سبکدوش ہوتے ہی راجیہ سبھا کی رکنیت اور ان کے راجیہ سبھا میں داخلے کے وقت ’’شرم شرم‘‘ کے نعروں سے ان کے استقبال کے پس منظر میں دیکھا جانا چاہئے۔ بابری مسجد مقدمے کا جو فیصلہ سپریم کورٹ کی بنچ نے کیا وہ بھی ایک انوکھی مثال تھی اور سبکدوش چیف جسٹس کے راجیہ سبھا میں داخل ہوتے وقت شرم شرم کے نعرے بھی انوکھی مثال کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس نعرے کے ذریعہ بہت کچھ کہہ دیا گیا تھا۔ اس نعرے میں سسٹم پر بے اعتمادی بھی چھپی ہوئی تھی۔
 جسٹس کھنہ کی مدت کار زیادہ نہیں تھی مگر اس مختصر دور میں بھی انہوں نے ایسے فیصلے کئے یا احکام صادر کئے کہ عام لوگوں کا عدلیہ پر اعتماد بڑھا۔ جسٹس یشونت ورما نقدی معاملہ ان کے لئے سخت آزمائش کا مرحلہ تھا مگر انہوں نے نہ صرف اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا بلکہ انہی کی تحریک پر سپریم کورٹ کے جسٹس صاحبان نے اپنی اپنی ملکیت کی تفصیل بھی عام کر دی۔ اس سے عوام میں ایک اہم پیغام یہ گیا کہ اب عدلیہ میں لالچ یا دباؤ میں کام کرنے کی روش کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ انہی کے زمانے میں کالیجیم سسٹم پر سوال اٹھ رہے تھے اور اقربا پروری کے الزام کے ساتھ طرح طرح کے شبہات بھی ظاہر کئے جا رہے تھے۔ ایسے میں جسٹس کھنہ نے ان تمام تجویزوں کو عام کر دیا جو پچھلے تین سال میں موصول ہوئی تھیں۔ کس کی سفارش کی گئی؟ کس نے سفارش کی؟ اور کس کا تقرر ہوا؟ جب ان تمام سوالوں کے جوابات ملے تو شکوک و شبہات دور ہوگئے۔ ان کے اقدام سے معلوم ہوا کہ تین سال میں ۲۲۱؍ ناموں کی سفارش کی گئی جن میں صرف ۱۴؍ کسی جج یا سابق چیف جسٹس کے رشتہ دار تھے یعنی جسٹس کھنہ کے اقدام سے اقربا پروری کا الزام ختم ہوگیا یا اس الزام کی بنیاد باقی نہیں رہی کہ جسٹس صاحبان کی تقرری میں اقربا پروری کی جاتی ہے۔ نئے چیف جسٹس گوئی نے بھی گزشتہ دنوں چھڑی ایک بحث کا خاتمہ کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ، مقننہ اور حکومت میں فوقیت دستور ہند کو حاصل ہے۔ اسی موقف کو انہوں نے چند دنوں بعد ممبئی میں بھی دہرایا اور صاف لفظوں میں کہا کہ اگرچہ عدلیہ، مقننہ اور حکومت سب کو اہمیت حاصل ہے اور فوقیت صرف دستور ہند کو ہے۔ اسی کے مطابق قانون بنایا، نافذ کیا جانا اور حکومت چلایا جانا چاہئے۔ نئے چیف جسٹس نے یہ بھی معقول بات کہی کہ بہت زیادہ تعداد میں مقدموں کے زیر التوا ہونے کے سبب عام لوگوں کو انصاف ملنے کی رفتار بہت سست ہے۔ یقیناً ان کے علم میں ہوگا کہ ملک بھر کی عدالتوں میں پانچ کروڑ معاملات زیر التوا ہیں۔ نئے چیف جسٹس کی بات سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے یہ یاددہانی کی جاسکتی ہے کہ خرچیلا اور پر پیچ عمل ہونے کے سبب ہر شخص کا عدالت سے رجوع ہونا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ آج کل بے ایمانیاں اتنے منظم انداز میں کی جا رہی ہیں کہ جس کا نقصان ہوا ہے یا جس کو ٹھگا گیا ہے وہ وکیل، عدالت اور پولیس کے سامنے پوری تفصیل بھی نہیں پیش کر پاتا۔
 جمہوریت میں حکومت قانون کے مطابق کام کر رہی ہے یا نہیں اور پارلیمنٹ میں جو قانون بنائے جا رہے ہیں وہ دستور ہند کی روح کے منافی تو نہیں؟ یہ دیکھنا عدلیہ کا کام ہے۔ خوشی ہے کہ جسٹس کھنہ اور جسٹس گوئی نے اسی حقیقت کی نہ صرف نشاندہی کی ہے بلکہ جمہوریت کو دستور ہند کے مطابق بنانے کے عملی اقدامات بھی کئے ہیں۔ اس سے عدالت عالیہ اور ہندوستانی جمہوریت دونوں کا وقار بحال ہوگا جس کو اس کے پہلے نقصان پہنچایا گیا تھا اور پھر نقصان پہنچانے والے نے راجیہ سبھا میں داخل ہوتے ہوئے شرم شرم کے نعرے سن کر اپنا وقار بھی مجروح کیا تھا۔
 مثالیں اور بھی ہیں مگر مندرجہ بالا تین مثالوں سے بھی ظاہر ہو جاتا ہے کہ تاریک رات میں بھی چمکتی ہوئی چند لکیریں نظر آرہی ہیں وہ ایک نئی صبح کی بشارت سے تعبیر کی جاسکتی ہے۔ ہم نئی صبح کے منتظر ہیں اور ہمارا انتظار ہی مایوسیوں سے نجات کا مؤثر ذریعہ ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK