ایک دہائی کافی ہوتی ہے کسی منصوبے یا مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے۔ اسمارٹ سٹی مشن کو اب تک کامیابی کی مثال بن جانا چاہئے تھا مگر یہ نہیں ہوا
اُس روز مَیں اپنی رہائش گاہ سے باہر نکلا اور آس پاس نظر دوڑائی تو محسوس کیا کہ دس سال میں اس علاقے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ ٹریفک بڑھ گیا ہے۔ تب ہی مجھے اخبار کی وہ سرخی یاد آئی جو مَیں نے چند روز پہلے پڑھی تھی۔ لکھا تھا: ’’کروڑوں خرچ کردیئے گئے، اسمارٹ سٹی مشن کے ڈھیر سارے بل ہیں مگر اب بھی انفراسٹرکچر یوں ہی سا ہے۔‘‘
اس سرخی کے ساتھ شائع ہونے والی رپورٹ میں وہی کہا گیا تھا جو یہاں رہنے والا ہر شخص محسوس کرتا ہے مثلاً یہ کہ اسمارٹ سٹی کا منصوبہ دس سالہ تھا۔ دس سال پورے ہوگئے مگر کوئی فرق نہیں آیا۔ اب محسوس ہوتا ہے کہ یہ مشن یا منصوبہ سرد خانے میں چلا گیا ہے اور اس ضمن میں مزید وعدوں کی اُمید کم سے کم تر ہوگئی ہے۔
یاد کیجئے کہ اسمارٹ سٹی مشن کا مقصد شہروں کو اس قابل بنانا تھا کہ وہ بہترین رہائش کے قابل ہوں ، بہترین رہائش کا معنی یہ تھا کہ شہریوں کا معیار ِ زندگی یورپی شہروں کے معیارِ زندگی جیسا ہو۔ یہ بات، اسمارٹ سٹی کے بارے میں اربن منسٹری کے مقصدی کلمات (کاسیپٹ نوٹ) میں کہی گئی تھی۔ حکومت نے کہا تھا کہ یہ خواب ۲۰۲۰ء تک پورا ہوگا۔ ۲۰۱۴ء میں اُس وقت کے ممتاز لیڈر اور رکن پارلیمان ارون جیٹلی نے پارلیمنٹ میں بھی اسمارٹ سٹی کے مقصد پر روشنی ڈالی اور کہا تھا کہ اس کا مقصد ملک کے متوسط طبقے کی خدمت کرنا ہے جسے وزیر اعظم مودی کی معاشی پالیسیوں کے ذریعہ وسعت حاصل ہوگی۔ ایک سال بعد، ۲۰۱۵ء میں حکومت کے بیان میں تبدیلی آگئی اور ہمیں بتایا گیا کہ اس مشن کا مقصد یورپی شہروں کی نقل کرنا نہیں بلکہ ہندوستانی شہروں کے مسائل کو سمجھ کر انہیں حل کرنا ہے لہٰذا پانی کی خاطر خواہ فراہمی، تسلسل کے ساتھ بجلی کی فراہمی، گندے پانی کی نکاسی کا معقول انتظام، پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر بنانا، غریبوں کیلئے مکانات کی خرید کو آسان بنانا، خواتین کا تحفظ، صحت عامہ اور سب کیلئے تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائیگی۔ دیکھا جائے تو یہ سارے کام میونسپلٹیوں کے ہیں ۔ وہ کریں نہ کریں ، تھوڑا بہت کریں بقیہ چھوڑ دیں یا زیادہ کریں ، ہے اُن ہی کی ذمہ داری۔ہونا کیا چاہئے تھا؟ ہونا یہ چاہئے تھا کہ اس مشن کو بہر صورت نافذ کیا جاتا اور بیک دم یہ سارے کام کروائے جاتے۔ مگر یہ کہاں ہوا۔ اس کے برخلاف جو ہوا وہ یہ ہے کہ مودی حکومت کی دلچسپی اسمارٹ سٹی میں کم اور پھر کافور ہوگئی۔ ۲۰۲۱ء میں بتایا گیا تھا کہ اسمارٹ سٹی کے منصوبے کی تکمیل کیلئے جو بجٹ دیا گیا تھا اس کا نصف حصہ خرچ ہوا ہی نہیں ۔
رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۹ء تک ۴۸؍ ہزار کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے مگر ۲۰۱۵ء سے ۲۰۱۹ء تک کے درمیان صرف آدھی رقم ہی جاری کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس نصف رقم کا بھی تین چوتھائی حصہ ہی جاری کیا گیا۔ اس میں سے بھی ۳۶؍ فیصد رقم ہی استعمال کی گئی۔ اس کا معنی یہ ہے کہ جو ۴۸؍ ہزا رکروڑ روپے منظور کئے گئے تھے اس میں سے صرف ۶۱۶۰؍ کروڑ ہی خرچ کئے گئے۔
شہری ترقیات کی پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی کا کہنا تھا کہ زمینی سطح پر اسمارٹ سٹی منصوبے کی پیش رفت دیکھ کر اُسے خاصی حیرانی ہوئی۔ اس نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ اس کے سامنے ایسی کئی مثالیں ہیں جن میں ایک ہی ٹھیکیدار یا ایجنسی نے دوسرے ٹھیکیدار یا ایجنسی کے کام کو چوپٹ کردیا۔ ۳۵؍ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں سے ۲۶؍ ایسے ملے جہاں بجٹ کا ۲۰؍ فیصد سے بھی کم دیا گیا۔ وہ تمام مسائل جو ہمارے یہاں عام ہیں ، اسمارٹ سٹی منصوبے میں بھی موجود رہے۔ اسٹینڈنگ کمیٹی نے کہا کہ یہ بتانے کے باوجود کہ کام کا میکانزم کیا ہوگا، اب تک بھی ہمیں شکایتیں مل رہی ہیں ۔ اسی لئے کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ اسمارٹ سٹیز کے جن جن کاموں کی پیش رفت پر سوال اُٹھایا جارہا ہے ہر اُس کام کی تحقیق ہو کہ اُتنا کام ہوا ہے یا نہیں ۔ اگر اُتنا بھی کام نہیں ہوا ہے تو جو ذمہ دار ہے اُسے قانون کے دائرہ میں لایا جائے۔ جو حلقے اب بھی اسمارٹ سٹی مشن سے دلچسپی رکھتے ہیں اُنہوں نے کئی خامیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس سلسلے کی رپورٹوں میں اس بات پر اصرار کیا گیا ہے کہ کام کی پیش رفت کے سلسلے میں ہونے والے دعوؤں کو سامنے رکھا جائے تو ان میں ہائی اینڈ انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی ڈریون سرولانس کی بات کی گئی ہے مگر بنیادی سہولتوں کا کوئی تذکرہ نہیں ہے مثلاً پانی، اسکول، اسپتال اور ہاؤسنگ۔ جہاں تک علاقائی تزئین و مرمت کا تعلق ہے، کہا گیا کہ اس میں شہر کے مخصوص علاقوں کو نکھارنے اور سنوارنے پر توجہ دی گئی اور اسی پر کافی رقم خرچ کی گئی جبکہ کئی شہروں میں ایسے علاقے ہیں جو کافی بہتر ہیں ۔ مثال کے طور پر بنگلور میں اسمارٹ سٹی کے بجٹ سے دی گئی رقم کو چرچ اسٹریٹ کو نکھارنے اور سنوارنے پر خرچ کیا گیا جو کہ پہلے سے کافی ڈیولپڈ علاقہ ہے۔ اسی طرح انفینٹری روڈ، کامراج روڈ، ٹاٹا لین، ووڈ اسٹریٹ، کاسل اسٹریٹ، ڈکنسن روڈ، کین سنگٹن روڈ، سینٹ جوہن اسٹریٹ، ریسیڈنسی روڈ، کستوربا ر روڈ، براؤننگ اسپتال روڈ وغیرہ بھی پہلے ہی سے بہتر علاقے ہیں مگر ان علاقوں میں رقم خرچ کی گئی۔
دہلی کی طرف نگاہ کریں تو رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی اسمارٹ سٹی مشن کے تحت نئی دہلی میونسپل کارپوریشن کے علاقوں میں تزئین کاری ہوئی جو کہ پہلے سے بہتر حالت میں ہیں ۔ مقصد تھا نئے متوسط طبقے کے رہائشی علاقو ں کو بہتر بنانے کا جو کہ مودی کی معاشی پالیسیوں سے ممکن نہیں ہوسکا تھا۔ اسمارٹ سٹی مشن کا ایک نقصان یہ ہے کہ اس سے شہروں کے وہ لوگ جو غریب ہیں وہ پہلے سے زیادہ حاشئے پر چلے گئے۔ یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ اسمارٹ سٹی کیلئے جو بجٹ ۲۰۱۸ء کیلئے دیا گیا تھا وہی ۲۰۱۹ء کیلئے دیا گیا۔ اس کے بعد جب ۲۰۲۱ء کا بجٹ آیا تو اس میں اسمارٹ سٹی کا نام نہیں لیا گیا۔ اس کی وضاحت شملہ کےسابق ڈپٹی میئر تکیندر سنگھ پنوار نے اس طرح کی: ’’ اسمارٹ سٹی مشن کے تحت بننے والے شہروں کو ملک کے دیگر شہروں کیلئے مثال ہونا چاہئے تھا مگر اب صورت حال یہ ہےکہ اسمارٹ سٹی مشن مودی حکومت کیلئے خفت کا سامان بن گیا ہے۔‘‘اس تناظر میں کہنا مشکل ہے کہ اب حکومت کبھی اس کا نام بھی لے گی یا نہیں اور کیا یہ سمجھا جائے کہ مشن ختم ہوا؟