Inquilab Logo Happiest Places to Work

ملک کی بدلتی تصویر اور مسلم اقلیت کے خلاف رویے!

Updated: May 01, 2025, 2:32 PM IST | Dr. Mushtaq Ahmed | Mumbai

مغربی بنگال کے مرشد آباد کا واقعہ اگرچہ ایک سازش کا نتیجہ ہے لیکن اس احتجاجی تحریک کو متنازع بنا سکتا ہے اس لئے مسلم طبقے کو ہوشیار رہنا ہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

حال ہی میں راقم الحروف نے اپنے کالم بہ عنوان ’’ایک صدی کا ہندوستان اور مسلمان‘‘ میں اس حقیقت کو عیاں کرنے کی کوشش کی تھی کہ اس وقت ہندوستان میں جواضطرابی صورتحال ہے وہ ایک دو سال یا ایک دہائی کی مسلسل کوششوں کا ثمرہ نہیں ہے بلکہ گزشتہ ایک صدی میں اس کے لئے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی زمین میں زہریلے پودے کی آبیاری کی گئی ہے اس کا نتیجہ ہے۔اس لئے موجودہ حالات کو اسی تاریخی پسِ منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آج ہمارا ہندوستان ایک حساس تاریخی دور سے گزر رہا ہے اور ملک کی سب سے بڑی مسلم اقلیت کے خلاف روز بروز نئے نئے مسائل پیدا کئے جا رہے ہیں اور اکثریت طبقے کے ذہن میں اقلیت کے خلاف نہ صرف نفرت پیدا کی جا رہی ہے بلکہ اکثریت میں یہ خوف بھی پیدا کیا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہاں کی مسلم اقلیت ہندو اکثریت کے لئے خطرہ بن سکتی ہے۔ اس لئے قومی سطح پر ایک نئی سماجی اور سیاسی صف بندی ہو رہی ہے اور اس کا خمیازہ ملک کے مختلف حصوں میں اقلیت طبقے کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
 واضح رہے کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور ہمارے آئین میں تمام شہری کوبلا تفریق مذہبی اور لسانی مساوات وآزادی کے حقوق دئیے گئے ہیں لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ اب آئین کی بھی اَن دیکھی ہو رہی ہے اور ملک کی سب سے بڑی عدالت عظمیٰ کو بار بار یہ کہنا پڑ رہاہے کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں آئین کی نہ صرف خلاف ورزی ہو رہی ہے بلکہ اس کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ اس کے باوجود مرکزی حکومت اور مختلف ریاستی حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔حا ل ہی میں تمل ناڈو کے گورنر آر این روی کی کارکردگی پر عزت مآب عدالتِ عظمیٰ نے جو تبصرہ کیا ہے وہ نہ صرف چشم کشا ہے بلکہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ کس طرح جمہوریت کی پاسداری کا حلف لینے والے ہی جمہوریت کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ اسی طرح اتر پردیش سمیت دیگر ریاستوں میں بلڈوزرکی غیر قانونی کارروائی کے خلاف بھی ہماری عدالتوں نے تبصرے کئے ہیں اور حکم نامے بھی صادر کئے ہیں مگر اس حکم نامے کی بھی حکومت کو پرواہ نہیں ہے اور مقننہ کے پاسدار بھی ہمارے معزز جج صاحبان کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ نتیجہ ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں انانیت کی روش عام ہورہی ہے اور بالخصوص مسلم اقلیت طبقے کو ہراساں و پریشان کرنے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔
 حالیہ وقف قانون بھی اسی سازش کا ایک بڑا حصہ ہے کہ اس قانون کے ذریعہ ملک کی اکثریت کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ قانون ملک کے مفاد میں ہے ۔ ظاہری طور پر یہ کہا جا رہاہے کہ یہ پسماندہ مسلم طبقے کے لئے ترقی کی راہیں ہموار کرے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قانون کے ذریعہ وہ ایک طرف ملک کی اکثریت اور بالخصوص ہندوتوا پرست تنظیموں کو خوش کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس ملک میں اقلیت طبقے کو سر اٹھا کر جینے کی اجازت نہیں دیں گے اور دوسری طرف مسلم اتحاد کو بھی پارہ پارہ کر رہے ہیں کہ یہ قانون پسماندہ مسلمانوں کے مفاد میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قانون کی حمایت میں کچھ تنظیموں نے اور بالخصوص پسماندہ طبقے کے مٹھی بھر لوگوں نے حکومت کے اس فیصلے کی حمایت کرنی بھی شروع کی ہے۔ ظاہر ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں میں مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی سیاست میں وہ کامیاب رہے ہیں اور جس کا آغاز ریاست بہار سے ہوا تھا کہ لالو یادو اور نتیش کمار کی قیادت والی حکومت میں پسماندہ طبقے کی سیاست کو تقویت دی گئی ۔ اگرچہ اس سے پسماندہ سماج کا کچھ بھی بھلا نہیں ہوا البتہ دو چار افراد قانون ساز کونسل اور راجیہ سبھا ضرور پہنچ گئے۔میں یہاں اس حقیقت کا بھی اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جب کبھی پسماندہ طبقےکیلئے سرکاری مراعات کا مطالبہ ہوا تو مسلم سماج کی طرف سے شاید ہی کسی نے اس کی مخالفت کی ہو۔کیوں کہ میرا ماننا ہے کہ اگر مسلم پسماندہ طبقے کو خصوصی رعایت دی جاتی ہے تو مسلم سماج کے ایک بڑے حصے کی تصویر بدل سکتی ہے۔
 بہر کیف! اس وقت پورے ملک میں وقف قانون کے خلاف جمہوری طریقے سے احتجاج ہو رہاہے اور یہ ضروری بھی ہے کہ ایک جمہوری ملک میں یہی ایک طریقہ ہے کہ ہم اپنے آئینی حقوق کا استعمال کریں لیکن اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ ہمارے احتجاجی عمل سے کسی کی آزادی سلب نہ ہو اور کسی کی دل آزاری نہ ہو۔اس وقت ملک کے مختلف حصوںمیں جمہوری طریقے سے احتجاجی جلوس نکل رہے ہیں اور حکومت تک اپنی بات پہنچائی جا رہی ہے لیکن افسوس کہ کہیں کہیں نازیبا واقعات بھی ہوئے ہیں ۔ مغربی بنگال کے مرشد آباد کا واقعہ اگرچہ ایک سازش کا نتیجہ ہے لیکن اس احتجاجی تحریک کو متنازع بنا سکتا ہے اس لئے مسلم طبقے کو ہوشیار رہنا ہے اور تمام تر جذباتی واشتعال انگیزی سے پرہیز کرنا لازم ہے کیوں کہ اس قانون کا مقصد ہی ملک میں مسلم اقلیت کے خلاف نئی صف بندی ہے۔جہاں تک ہمارے کچھ مسلم پسماندہ طبقے کے بھائیوں کے موقف کا سوال ہے کہ وہ اس وقف قانون کو پسماندہ طبقے کے لئے مفید سمجھ رہے ہیں وہ بھی غلط فہمی کے شکار ہیں کیوں کہ اس وقت ملک میں صرف اور صرف مسلمان ہونا ہی شدت پسند تنظیموں کی آنکھوں میں چبھنے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ حالیہ پارلیمانی انتخابی اجلاس راجستھان کے بانسواڑہ میں ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی نے اس بات کی وضاحت کردی تھی کہ اس ملک کے مسلمان اکثریت طبقے کے منگل سوتر چھین لیں گے، اس کی زمین جائیداد قبضہ کرلیں گے، اس کی بھینسیں کھول کر لے جائیں گے اور طرح طرح کی نفرت انگیز باتیں کہی تھیں جس کے اثرات بھی نمایاں ہو رہے ہیں۔اس نازک وقت میں پسماندہ طبقے کے بھائیوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ ملک کے بدلتے حالات کو اور مسلمانوں کے خلاف ہو رہی سازشوں کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کریں کہ یہی ہمارے اتحاد میں ہے۔اس وقت پورے ملک میں ایک ایسی تحریک بھی چلانے کی ضرورت ہے جو مسلمانوں کو محلہ سطح پر متحد کر سکے۔ میرے خیال میں اس وقت ’’مسلم محلہ اصلاح مہم ‘‘ یا پھر ’’مسلم محلہ اتحاد مہم ‘‘ چلانے کی ضرورت ہے تاکہ زمینی سطح پر ہم پھر بکھرے ہوئے شیرازوں کو یکجا کر سکیں۔ گزشتہ دنوں پہلگام میں جو سانحہ ہوا ہے وہ نہ صرف غیر انسانی فعل ہے بلکہ مذہب کے نام پر پوری قوم کو شرمسار کرنے والا عمل ہے اس لئے اس کی پر زورمذمت کی جانی چاہئے اور اس حادثے کی آڑ میں جس طرح فتنے پھیلائے جا رہے ہیں اس سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK