• Mon, 07 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مصائب ہیں کہ بڑھتے جا رہے ہیں!

Updated: September 10, 2024, 1:26 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

راہل امریکہ پہنچ چکے ہیں۔ گزشتہ بار جب وہ گئے تھے تو وہ کانگریس کے ایک لیڈر تھے لیکن اس بار وہ ہندستان کے اپوزیشن کے لیڈر بھی ہیں۔ راہل گاندھی بین الاقوامی موضوعات پر لیکچر دینے کیلئے یونیورسٹی کا دورہ بھی کرتے ہیں۔ اس کا انہیں معاوضہ بھی ملتا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

کچھ  دن پہلے ایک واقعہ ہوا۔ جے ڈی یو کے ایک بڑے لیڈر کے سی تیاگی نے اپوزیشن کے کچھ اورلیڈروں  کے ساتھ ہندوستان میں  مقیم فلسطینی سفارتکار سے ملاقات کی۔ ان لیڈروں  نے فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے سفارت کار کو یقین دلایا۔ حالانکہ مرکز کی مودی سرکار بھی فلسطین کے وجودکو تسلیم کرتی ہے لیکن یہ بات بھی سب جانتے ہیں  کہ نریندر مودی کے بنجامین نیتن یاہو سے اچھے تعلقات ہیں ۔ ان کی دوستی کا یہ حال کہ اسرائیلی وزیراعظم بڑے ذوق وشوق سے اس کا ذکر کرتے رہے۔ اسرائیل سے قریبی تعلقات کی ابتدا لال کرشن اڈوانی نے کی تھی جب وہ واجپئی سرکار میں  نائب وزیر اعظم ہوا کرتے تھے۔یہ اڈوانی ہی تھے جنہوں  نے پہلی بار اسرائیل کا دورہ کیا تھا، یہی نہیں  انہوں  نے خفیہ اداروں کے افسروں  کو بھی موساد سے ملوایا تھا اوریہ خیال بھی کیاجاتا ہے کہ ہندوستان کی خفیہ ایجنسی کے کچھ افسروں  کو موسادنے باقاعدہ ٹریننگ دی تھی۔ لیکن اس کے بعد جب ہندوستان میں  سرکاریں  تبدیل ہوئیں  تو یہ سلسلہ رک گیا۔ یہاں  تک کہ جب اٹل بہاری واجپئی وزیراعظم تھے تو انہوں  نے بھی باقاعدہ بیان دیا تھا کہ فلسطین ایک حقیقت ہے اور اس کو مانے بغیر اسرائیل سے ہماری کوئی دوستی نہیں  ہوسکتی ۔ لیکن جب نریندر مودی وزیر اعظم بنے تو انہیں  اڈوانی کا سبق یاد آگیا اور واجپئی کا نہیں ۔ انہوں  نے دوستی کا راستہ تلاش کر لیا۔ تیاگی نے اسی رشتے کو ختم کرنے کیلئے فلسطینی سفارت کار سے ملاقات کی۔
 تیاگی لوک سبھا الیکشن سے پہلے نریندر مودی کے زبردست حمایتی تھے۔ انہوں  نے مودی کو کئی تجویزیں  دی تھیں  اور ان کی کئی تجویزوں  کی حمایت کی تھی۔ لیکن اب تیاگی نے جے ڈی یو کو چھوڑ دیا ہے۔ ان کے جے ڈی یوچھوڑنے سےمودی حکومت کےمصائب میں  اضافہ ہو رہا ہے۔ تیاگی اب نئے ساتھی ڈھونڈ رہے ہیں ۔  انہوں  نے جے ڈی یو کےناراض لوگوں  کو بھی بتا دیا ہے کہ اگر وہاں  ان کا رہنا دشوار ہو جائے تو ان کا دوسرا راستہ کیا ہو گا۔ اگلے سال بہار میں  اسمبلی چناؤ ہے ۔ نتیش کی پارٹی کے سامنے دو ہی راستے ہوں  گے، یا تو وہ کانگریس میں   یا   آر جے ڈی میں  شامل ہوجائیں ۔ دونوں  صورتوں  میں  بی جے پی اور نریندر مودی کی مشکلات بڑھیں  گی۔
 ہم نے اپنے پچھلے مضمون میں  کہا تھا کہ شنگھائی کارپوریشن کا جو اجلاس آستانہ میں  ہوا تھا، اس میں  ممبرممالک کے سربراہان شریک ہوئے تھے۔ لیکن اس بار اکتوبر میں  جو اجلاس اسلام آباد میں  ہو رہا ہے اس میں  ممبر ممالک کے وزرائےاعظم شریک ہونگے۔ ہمارا ابھی سے یہ خیال ہے کہ نریندر مودی اس میں  نہیں  جائینگے لیکن اپنی عدم موجودگی کو چھپانے کے لئے ایک بڑا وفد اسلام آباد بھیجیں  گے جس کے سربراہ ہمارا خیال ہے وزیرخارجہ ایس جے شنکر ہوں  گے۔
 گمان غالب ہے کہ ایس جے شنکر اس بڑے وفد کے سربراہ ہوئے تو ان کو بہت دشواری ہوگی۔ ایسی صورت میں  جب ان کی ملاقات چینی وزیراعظم سے ہوگی اور ایسا نہیں  معلوم ہوتا کہ جے شنکر انہیں  دیکھ کر علاحدہ ہوجائیں  یعنی کسی کونے میں  دُبک جائیں  ۔ اگر چینی وزیراعظم سے ان کی ملاقات ہوئی تو پھر انہیں  یہ ضرور پوچھنا ہوگا کہ ان کی فوجوں  نے سرحد کیوں  پار کی۔ اگر وہ ایسا نہیں  کریں  گے تو اپوزیشن ہنگامہ برپا کر دے گا اور اگر انہوں  نے پوچھ لیا تو چینی وزیر اعظم صاف طور سے کہہ دیں  گے کہ آپ کے وزیراعظم کا تو یہ کہنا ہے کہ چین نے ایک انچ پر بھی قبضہ نہیں  کیا۔ یہ ایسا جواب ہوگا جس پر  انہیں  خاموش ہی رہنا پڑے گا۔
 اب رہا ہندوستان و پاکستان کی دوستی اور عداوت کا معاملہ تو ان دونوں  میں  قدرے اختلاف ہوتا رہتا ہے۔ وزیر اعظم مودی جب افغانستان گئے تھے تو واپسی میں  وہ ہندوستان واپس آنے کے بجائے اسلام آباد پہنچ گئے تھے۔ ہوائی اڈے پر اس وقت نواز شریف نےان کا استقبال کیا تھا۔ دونوں  میں  تحفے تحائف بھی لئے دیئے گئے تھے۔ اسے مودی کی سیاسی فتح قرار دیا گیا تھا۔ اس کے بعد جب نواز شریف ہندوستان آئے تو انہوں  نے کشمیر کے کسی بھی لیڈر سے ملاقات نہیں  کی۔ اسے بھی مودی کے تدبر کی بڑی فتح بتایا گیا  ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب کھٹمنڈو میں  سارک کی کانفرنس ہورہی تھی تو نواز شریف نے نریندر مودی سے درخواست کی تھی کہ وہ ان سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں  لیکن یہ ملاقات کسی خفیہ جگہ پر ہو تاکہ پاکستانی فوج کو اس کی خبر نہ لگے۔ نریندر مودی نے ان پر احسان کیا اور یہ ملاقات کرلی۔ ٹی وی اینکر برکھا دت نے اس کے بارے میں  تفصیل سے لکھا تھا۔ لیکن اب وہ وقت بیت چکا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:تیسری میعاد میں مودی حکومت کی مشکلات

 دریں  اثناء نریندر مودی کی مشکلات میں  ایک اور اضافہ ہو رہا ہے۔ راہل گاندھی امریکہ پہنچ چکے ہیں ۔ گزشتہ بار جب وہ گئے تھے تو کانگریس کے ایک لیڈر کی حیثیت سے گئے تھے، اس بار وہ  اپوزیشن کے لیڈر بھی ہیں ۔ راہل بین الاقوامی موضوعات پر لیکچر دینے کیلئے یونیورسٹی کا دورہ بھی کرتے رہتے ہیں ۔ اس کا انہیں  معاوضہ بھی ملتا ہے، جس کا انکم ٹیکس محکمہ میں  پورا حساب کتاب موجود ہے۔ اس بار جب وہ گئے ہیں  تو ان کے پروگرام میں  ہندوستانی لوگوں  سے ملاقات بھی شامل ہے۔ اس بار امریکی ذمے دار بھی ان سے مل سکتے ہیں ، لیکن مجھے یقین ہے کہ راہل گاندھی نہ تو ٹرمپ سے ملیں  گے اور نہ کملا ہیرس سے اور وہ دونوں  لیڈر بھی راہل سے ملنے سے پرہیز کرینگے۔ یہ سب چیزیں  نریندر مودی کے مصائب میں  مزید اضافہ کریں  گی۔ پچھلی بار جب راہل گاندھی امریکہ گئے تھے تو وہاں  کی پریس نے ان کی بڑے پیمانے پر رپورٹنگ کی تھی اور امریکی عوام کو بتایا تھا کہ راہل گاندھی نہ صرف ہندوستان میں  بہت مقبول ہیں  بلکہ وہ ایک صاحب دماغ اور باشعور سیاستداں  ہیں ۔ اس بار جب وہ گئے تو امریکی پریس اور زیادہ رپورٹنگ کرے گا۔ پچھلی بار کے دورے سے بھی نریندر مودی بہت پریشان ہوئے تھے اور اس بار کا دورہ تو ان کے مصائب میں  یقینی اضافہ کریگا۔ عنقریب خود وزیر اعظم امریکہ کے دورے پر روانہ ہونے والے ہیں ، ایسے میں  ملکی و غیر ملکی صحافی دونوں  لیڈروں  کے دوروں  کاموازنہ تو کرینگے ہی! 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK