نئی دہلی میں وزیر خارجہ ایس جے شنکراور متقی کے مذاکرات کے بعد بھارت نے کابل میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کا اعلان کردیا۔ یہ اقدام بھارت کی جانب سے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا واضح اشارہ نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے؟جس طالبان کو مودی حکومت کل تک دہشت گرد قرار دیتی تھی آج اس کے وزیر کا شاہی مہمان کی طرح استقبال کیا جارہا ہے
ہندوستان نے جو کل تک طالبان کا کٹر مخالف تھا اور انہیں ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیتا تھا، جس گرم جوشی سے پچھلے ہفتے طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کا استقبال کیا اس نے ساری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔اگست ۲۰۲۱ء میں امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا اور کابل پر اپنا پرچم لہرانے کے بعد سے طالبان افغانستان پر حکومت کررہے ہیں تاہم آج تک سوائے روس کے کسی اور ملک نے ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیاہے۔ ۹؍ اکتوبر کے دن نئی دہلی میں وزیر خارجہ ایس جے شنکراور متقی کے مذاکرات کے بعد بھارت نے کابل میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کا اعلان کردیا۔ یہ اقدام بھارت کی جانب سے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا واضح اشارہ نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے؟
۱۵؍ اگست ۲۰۲۱ء میں سقوط کابل کے بعد یہ سفارت خانہ بند کردیا گیا تھا اور بھارت نے عجلت میں اپنا سارا سفارتی عملہ راتوں رات نئی دہلی واپس بلالیا اور طالبان حکومت کے ساتھ ہمارے رشتے بے حد کشیدہ ہوگئے۔اسی لئے اس خطے کی جیوپالیٹکس پر نظر رکنے والے ماہرین متقی کے بھارت کے چھ روزہ دورے کو بے حد اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں ۔کابل میں ہندوستانی سفارت خانہ کا احیا طالبان کی حکومت کو جواز بخشنے اور بین الاقوامی قبولیت میں اضافہ کرنے کی راہ میں ایک اہم قدم ہے۔ہندوستان نے جنگ زدہ افغانستان کے لئے انسانی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ امریکی اسکالر مائیکل کوگلمین نے اسے’’ طالبان کی اخلاقی فتح‘‘ قرار دیا ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ طالبان کی اخلاقی فتح کہیں ہماری اخلاقی شکست تو نہیں ۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ متقی کے نئی دہلی کے دورے سے طالبان کوکافی کچھ حاصل ہوا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہندوستان کو کیا ملاسوائے متقی کی اس یقین دہانی کے کہ طالبان افغانستان کی سرزمین سے ہندوستان کے خلاف کسی قسم کی شرانگیزی نہیں ہونے دیں گے؟ دنیا کے دوسرے ممالک نے طالبان کی یقینی فتح یابی کا صحیح اندازہ لگا کر ان کے ساتھ ۲۰۲۰ء میں ہی روابط قائم کرلئے تھے لیکن بھارت نے ایسا نہیں کیا تھا۔ بھارت کو طالبان پر ذرا سا بھی بھروسہ نہیں تھا کیونکہ اس کی نگاہ میں دہشت گرد وں کا یہ ٹولہ پاکستان کے اشاروں پر چلتاتھا۔ اسی لئے چار سال قبل طالبان کی اقتدار میں واپسی پر پاکستان میں جشن منایا گیا ، اسکے برعکس بھارت میں ماحول سوگوار تھا۔ ہمیں اس بات کا دکھ تھا کہ افغانستان سے ہمارے پاؤں اکھڑ گئے اور طالبان کے کاندھوں پر سوار ہوکر پاکستان افغانستان میں شاہانہ انداز میں دوبارہ داخل ہوگیا۔پاکستان شروع سے طالبان کو ہندوستان کے خلاف پراکسی کی طرح استعمال کرتارہا۔دسمبر ۱۹۹۹ء میں انڈین ائیر لائنز کے طیارے کا اغواء پاکستان اور طالبان کی مشترکہ سازش کا نتیجہ تھا۔لیکن دو سال قبل پاکستان پر ہوئے پے درپے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اس کے طالبان کے ساتھ تعلقات بگڑ نے لگے۔ پاکستان کا الزام ہے کہ ان حملوں میں ملوث تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کی پناہ گاہیں افغانستان میں واقع ہیں اور انہیں طالبان حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔
میں مانتا ہوں کہ خارجہ پالیسی میں جیوپالیٹیکل حقیقت پسندی کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے۔ مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ سفارت کاری میں کوئی ملک دائمی دوست یا دشمن نہیں ہوتا لیکن خارجہ پالیسی میں استقامت اور تسلسل بھی بے حد ضروری ہے خصوصاً ہندوستان جیسے عظیم ملک کے لئے۔ چھوٹے موٹے سفارتی مفادات کی حصولیابی کے لئے ہندوستان کے لئے اخلاقیات اور اصولوں کا دامن چھوڑنا قطعی غیر مناسب ہے۔ جن طالبان کو مودی حکومت اور بھارتیہ جنتا پارٹی کل تک دہشت گرد قرار دیتی تھی آج ان کے وزیر کا شاہی مہمان کی طرح استقبال کیا جارہا ہے۔جس صوبے کے وزیر اعلیٰ نے طالبان کی حمایت میں ایک ٹوئیٹ پر گرفتاری کا حکم صادر کر دیاتھا آج اسی اتر پردیش کی پولیس متقی کو گارڈآف آنر دینے کا پلان بنارہی تھی۔
کیا ہمیں احساس ہے کہ طالبان سے گلے مل کر مودی سرکار نے دہشت گردی کے تئیں زیرو ٹالیرنس کے اپنے موقف کا عالمی سطح پر مذاق بنوالیا ہے؟ بی جے پی اور گودی میڈیا مسلسل لو جہاد، زمین جہاد، کورونا جہاد، مہندی جہاد اور نہ جانے کون کون سے من گھڑت جہادوں کا شوشہ چھوڑکر ہندوستان کے مسلمانوں کو معتوب کرتے رہتے ہیں ۔ تعجب ہے آج طالبان جیسے بزعم خود جہادیوں کی آؤ بھگت کرتے ہوئے ہمیں ذراسی پشیمانی نہیں ہورہی ہے! ایک جانب حکومت متقی کا سواگت کررہی ہے اور دوسری جانب گودی میڈیا کو طالبان کا دفاع کرنے پر مامور کردیا گیا ہے۔ درباری میڈیا اپنے آقا کو شرمندگی سے بچانے کیلئے’’ دشمن کا دشمن ہمارا دوست‘‘کا راگ الاپ رہا ہے۔کیا طالبان کے ساتھ ہماری قربتیں صرف اس لئے جائز ہیں کہ طالبان اور پاکستان کے درمیان فاصلے پیدا ہوچکے ہیں ؟
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہندوستان کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا اعزاز حاصل ہے اورطالبان کی حکومت اور کچھ بھی ہو جمہوری تو ہرگز نہیں ہوسکتی ۔ طالبان کو اگر ابھی تک اقوام عالم نے تسلیم نہیں کیا ہے تو اس کے معقول اسباب ہیں ۔ طالبان کے خلاف انسانی حقوق کی پامالی، عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتنے اور اقلیتوں کے ساتھ نسلی بھید بھاؤکرنے کے علاوہ دہشت گردوں کی سرپرستی جیسے سنگین الزامات ہیں ۔اقوام متحدہ نے طالبان پر عائد کردہ پابندیاں ابھی تک نہیں ہٹائی ہیں اورنہ ہی ’’عالمی دہشت گرد‘‘ کا لقب واپس لیا ہے۔کیاہمیں اندازہ بھی ہے کہ ہم نے دہشت گردی مخالف اصولی موقف کا خود ہی گلا گھونٹ دیا ہے؟ آپریشن سیندور کے بعد ہمارے پارلیمانی وفود ساری دنیا میں گھو م گھوم کر پہلگام کے دہشت گردانہ حملوں کے لئے پاکستان کوذمہ دار ٹھہرا رہے تھے۔ کیا اب دہشت گردی کے خلاف اس طرح کا کوئی مشن بھیجنے کا ہمیں کوئی اخلاقی جواز رہ جاتا ہے؟کیا اب ہماری بین الاقوامی ساکھ سلامت رہ سکے گی؟
آج کل مودی جی کی ایک ویڈیو کلپ تیزی سے وائرل ہورہی ہے جس میں وہ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ اب گڈ طالبان اور بیڈ طالبان، گڈ ٹیررسٹ اور بیڈ ٹیررسٹ نہیں چلے گا۔ ’’دنیا کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ دہشت گردوں کے ساتھ ہے یاانسانیت کے۔‘‘اب اگردنیا مودی سرکار سے یہ وضاحت طلب کرے کہ وہ جس طالبان کے ساتھ اتنی گرم جوشی سے بغل گیر ہورہی ہے وہ گڈ طالبان ہیں یا بیڈ طالبان تو سرکارکیا جواب دے گی؟دنیا مودی سرکار سے یہ بھی پوچھ سکتی ہے کہ ہندوستان دہشت گردوں کے ساتھ ہےیا انسانیت کے ساتھ۔